کتاب: سیرابی کے عوض پیدوار میں حصہ داری اور مزارعت
(
باب: جس نے اپنا فروخت کیا ہوا ما ل خریدار کے پاس پایا اور وہ (خریدار )مفلس ہو چکا ہے تو اس چیز کو واپس لینے کا حق اسی کا ہے
)
Muslim:
The Book of Musaqah
(Chapter: If a man finds what he sold with the purchaser, who has become bankrupt, then he has the right to take it back)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1559.
زہیر بن حرب نے کہا: ہمیں یحییٰ بن سعید نے حدیث بیان کی، کہا: مجھے ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم نے خبر دی کہ انہیں عمر بن عبدالعزیز نے خبر دی، انہیں ابوبکر بن عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام نے بتایا کہ انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ۔۔ یا (اس طرح کہا: ) میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپﷺ فرما رہے تھے: ’’جس نے اپنا مال جوں کا توں اس شخص کے پاس پایا جو مفلس ہو چکا ہے ۔۔ یا اس انسان کے پاس جو مفلس ہو چکا ہے ۔۔ تو وہ دوسروں کی نسبت اس (مال) کا زیادہ حق دار ہے۔‘‘
یہ حقیقت میں کتاب البیوع ہی کا تسلسل ہے۔کتاب البیوع کے آخری حصے میں زمین کو بٹائی پر دینے کی مختلف جائز اور نا جائز یا مختلف فیہ صورتوں کا ذکر تھا مساقات (سیرابی اور نگہداشت کے عوض پھل وغیرہ میں حصہ داری)اور مزارعت کا معاملہ امام ابوحنیفہ اور زفرکے علاوہ تمام فقہاء کے ہاں جائز ہے یہی معاملہ ہے جو رسول اللہ ﷺ نے خیبر کی فتح کے بعد خود یہود کے ساتھ کیا اس حوالے سے اما م ابو حنیفہ اور زفر کے نقط نظر کو ان کے اپنے اہم ترین شاگرد وں امام ابو یوسف اور امام محمد نے قبول نہیں کیایہ معاہدہ درختوں،ملحقہ کھیتوں ،مالکان اور نگہداشت کرنے والوں تمام کے مفادات کو محفوظ رکھنے کا ضامن ہے مساقات اور مزارعت کے لیے مخصوص باب کے بعد درخت لگانے اور زراعت کی فضیلت بیان کی گئی ہے اسی پر انسان کے رزق اور اس کی فلاح کا سب سے زیادہ انحصار ہے زمین پر محنت اور پیدا وار کے اشتراک کے انتہائی منصفانہ معاہدوں کی تمام صورتوں میں جنھیں اسلام نے رائج کیا ہے انصاف کے تمام تر تقاضے ملحوظ رکھنے کے باوجود نا گہانی مسئلہ یہ پید ہو سکتا ہے کہ کوئی غیر متوقع قدرتی آفت پیداوار کو تباہ کر دے ۔ اس کے لیے رسول اللہ ﷺ کا واضح حکم ہے ایسے نقصان کے بعد حصے کا مطالبہ ساقط ہو جاتا ہے جب کسی قدرتی آفت کی بنا پر پھل حاصل ہی نہیں ہوا تو مطالبہ کس بنیاد پر؟اس کے ساتھ ہی تجارتی لین دین کی صورت میں جبکہ قبضہ اور ملکیت دوسرے فریق کو منتقل ہو چکی ہو اور ادائیگی باقی ہو تو کسی نقصان کی صورت میں مہلت اور اگر ممکن ہوتو تخفیف کی تلقین کی گئی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی تفلیس (قرض ادا کرنے کی صلاحیت کے فقدان)کے حوالے سے طریقہ کا ر واضح کیا گیا ہے دوسری طرف جس کے پاس ادائیگی کی صلاحیت موجود ہو اس کی طرف سے لیت و لعل کو ظلم قرار دیا گیا ہے اور اس کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔
اب تک لین دین کے معاہدوں کا ذکر تھا اس کے بعد ان چیزوں کا بیان ہے جن کی تجارت ممنوع ہے وہ غصب کی ہوئی چیزیں یا ایسی خدمات یا اشیاء ہیں جو حرام ہیں ،مثلاً:ناپاک جانور،جیسے کتے وغیرہ کو پالنا یا نشہ آور اشیاء مثلا شراب وغیرہ کو استعمال کرنا۔ پھر ان اشیاء کے لین دین میں جو بالکل حلال ہیں ان صورتوں کا ذکر ہے جن میں سود شامل ہو جاتا ہے یہ ربالفضل ہے ۔ایک ہی جنس کا اسی جنس سے کمی پیشی کے ساتھ تبادلہ ،ملتی جلتی اشیاء کا ادھار تبادلہ ،مثلا سونے چاندی کا،گندم اور جَو کا لین دین جس میں ایک چیز ادھار ہو یاد رہے کہ ایسی اشیاء کی قیمتوں میں موسم کے ساتھ یا مطقاً وقت اور تجارتی حالات کی بنا پر بہت جلد فرق پڑتا ہے اگرچہ قیمت(سونے ،چاندی یا سکے یا کرنسی نوٹ وغیرہ)کے ساتھ اشیاء کے تبادلے میں ادھار لین دین کی اجازت دی گئی ہے کیونکہ اگر اقتصادی معاملات انصاف کے ساتھ چلائے جائیں تو نقدی کی قیمت زیادہ عرصے تک مستحکم رہتی ہے ،دوسرا سبب یہ کہ نقدی کے عوض ادھار خریدو فروخت کے بغیر تجارتی معاملات چلنے ممکن نہیں تجارت کے جاری رہنے ہی سے انسانوں کے بنیادی اقتصادی مفادات حاصل بھی ہوتے ہے اور محفوظ رہتے ہیں ۔حیوانات کی بیع اجناس اور اشیاء کی بیع سے مختلف ہے بدوی معاشروں میں ان کا لین دین بہت زیادہ ہوتا ہے بلکہ کسی نہ کسی مویشی کو خود نقدی سے ملتی جلتی حیثیت حاصل ہوتی ہے ۔ ان کے لین دین کو آسان بنانے کے لیے اس میں جن مراعات کی ضرورت تھی ،اسلام نے ان مراعات کا ت اہتمام کیا ہے پھر تجارتی لین دین کے معاہدوں میں رہن کے مسائل کو واضح کیا گیا ہے۔ اس کے بعد بیع سلم یا سلف کے مسائل کو واضح کیا گیا ہے،پھر ذخیرہ اندوزی کی ممانعت بیان ہوئی ہے پھر شفعہ کے مسائل ہیں کہ لین دین اپنی جگہ درست ہو سکتا ہے لیکن ایک چیز میں شراکت رکھنے والے کا پہلا حق ہے کہ وہ بازار کی قیمت پر اس چیز کا باقی حصہ خیرید سکے۔ آخر میں زمین یا جائیداد کے حوالے سے حسن سلوک،کسی کی زمین دبانے کی ممانعت اور اختلاف کی صورت میں مشترکہ راستے کی چوڑائی متعین کرنے کے حوالے سے شریعت کے حکم کا بیان ہے۔
زہیر بن حرب نے کہا: ہمیں یحییٰ بن سعید نے حدیث بیان کی، کہا: مجھے ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم نے خبر دی کہ انہیں عمر بن عبدالعزیز نے خبر دی، انہیں ابوبکر بن عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام نے بتایا کہ انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ۔۔ یا (اس طرح کہا: ) میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپﷺ فرما رہے تھے: ’’جس نے اپنا مال جوں کا توں اس شخص کے پاس پایا جو مفلس ہو چکا ہے ۔۔ یا اس انسان کے پاس جو مفلس ہو چکا ہے ۔۔ تو وہ دوسروں کی نسبت اس (مال) کا زیادہ حق دار ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا: ’’جس نے اپنا ہو بہو مال اس انسان کے پاس پایا جو مفلس ہو چکا ہے یا اسے دیوالیہ قرار دے دیا گیا ہے، تو وہ دوسروں سے اس کا زیادہ حقدار ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
افلاس یہ ہے کہ انسان پیسے پیسے کا محتاج ہو گیا ہے، کیونکہ اس کے پاس کوئی فلس (پیسہ) نہیں رہا ہے، اور قاضی نے اس کو دیوالیہ قرار دے دیا ہے، کہ وہ اپنے مال میں تصرف نہیں کر سکتا، لیکن اس کا سارامال بیچ کر بھی اس کا قرضہ اتارا نہیں جا سکتا، اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے، اگر کوئی انسان دوسرے سے کوئی چیز خریدتا ہے، اور قیمت نقد ادا نہیں کرتا، پھر قیمت کی ادائیگی سے پہلے ٹکےٹکے کا محتاج ہو جاتا ہے، لیکن جو سامان اس نے خریدا تھا، وہ بغیر کسی تغیروتبدل کے اصل حالت میں اس کے پاس موجود ہے، تو وہ سامان فروخت کرنے والے کا ہوگا، دوسرے قرض خواہوں کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہوگا، جمہور ائمہ، مالک، شافعی، احمد اور اسحاق وغیرہ ہم کا یہی موقف ہے، لیکن ائمہ احناف کا اس کے برعکس نظریہ ہے، کہ اس میں تمام قرض خواہ حصہ دار ہوں گے، اور اس حدیث کو انہوں نے، غضب، عاریہ، اور امانت وغیرہ کی واپسی پر محمول کیا ہے، حالانکہ اگلی روایت میں یہ تصریح موجود ہے، (انه لصاحبه الذی باعه) یہ سامان، اس کے مالک کا ہے، جس نے اسے فرخت کیا تھا، اور علامہ انور شاہ نے اس حدیث سے جان چھڑانے کے لیے اس کو دیانت کا مسئلہ قرار دیا ہے کہ مشتری کو فیصلہ عدالت میں جانے سے پہلے پہلے، یہ مال، اس کے مالک، بائع کے حوالہ کر دینا چاہیے، کیونکہ اگر فیصلہ عدالت میں چلا گیا، تو پھر بائع بھی دوسروں قرض خواہوں کی طرح ایک قرض خواہ ہو گا۔ (فیض الباری،ج (3)،ص313) لیکن علامہ تقی عثمانی صاحب احناف کے تمام عذر اور بہانے پیش کرنے کے بعد، اپنا نظریہ، یہ ظاہر کیا ہے کہ مذهب الجمهور، اوفق بلفظ الحديث، حدیث کے الفاظ جمہور کے موقف کے مطابق ہیں۔ (تکملہ، ج(1)، ص 500) اور علامہ عبدالحئی لکھنوی نے بھی التعلیق الممجد میں جمہور کی رائے کو پسند کیا ہے۔ (تکملہ، ج (1)،ص501) اور علامہ سعیدی نے بھی احناف کے دلائل نقل کرنے کے بعد لکھا ہے: ’’ہر چند امام ابو حنیفہ کا نظریہ، قیاس اور درایت کے اعتبار سے زیادہ قوی ہے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح اور صریح احادیث مقدم ہیں۔‘‘ (شرح مسلم، ج (4)، ص284) معلوم نہیں، احناف کو صحیح احادیث کو قیاس اور درایت کے مخالف ثابت کر کے کیا ملتا ہے، کہ ایسے قیاس اور درایت کو غلط کیوں قرار نہیں دیتے، اور اس کو لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے صحیح احادیث کے مقابلہ میں پیش کرتے ہیں، اور مقلد ہونے کے باوجود امام صاحب کے غلط موقف کو صحیح ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں، حالانکہ سیدھی سادی بات ہے کہ امام صاحب کو اس صحیح حدیث کا علم نہ ہو سکا، اس لیے انہوں نے قیاس ورائے کا سہارا لیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hurairah (RA) reported Allah's Messenger (ﷺ) as saying: He who found his property intact with a person (who bought it but who later on) became insolvent (or a person who became insolvent), he (the seller) is entitled to get it more than anyone else. '