Muslim:
The Book of Transactions
(Chapter: The prohibition of the town-dweller selling on behalf of a bedouin)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1521.
طاؤس کے بیٹے نے اپنے والد سے، انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا کہ باہر نکل کر قافلے والوں سے ملا جائے اور اس سے کہ کوئی شہری کسی دیہاتی کی طرف سے بیع کرے۔ (طاؤس نے) کہا: میں نے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے پوچھا: آپﷺ کے فرمان: ’’کوئی شہری دیہاتی کی طرف سے (بیع نہ کرے)‘‘ کا کیا مفہوم ہے؟ انہوں نے جواب دیا: وہ اس کا دلال نہ بنے۔
تشریح:
فوائد و مسائل:
سمسار (دلال) سے مراد وہ آدمی ہے جو بیچنے اور خریدنے والے کے درمیان آ کر قیمت وغیرہ کے حوالے سے طرفین کو راضی کرتا ہے اور عام طور پر دونوں سے اجرت لیتا ہے۔ وہ صرف بیچنے والے کا وکیل بھی بنے تو نہ صرف خود اجرت لے کر قیمت بڑھانے کا سبب بنتا ہے بلکہ زیادہ قیمت حاصل کرنے کے لیے مال روکنے کا سبب بھی بنتا ہے۔ بعض علماء اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ محض بولی لگانے والا سمسار نہیں بلکہ بیچنے کے لیے سارے عمل کو اپنے کنٹرول میں لینے والا سمسار ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے فرمان کا مقصود یہ ہے کہ آزادانہ خریدوفروخت میں وداخلت روکی جائے۔ ہمارے ہاں آڑھتی بولی لگانے سے آگے بڑھ کر پورے مداخلت کار بنتےہیں اور دونوں طرف سے پیسے اور چیزیں بٹورتے ہیں جو ممنوع ہے۔
تجارت انسانی معاشرے کی بنیادی ضرورتوں میں سے ایک ہے۔ انسانوں کو ہر وقت مختلف اشیاء کی ضرورت رہتی ہے۔ وہ اس کی تمام اشیاء بیک وقت حاصل کر کے ان تمام کا ذ خیرہ نہیں کر سکتا۔ بعض اشیاء کو زیادہ مقدار میں ذخیرہ کیا ہی نہیں جاسکتا، اس لیے ایسے لوگوں کی موجودگی جومختلف اشیاء کو لائیں ، رکھیں اور ضرورت مندوں کو قیمت مہیا کر میں ناگزیر ہے۔
خرید وفروخت کے معاملات اگر انصاف پر مبنی ، دھوکے اور فریب سے پاک اور ضرر سے محفوظ ہوں تو یہ بہت بڑی نعمت ہے۔ لیکن ہمیشہ ایسا ہوتا نہیں۔ انسانی معاشرے میں تجارت کی تاریخ جتنی پرانی ہے، تجارت کی آڑ میں لوگوں کے استحصال کی تاریخ بھی تقریبا اتنی ہی پرانی ہے۔ اسلام کا مشن یہی ہے کہ انسانی زندگی کے تمام معاملات عدل و انصاف، انسانوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ اور اجتمائی اور انفرادی فلاح و بہبود پر استوار کیے جائیں۔ انسانی تاریخ میں تجارت کو سب سے پہلے ان بنیادوں پر استوارکرنے کا سہرا اسلام کے سر ہے۔
بعثت سے پہلے عرب سمیت پوری دنیا میں ایسے سودوں ، خرید و فروخت کی ایسی صورتوں کی بھر مارتھی جن میں کسی نہ کسی فریق کو شدید نقصان اٹھانا پڑتا تھا۔ خرید وفروخت کے طریقوں میں دھوکا شامل تھا۔ اس حوالے سے کیے گئے معاہدوں میں فریب موجود تھا۔ قیمت اور اشیاء اجناس، منفعت یا خدمات جن کا لین دین ہوتا تھا ، ان سب میں فریب شامل تھا۔ عرب میں فریب پرمبی بیع کی جو صورتیں رائج تھیں ان میں ملامسہ اور منابذہ بھی تھیں ۔ اگر خر یدا غور کیے بغیر کپڑے کو چھو لے تو بیع پکی ہوگئی ، مثلا: تم اپنا کپڑا میری طرف پھینک دو، میں اپنا کیر تمھاری طرف پھینک دیتا ہوں سودا کیا ہو گیا، جس کی جو قسمت اسے مل جائے گا۔ میں ایک کنگری پھینکوں گا جس کپڑے کی جس لمبائی تک جائے گی، وہ تمھارا ‘‘ اس میں سوچنےسمجھنے کی گنجائش نہ صحیح پیمائش کی ۔ وہ ایسی چیزوں کی بیع بھی کر لیتے تھے جو ابھی وجود میں نہیں آئیں، اس کا دیکھنا مکن نہ رکھنا ، مثلا: یہ کہ اونٹنی بچہ دے گی ، وہ حاملہ ہو کر پھر بچہ دے گی وہ تمھارا ہوگا ۔ یہ حبل الحبلہ بیع کہلاتی تھی۔
مصنوعی طریقے سے قیمت بڑھانے کے حیلے کیے جاتے تھے۔ اب بھی کیے جاتے ہیں۔ فرضی گا ہک کھڑےکر کے ضرورت کی چیزوں کی قیمتیں بڑھائی جاتی تھیں ۔ اسے نجش کہا جاتا تھا۔ اب اشتہار بازی کے ذریعے باور کرایا جاتا ہے کہ فلاں چیز آپ کی شدید ضرورت ہے۔ مصنوعی قلت پیدا کر کے قیمتوں میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ خریدنے میں بھی فریب کا چلن تھا۔ راستے میں جا کر، منڈی کے بھاؤ سے بے خبر مال لانے والوں سے اشیاء خریدنا ، جوشخص منڈی کے ریٹ پر اپنی اشیاء فروخت کرنا چاہتا ہے، اسے زیادہ قیمت کا لالچ دے کر فروخت کی ذمہ داری لینا اور قیمتیں بڑھا کر خود فائدہ اٹھانا اور مہنگائی پیدا کرتا۔ دودھ دینے والے جانورکے تھنوں میں دودھ روک کر زیادہ قیمت پر بیچنا، اشیاءکو تولے یا نا پے بغیر ان کا سودا کر لینا ، باغ کے درختوں پر بور لگتے ہیں یا اس سے بھی پہلے ان کے پھل کا سودا کر دیتا چاہیے بورہی نہ لگے،یالگے تو آندھی یا بیماری وغیرہ کا شکار ہو کر ضائع ہو جائے ۔ فصل پکنے کے بعد اناج اکٹھا کر کے وزن باماپ سے بچنے کی بجائے کھڑی فصل کو اناج کی متعین مقدار کے عوض بیچ دینا، چیز کا عیب چھپا کر دھوکے سےبیچ دینا، غیر منصفانہ طریقے سے زمین کو اجرت پر دینا، یہ سب دھوکے اور فریب کی صورتیں معاشرے میں رائج تھیں۔ رسول اللہ ﷺنے فریب مبنی لین دین کی تمام صورتوں کو حرام قرار دیا۔ دیکھ بھال کر، پرکھ کر اور تسلی سے قیمت چکا کر سودا کرنےکے طریقے رائج فرمائے ۔ لین دین کرنے والے فریقوں کو سودا ہو جانے کے بعد بھی مناسب وقت تک اس کی واپسی کا اختیار دیا۔ عیب اور دھوکے کی بنا پر پتہ لگنے تک واپسی کو یقینی بنایا ۔ غرض چیز، قیمت، خریدار فروخت کرنے والے ، خرید و فروخت کی صورت اور شرائط ، تمام اجزائےبیع کے حوالے سے دیانت و امانت، شفافیت، حقوق کی پاسداری اور کسی بھی غلطی کے ازالے کو یقینی بنایا۔ ان اصلاحات کے بعد دنیا بھر میں مسلمانوں کا انداز تجارت انتہائی مقبول ہو گیا۔ مسلمان تاجر اسلامی معاشرے کے نقیب بن گئے اور عالمی تجارت کو فروغ حاصل ہوا۔ پوری دنیا نے ان میں سے اکثر اصولوں کو تجارت کی بنیاد کے طور پر اپنا لیا۔ بعض معاشروں نے البتہ سود اور حرام چیزوں کی خرید وفروخت کونئی سے نئی صورتوں میں نہ صرف جاری رکھا بلکہ ان کے ذریعے سے دنیا بھر کا استحصال کیا اور ابھی تک جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ لین دین کے پورے نظام کا بغور جائزہ لیا جائے تو انصاف اور اجتماعی فلاح کی ضمانت انہی اصولوں پر عمل کرنے سے حاصل ہو سکتی ہے جو اسلام نے رائج کیے ہیں ۔ افسوں کہ خود مسلمان انصاف اور فلاح کے ان اصولوں کوچھوڑ کر ظالمانہ طریقوں پر عمل پیرا ہو گئے اور تجارت میں بھی شدید پسماندگی کا شکار ہو گئے ۔ دوسرے معاشروں نے جس حد تک دیانت و امانت کے اسلامی اصولوں کو اپنایا اسی نسبت سے وہ آگے بڑھ گئے۔ صحیح مسلم کی کتاب البیوع کے بعد کتاب المساقاة والمزارعد بھی لین دین کے اصولوں پر محیط ہے۔
طاؤس کے بیٹے نے اپنے والد سے، انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا کہ باہر نکل کر قافلے والوں سے ملا جائے اور اس سے کہ کوئی شہری کسی دیہاتی کی طرف سے بیع کرے۔ (طاؤس نے) کہا: میں نے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے پوچھا: آپﷺ کے فرمان: ’’کوئی شہری دیہاتی کی طرف سے (بیع نہ کرے)‘‘ کا کیا مفہوم ہے؟ انہوں نے جواب دیا: وہ اس کا دلال نہ بنے۔
حدیث حاشیہ:
فوائد و مسائل:
سمسار (دلال) سے مراد وہ آدمی ہے جو بیچنے اور خریدنے والے کے درمیان آ کر قیمت وغیرہ کے حوالے سے طرفین کو راضی کرتا ہے اور عام طور پر دونوں سے اجرت لیتا ہے۔ وہ صرف بیچنے والے کا وکیل بھی بنے تو نہ صرف خود اجرت لے کر قیمت بڑھانے کا سبب بنتا ہے بلکہ زیادہ قیمت حاصل کرنے کے لیے مال روکنے کا سبب بھی بنتا ہے۔ بعض علماء اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ محض بولی لگانے والا سمسار نہیں بلکہ بیچنے کے لیے سارے عمل کو اپنے کنٹرول میں لینے والا سمسار ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے فرمان کا مقصود یہ ہے کہ آزادانہ خریدوفروخت میں وداخلت روکی جائے۔ ہمارے ہاں آڑھتی بولی لگانے سے آگے بڑھ کر پورے مداخلت کار بنتےہیں اور دونوں طرف سے پیسے اور چیزیں بٹورتے ہیں جو ممنوع ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے اس سے کہ تجارتی قافلہ کو شہر سے باہر ملا جائے اور اس سے کہ شہری بدوی کے لیے بیع کرے۔ طاؤس کہتے ہیں، میں نے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے پوچھا، حاضر لَبادٍ کا کیا مقصد ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا اس کا دلال نہ بنے۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
جنگلی اپنا مال فروخت کے لیے منڈی میں لاتا ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ میں اپنا مال فروخت کر کے چلا جاؤں اور اس سامان کی شہر والوں کو ضرورت ہے، اس لیے مال فوراً بک جائے گا، لیکن شہری اس کو کہتا ہے، اپنا سامان میرے سپرد کر دو، میں یہ مال موجودہ نرخ سے بعد میں مہنگا فروخت کر دوں گا، اس طرح جو چیز شہریوں کو سستی مل سکتی تھی، وہ بعد میں مہنگی ملے گی یا اس کا خطرہ ہو گا، شوافع اور حنابلہ نے اس کی حرمت کے لیے چار شرطیں لگائی ہیں: (1) شہری خود پیشکش کرے کہ سامان کی فروخت کے لیے مجھے وکیل یا دلال بنا لو۔ (2) جنگلی یا بدوی کو نرخ کا علم نہ ہو، اگر بھاؤ کا پتہ ہو تو پھر حرام نہیں ہے۔ (3) وہ سامان فوری فروخت کے لیے لایا ہو اور اس دن کے بھاؤ پر بیچنا چاہتا ہو۔ (4) اس سامان کی لوگوں کو ضرورت ہو، اور دیر سے بیچنے سے تنگی اور ضیق کا خطرہ ہو۔ اگر ان شروط کی موجودگی میں شہری بیچے گا تو یہ جرم اور گناہ ہے اور بیع صحیح ہے۔ اور احناف کا موقف یہ ہے اگر اس بیع سے شہریوں کو نقصان پہنچتا ہو تو پھر یہ کام ناجائز ہے۔ لیکن بیع گناہ کے باوجود احناف، شوافع اور مالکیہ کے نزدیک ہو جائے گی، اور احناف کے نزدیک دیانتا فسخ ہونا چاہیے کیونکہ بیع مکروہ کا یہی حکم ہے، امام ابن حزم کے نزدیک یہ بیع منعقد نہیں ہو گی اور امام احمد کا بھی ایک قول یہی ہے اور ایک قول دوسرے ائمہ کے مطابق ہے اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کے نزدیک شہری دلالی (اجرت) لے کر فروخت کرے تو ناجائز ہے، اگر بلا اجرت فروخت کرے تو جائز ہے کیونکہ یہ ہمدردی اور خیرخواہی ہے، امام بخاری کا بھی یہی موقف ہے۔ لیکن جمہور کے نزدیک ہر صورت میں ممنوع ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Ibn 'Abbas (RA) reported Allah's Messenger (ﷺ) as saying: The riders (carrying merchandise) should not be met in the way, and townsman should not sell for a man of the desert. The narrator reported. I said to Ibn 'Abbas (RA) : What do these words really imply-" The townsman for the man of the desert"? He said: That he should work as a broker on his behalf.