کتاب: سیرابی کے عوض پیدوار میں حصہ داری اور مزارعت
(
باب: کتوں کو مارڈالنے کا حکم (پھر )اس کے منسوخ ہونے کی وضاحت اور اس بات کی وضاحت کہ شکار کےلیے اور کھیتی یا جانور وں کی حفاظت اور اسی طرح کے کسی کام کے سوا انھیں پالنا حرام ہے
)
Muslim:
The Book of Musaqah
(Chapter: The command to kill dogs, and its abrogation. The prohibition of keeping dogs, except for hunting, farming, (herding) livestock and the like)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1571.
عمرو بن دینار نے ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے شکاری کتے، بکریوں یا مویشیوں (کی حفاظت) کے کتے کے سوا (باقی) تمام کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دیا۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے کہا گیا: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں: یا کھیت کی حفاظت کرنے والے کتے کے۔ تو حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما نے کہا: بے شبہ ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کا کھیت بھی ہے۔
یہ حقیقت میں کتاب البیوع ہی کا تسلسل ہے۔کتاب البیوع کے آخری حصے میں زمین کو بٹائی پر دینے کی مختلف جائز اور نا جائز یا مختلف فیہ صورتوں کا ذکر تھا مساقات (سیرابی اور نگہداشت کے عوض پھل وغیرہ میں حصہ داری)اور مزارعت کا معاملہ امام ابوحنیفہ اور زفرکے علاوہ تمام فقہاء کے ہاں جائز ہے یہی معاملہ ہے جو رسول اللہ ﷺ نے خیبر کی فتح کے بعد خود یہود کے ساتھ کیا اس حوالے سے اما م ابو حنیفہ اور زفر کے نقط نظر کو ان کے اپنے اہم ترین شاگرد وں امام ابو یوسف اور امام محمد نے قبول نہیں کیایہ معاہدہ درختوں،ملحقہ کھیتوں ،مالکان اور نگہداشت کرنے والوں تمام کے مفادات کو محفوظ رکھنے کا ضامن ہے مساقات اور مزارعت کے لیے مخصوص باب کے بعد درخت لگانے اور زراعت کی فضیلت بیان کی گئی ہے اسی پر انسان کے رزق اور اس کی فلاح کا سب سے زیادہ انحصار ہے زمین پر محنت اور پیدا وار کے اشتراک کے انتہائی منصفانہ معاہدوں کی تمام صورتوں میں جنھیں اسلام نے رائج کیا ہے انصاف کے تمام تر تقاضے ملحوظ رکھنے کے باوجود نا گہانی مسئلہ یہ پید ہو سکتا ہے کہ کوئی غیر متوقع قدرتی آفت پیداوار کو تباہ کر دے ۔ اس کے لیے رسول اللہ ﷺ کا واضح حکم ہے ایسے نقصان کے بعد حصے کا مطالبہ ساقط ہو جاتا ہے جب کسی قدرتی آفت کی بنا پر پھل حاصل ہی نہیں ہوا تو مطالبہ کس بنیاد پر؟اس کے ساتھ ہی تجارتی لین دین کی صورت میں جبکہ قبضہ اور ملکیت دوسرے فریق کو منتقل ہو چکی ہو اور ادائیگی باقی ہو تو کسی نقصان کی صورت میں مہلت اور اگر ممکن ہوتو تخفیف کی تلقین کی گئی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی تفلیس (قرض ادا کرنے کی صلاحیت کے فقدان)کے حوالے سے طریقہ کا ر واضح کیا گیا ہے دوسری طرف جس کے پاس ادائیگی کی صلاحیت موجود ہو اس کی طرف سے لیت و لعل کو ظلم قرار دیا گیا ہے اور اس کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔
اب تک لین دین کے معاہدوں کا ذکر تھا اس کے بعد ان چیزوں کا بیان ہے جن کی تجارت ممنوع ہے وہ غصب کی ہوئی چیزیں یا ایسی خدمات یا اشیاء ہیں جو حرام ہیں ،مثلاً:ناپاک جانور،جیسے کتے وغیرہ کو پالنا یا نشہ آور اشیاء مثلا شراب وغیرہ کو استعمال کرنا۔ پھر ان اشیاء کے لین دین میں جو بالکل حلال ہیں ان صورتوں کا ذکر ہے جن میں سود شامل ہو جاتا ہے یہ ربالفضل ہے ۔ایک ہی جنس کا اسی جنس سے کمی پیشی کے ساتھ تبادلہ ،ملتی جلتی اشیاء کا ادھار تبادلہ ،مثلا سونے چاندی کا،گندم اور جَو کا لین دین جس میں ایک چیز ادھار ہو یاد رہے کہ ایسی اشیاء کی قیمتوں میں موسم کے ساتھ یا مطقاً وقت اور تجارتی حالات کی بنا پر بہت جلد فرق پڑتا ہے اگرچہ قیمت(سونے ،چاندی یا سکے یا کرنسی نوٹ وغیرہ)کے ساتھ اشیاء کے تبادلے میں ادھار لین دین کی اجازت دی گئی ہے کیونکہ اگر اقتصادی معاملات انصاف کے ساتھ چلائے جائیں تو نقدی کی قیمت زیادہ عرصے تک مستحکم رہتی ہے ،دوسرا سبب یہ کہ نقدی کے عوض ادھار خریدو فروخت کے بغیر تجارتی معاملات چلنے ممکن نہیں تجارت کے جاری رہنے ہی سے انسانوں کے بنیادی اقتصادی مفادات حاصل بھی ہوتے ہے اور محفوظ رہتے ہیں ۔حیوانات کی بیع اجناس اور اشیاء کی بیع سے مختلف ہے بدوی معاشروں میں ان کا لین دین بہت زیادہ ہوتا ہے بلکہ کسی نہ کسی مویشی کو خود نقدی سے ملتی جلتی حیثیت حاصل ہوتی ہے ۔ ان کے لین دین کو آسان بنانے کے لیے اس میں جن مراعات کی ضرورت تھی ،اسلام نے ان مراعات کا ت اہتمام کیا ہے پھر تجارتی لین دین کے معاہدوں میں رہن کے مسائل کو واضح کیا گیا ہے۔ اس کے بعد بیع سلم یا سلف کے مسائل کو واضح کیا گیا ہے،پھر ذخیرہ اندوزی کی ممانعت بیان ہوئی ہے پھر شفعہ کے مسائل ہیں کہ لین دین اپنی جگہ درست ہو سکتا ہے لیکن ایک چیز میں شراکت رکھنے والے کا پہلا حق ہے کہ وہ بازار کی قیمت پر اس چیز کا باقی حصہ خیرید سکے۔ آخر میں زمین یا جائیداد کے حوالے سے حسن سلوک،کسی کی زمین دبانے کی ممانعت اور اختلاف کی صورت میں مشترکہ راستے کی چوڑائی متعین کرنے کے حوالے سے شریعت کے حکم کا بیان ہے۔
عمرو بن دینار نے ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے شکاری کتے، بکریوں یا مویشیوں (کی حفاظت) کے کتے کے سوا (باقی) تمام کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دیا۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے کہا گیا: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں: یا کھیت کی حفاظت کرنے والے کتے کے۔ تو حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما نے کہا: بے شبہ ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کا کھیت بھی ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شکاری کتے، بکریوں یا مویشیوں کی حفاظت کرنے والے کتے کے سوا کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دیا، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے پوچھا گیا، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کھیت کی رکھوالی کرنے والے کتے کو مستثنیٰ قرار دیتے ہیں تو ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کھیت کا مالک ہے۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
باؤلے یا کاٹنے والے کتے کو بالاتفاق قتل کر دیا جائے گا، اور جو کتے بے ضرر ہیں، ان کے قتل کرنے میں اختلاف ہے، اور جو کتے مستثنیٰ ہیں، ان کے استثناء پر اتفاق ہے، چونکہ آغاز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قتل کا عمومی حکم دیا تھا، اس لیے امام مالک، مستثنیٰ کتوں کے سوا سب کے قتل کرنے کو جائز قرار دیتے ہیں، اور دوسرے ائمہ قتل کے عمومی حکم کو منسوخ قرار دیتے ہیں، جیسا کہ آگے آ رہا ہے، اس لیے ان کے نزدیک بے ضرر کتوں کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ امام احمد، بعض شوافع، حسن بصری اور ابراہیم نخعی کے نزدیک سیاہ کتے کا شکار بھی مکروہ ہے، لیکن امام ابو حنیفہ یا امام مالک، امام شافعی کے نزدیک جائز ہے۔ تنبیہ:۔ اس حدیث میں ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے پوچھا گیا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کھیت کی حفاظت کرنے والے کتے کا بھی استثناء کرتے ہیں، تو انہوں نے جواب دیا، (ان لابي هريرة زرعا) کیونکہ ابو ہریرہ کا کھیت ہے، اس سے بعض ملحدوں نے یہ مطلب نکالا ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت پر شک کا اظہار کیا، اور نعوذ باللہ ان پر پھبتی کسی کہ یہ ٹکڑا ان کا تراشیدہ ہے، حالانکہ ان کا مطلب یہ تھا کہ ابو ہریرہ کا کھیت ہے، اس لیے انہوں نے اس کا حکم بھی یاد رکھا، کیونکہ انسان کو جس چیز سے واسطہ پڑتا رہتا ہے، اس کا حکم بھی اس کو خوب یاد رہتا ہے، نیز یہ حکم تو خود ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بھی بیان کرتے ہیں، جیسا کہ آگے ان کی روایت آ رہی ہے، اور یہ بات دوسرے صحابہ کی روایات میں بھی آ رہی ہے، اس لیے ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما، حضرت ابو ہریرہ پر طنز کس طرح کر سکتے ہیں؟
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Ibn 'Umar (RA) reported that Allah's Messenger (may peace be, upon him) ordered the killing of dogs except the dog tamed for hunting, or watching of the herd of sheep or other domestic animals. It was said to Ibn 'Umar (RA) that Abu Hurairah (RA) talks of (exception) about the dog for watching the field, whereupon he said: Since Abu Hurairah (RA) possessed land.