باب: جو شخص کھجور کا ایسا درخت فروخت کرے جس پر پھل لگا ہو
)
Muslim:
The Book of Transactions
(Chapter: One who sells date palms on which there are dates)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1543.
یحییٰ بن یحییٰ نے کہا: میں نے امام مالک کے سامنے قراءت کی، انہوں نے نافع سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے کھجور کا ایسا درخت فروخت کیا جس پر نر کھجور کا بورڈ ڈالا گیا ہو تو اس کا پھل فروخت کرنے والے کا ہے الا یہ کہ خریدار (بیع کے دوران میں) شرط طے کر لے۔‘‘
تشریح:
فوائد و مسائل:
تابیر سوئی لگانے کو کہتے ہیں چاہے انجیکشن کی ہو یا کسی جاندار کا ڈنک ہو۔ مقصود خفیف لیکن مؤثر مقدار میں کسی چیز کو منتقل کرنا ہے۔ کھجور کے پھل لانے والے درختوں پر بور لگنے کے وقت نر کھجور کا بور پھینکنے سے زیادہ مقدار میں پھل آتا ہے، اس عمل کو تابیر کہا جاتا ہے۔ جس نے درختوں کی خدمت کی، پھر پھل کی اصلاح اور اضافے کے لیے محنت کی، پھر اس پھل پر اسی کا حق ہے۔ ہاں اگر درخت خریدنے والا قیمت طےکرتے وقت پھل بھی ساتھ حاصل کرنے کا سودا کر لے تو اس صورت میں وہ پھل کا حقدار ہو گا۔
تجارت انسانی معاشرے کی بنیادی ضرورتوں میں سے ایک ہے۔ انسانوں کو ہر وقت مختلف اشیاء کی ضرورت رہتی ہے۔ وہ اس کی تمام اشیاء بیک وقت حاصل کر کے ان تمام کا ذ خیرہ نہیں کر سکتا۔ بعض اشیاء کو زیادہ مقدار میں ذخیرہ کیا ہی نہیں جاسکتا، اس لیے ایسے لوگوں کی موجودگی جومختلف اشیاء کو لائیں ، رکھیں اور ضرورت مندوں کو قیمت مہیا کر میں ناگزیر ہے۔
خرید وفروخت کے معاملات اگر انصاف پر مبنی ، دھوکے اور فریب سے پاک اور ضرر سے محفوظ ہوں تو یہ بہت بڑی نعمت ہے۔ لیکن ہمیشہ ایسا ہوتا نہیں۔ انسانی معاشرے میں تجارت کی تاریخ جتنی پرانی ہے، تجارت کی آڑ میں لوگوں کے استحصال کی تاریخ بھی تقریبا اتنی ہی پرانی ہے۔ اسلام کا مشن یہی ہے کہ انسانی زندگی کے تمام معاملات عدل و انصاف، انسانوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ اور اجتمائی اور انفرادی فلاح و بہبود پر استوار کیے جائیں۔ انسانی تاریخ میں تجارت کو سب سے پہلے ان بنیادوں پر استوارکرنے کا سہرا اسلام کے سر ہے۔
بعثت سے پہلے عرب سمیت پوری دنیا میں ایسے سودوں ، خرید و فروخت کی ایسی صورتوں کی بھر مارتھی جن میں کسی نہ کسی فریق کو شدید نقصان اٹھانا پڑتا تھا۔ خرید وفروخت کے طریقوں میں دھوکا شامل تھا۔ اس حوالے سے کیے گئے معاہدوں میں فریب موجود تھا۔ قیمت اور اشیاء اجناس، منفعت یا خدمات جن کا لین دین ہوتا تھا ، ان سب میں فریب شامل تھا۔ عرب میں فریب پرمبی بیع کی جو صورتیں رائج تھیں ان میں ملامسہ اور منابذہ بھی تھیں ۔ اگر خر یدا غور کیے بغیر کپڑے کو چھو لے تو بیع پکی ہوگئی ، مثلا: تم اپنا کپڑا میری طرف پھینک دو، میں اپنا کیر تمھاری طرف پھینک دیتا ہوں سودا کیا ہو گیا، جس کی جو قسمت اسے مل جائے گا۔ میں ایک کنگری پھینکوں گا جس کپڑے کی جس لمبائی تک جائے گی، وہ تمھارا ‘‘ اس میں سوچنےسمجھنے کی گنجائش نہ صحیح پیمائش کی ۔ وہ ایسی چیزوں کی بیع بھی کر لیتے تھے جو ابھی وجود میں نہیں آئیں، اس کا دیکھنا مکن نہ رکھنا ، مثلا: یہ کہ اونٹنی بچہ دے گی ، وہ حاملہ ہو کر پھر بچہ دے گی وہ تمھارا ہوگا ۔ یہ حبل الحبلہ بیع کہلاتی تھی۔
مصنوعی طریقے سے قیمت بڑھانے کے حیلے کیے جاتے تھے۔ اب بھی کیے جاتے ہیں۔ فرضی گا ہک کھڑےکر کے ضرورت کی چیزوں کی قیمتیں بڑھائی جاتی تھیں ۔ اسے نجش کہا جاتا تھا۔ اب اشتہار بازی کے ذریعے باور کرایا جاتا ہے کہ فلاں چیز آپ کی شدید ضرورت ہے۔ مصنوعی قلت پیدا کر کے قیمتوں میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ خریدنے میں بھی فریب کا چلن تھا۔ راستے میں جا کر، منڈی کے بھاؤ سے بے خبر مال لانے والوں سے اشیاء خریدنا ، جوشخص منڈی کے ریٹ پر اپنی اشیاء فروخت کرنا چاہتا ہے، اسے زیادہ قیمت کا لالچ دے کر فروخت کی ذمہ داری لینا اور قیمتیں بڑھا کر خود فائدہ اٹھانا اور مہنگائی پیدا کرتا۔ دودھ دینے والے جانورکے تھنوں میں دودھ روک کر زیادہ قیمت پر بیچنا، اشیاءکو تولے یا نا پے بغیر ان کا سودا کر لینا ، باغ کے درختوں پر بور لگتے ہیں یا اس سے بھی پہلے ان کے پھل کا سودا کر دیتا چاہیے بورہی نہ لگے،یالگے تو آندھی یا بیماری وغیرہ کا شکار ہو کر ضائع ہو جائے ۔ فصل پکنے کے بعد اناج اکٹھا کر کے وزن باماپ سے بچنے کی بجائے کھڑی فصل کو اناج کی متعین مقدار کے عوض بیچ دینا، چیز کا عیب چھپا کر دھوکے سےبیچ دینا، غیر منصفانہ طریقے سے زمین کو اجرت پر دینا، یہ سب دھوکے اور فریب کی صورتیں معاشرے میں رائج تھیں۔ رسول اللہ ﷺنے فریب مبنی لین دین کی تمام صورتوں کو حرام قرار دیا۔ دیکھ بھال کر، پرکھ کر اور تسلی سے قیمت چکا کر سودا کرنےکے طریقے رائج فرمائے ۔ لین دین کرنے والے فریقوں کو سودا ہو جانے کے بعد بھی مناسب وقت تک اس کی واپسی کا اختیار دیا۔ عیب اور دھوکے کی بنا پر پتہ لگنے تک واپسی کو یقینی بنایا ۔ غرض چیز، قیمت، خریدار فروخت کرنے والے ، خرید و فروخت کی صورت اور شرائط ، تمام اجزائےبیع کے حوالے سے دیانت و امانت، شفافیت، حقوق کی پاسداری اور کسی بھی غلطی کے ازالے کو یقینی بنایا۔ ان اصلاحات کے بعد دنیا بھر میں مسلمانوں کا انداز تجارت انتہائی مقبول ہو گیا۔ مسلمان تاجر اسلامی معاشرے کے نقیب بن گئے اور عالمی تجارت کو فروغ حاصل ہوا۔ پوری دنیا نے ان میں سے اکثر اصولوں کو تجارت کی بنیاد کے طور پر اپنا لیا۔ بعض معاشروں نے البتہ سود اور حرام چیزوں کی خرید وفروخت کونئی سے نئی صورتوں میں نہ صرف جاری رکھا بلکہ ان کے ذریعے سے دنیا بھر کا استحصال کیا اور ابھی تک جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ لین دین کے پورے نظام کا بغور جائزہ لیا جائے تو انصاف اور اجتماعی فلاح کی ضمانت انہی اصولوں پر عمل کرنے سے حاصل ہو سکتی ہے جو اسلام نے رائج کیے ہیں ۔ افسوں کہ خود مسلمان انصاف اور فلاح کے ان اصولوں کوچھوڑ کر ظالمانہ طریقوں پر عمل پیرا ہو گئے اور تجارت میں بھی شدید پسماندگی کا شکار ہو گئے ۔ دوسرے معاشروں نے جس حد تک دیانت و امانت کے اسلامی اصولوں کو اپنایا اسی نسبت سے وہ آگے بڑھ گئے۔ صحیح مسلم کی کتاب البیوع کے بعد کتاب المساقاة والمزارعد بھی لین دین کے اصولوں پر محیط ہے۔
یحییٰ بن یحییٰ نے کہا: میں نے امام مالک کے سامنے قراءت کی، انہوں نے نافع سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے کھجور کا ایسا درخت فروخت کیا جس پر نر کھجور کا بورڈ ڈالا گیا ہو تو اس کا پھل فروخت کرنے والے کا ہے الا یہ کہ خریدار (بیع کے دوران میں) شرط طے کر لے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد و مسائل:
تابیر سوئی لگانے کو کہتے ہیں چاہے انجیکشن کی ہو یا کسی جاندار کا ڈنک ہو۔ مقصود خفیف لیکن مؤثر مقدار میں کسی چیز کو منتقل کرنا ہے۔ کھجور کے پھل لانے والے درختوں پر بور لگنے کے وقت نر کھجور کا بور پھینکنے سے زیادہ مقدار میں پھل آتا ہے، اس عمل کو تابیر کہا جاتا ہے۔ جس نے درختوں کی خدمت کی، پھر پھل کی اصلاح اور اضافے کے لیے محنت کی، پھر اس پھل پر اسی کا حق ہے۔ ہاں اگر درخت خریدنے والا قیمت طےکرتے وقت پھل بھی ساتھ حاصل کرنے کا سودا کر لے تو اس صورت میں وہ پھل کا حقدار ہو گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے پیوند کردہ کھجور کا درخت فروخت کیا، تو اس کا پھل فروخت کرنے والے کا ہے اِلا یہ کہ خریدار پھل لینے کی شرط لگا لے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
تابير: درخت یا کھیتی کو درست اور بار آور کرنا۔ تابیر کا معنی عام طور پر پیوندکاری کیا جاتا ہے جس سے ذہن عام پودوں کی پیوندکاری کی طرف منتقل ہو جاتا ہے، جب کہ تابیر قلم یا شگوفہ لگانے کا نام نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے کھجور کے نر اور مادہ درخت الگ الگ بنائے ہیں۔ نر کا بور مادہ کے بور سے ہوا یا کیڑوں مکوڑوں کے ذریعے ملتا ہے تو وہ حاملہ ہو جاتا ہے اور پھل بن جاتا ہے، اگر یہ عمل بالکل نہ ہو تو مادہ کے پھول بار آور نہیں ہوتے، اگر کم بور پہنچے تو کم پھل لگتا ہے، اس لیے عرب کے لوگ نر اور مادہ درختوں پر پھل کا گابھہ نکلنے کے ساتھ نر کے گابھے کا بور لے کر مادہ کے گابھے کا غلاف چاک کر کے اس میں چھڑک دیتے تھے جس سے عمل تلقیح مکمل ہو کر پھل زیادہ اور موٹا لگتا تھا۔
فوائد ومسائل
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے: اگر تابیر کےبعد پھل دار درخت فروخت کیا جائے تو اس کا پھل مالک کا ہے الا یہ کہ خریدار خریدتے وقت پھل لینے کی شرط لگالے۔ اس پر تقریباً تمام فقہاء کا اتفاق ہے۔ اگر تابیر نہیں کی، تو جمہور کے نزدیک وہ پھل خریدار کا ہو گا۔ الا یہ کہ بائع خود رکھنے کی شرط لگالے۔ لیکن امام ابو حنیفہ اور امام اوزاعی کے نزدیک پھل ہر صورت میں بائع کا ہوگا۔ الا یہ کہ مشتری شرط لگا لے۔ اگر بعض درخت تابیر شدہ ہوں اور بعض کو تابیر نہ کیا گیا ہو، تو شوافع کے نزدیک سارا پھل بائع کا ہوگا اور احمد کے نزدیک تابیر شدہ درخت کا پھل بائع کا اورغیر تابیر شدہ درخت کا پھل مشتری کا ہوگا۔ اور امام مالک کے نزدیک اغلب اور اکثر کے مطابق فیصلہ ہو گا۔ اور اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا جو شرط، عقد کے منافی نہیں ہے۔ وہ شرط لگائی جا سکتی ہےوہ نهي عن بيع و شرط کے منافی نہیں ہے۔ علامہ تقی عثمانی نے تسلیم کیا ہے۔ إن الشرط إذا لم يكن مخالفا لمقتضي العقد لا يفسد به البيع اگر شرط، عقد کے تقاضاکے منافی نہیں ہے تو وہ بیع پر اثر انداز نہیں ہو گی۔ (تکملة، ج: ا،ص :425) اس لیے اگر سواری کے جانور پر فوری سواری کی ضرورت نہیں ہے تو سواری کا مالک، اس پر کچھ مسافت سوار رہنے کی شرط لگا سکتا ہے۔ اس لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کو سوار رہنے کی شرط لگانے کی اجازت دی تھی تو اس کی تاویل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ حضورکے پاس سواری موجود تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جابر کے اونٹ پر سوار ہونے کی ضرورت نہ تھی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Ibn 'Umar (RA) reported Allah's Messenger (ﷺ) as saying: If anyone buys palm-trees after they have been fecundated the fruit belongs to the seller unless the buyer makes a proviso.