کتاب: سیرابی کے عوض پیدوار میں حصہ داری اور مزارعت
(
باب: کتوں کو مارڈالنے کا حکم (پھر )اس کے منسوخ ہونے کی وضاحت اور اس بات کی وضاحت کہ شکار کےلیے اور کھیتی یا جانور وں کی حفاظت اور اسی طرح کے کسی کام کے سوا انھیں پالنا حرام ہے
)
Muslim:
The Book of Musaqah
(Chapter: The command to kill dogs, and its abrogation. The prohibition of keeping dogs, except for hunting, farming, (herding) livestock and the like)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1572.
ابوزبیر نےخبر دی کہ انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: رسول اللہ ﷺ نے ہمیں کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دیا حتی کہ کوئی عورت بادیہ سے اپنے کتے کے ساتھ آتی تو ہم اس کتے کو بھی مار ڈالتے، پھر نبی ﷺ نے ہمیں ان کو مارنے سے منع کر دیا اور فرمایا: ’’تم (آنکھوں کے اوپر) دو (سفید) نقطوں والے کالے سیاہ کتے کو نہ چھوڑو، بلاشبہ وہ شیطان ہے۔‘‘
یہ حقیقت میں کتاب البیوع ہی کا تسلسل ہے۔کتاب البیوع کے آخری حصے میں زمین کو بٹائی پر دینے کی مختلف جائز اور نا جائز یا مختلف فیہ صورتوں کا ذکر تھا مساقات (سیرابی اور نگہداشت کے عوض پھل وغیرہ میں حصہ داری)اور مزارعت کا معاملہ امام ابوحنیفہ اور زفرکے علاوہ تمام فقہاء کے ہاں جائز ہے یہی معاملہ ہے جو رسول اللہ ﷺ نے خیبر کی فتح کے بعد خود یہود کے ساتھ کیا اس حوالے سے اما م ابو حنیفہ اور زفر کے نقط نظر کو ان کے اپنے اہم ترین شاگرد وں امام ابو یوسف اور امام محمد نے قبول نہیں کیایہ معاہدہ درختوں،ملحقہ کھیتوں ،مالکان اور نگہداشت کرنے والوں تمام کے مفادات کو محفوظ رکھنے کا ضامن ہے مساقات اور مزارعت کے لیے مخصوص باب کے بعد درخت لگانے اور زراعت کی فضیلت بیان کی گئی ہے اسی پر انسان کے رزق اور اس کی فلاح کا سب سے زیادہ انحصار ہے زمین پر محنت اور پیدا وار کے اشتراک کے انتہائی منصفانہ معاہدوں کی تمام صورتوں میں جنھیں اسلام نے رائج کیا ہے انصاف کے تمام تر تقاضے ملحوظ رکھنے کے باوجود نا گہانی مسئلہ یہ پید ہو سکتا ہے کہ کوئی غیر متوقع قدرتی آفت پیداوار کو تباہ کر دے ۔ اس کے لیے رسول اللہ ﷺ کا واضح حکم ہے ایسے نقصان کے بعد حصے کا مطالبہ ساقط ہو جاتا ہے جب کسی قدرتی آفت کی بنا پر پھل حاصل ہی نہیں ہوا تو مطالبہ کس بنیاد پر؟اس کے ساتھ ہی تجارتی لین دین کی صورت میں جبکہ قبضہ اور ملکیت دوسرے فریق کو منتقل ہو چکی ہو اور ادائیگی باقی ہو تو کسی نقصان کی صورت میں مہلت اور اگر ممکن ہوتو تخفیف کی تلقین کی گئی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی تفلیس (قرض ادا کرنے کی صلاحیت کے فقدان)کے حوالے سے طریقہ کا ر واضح کیا گیا ہے دوسری طرف جس کے پاس ادائیگی کی صلاحیت موجود ہو اس کی طرف سے لیت و لعل کو ظلم قرار دیا گیا ہے اور اس کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔
اب تک لین دین کے معاہدوں کا ذکر تھا اس کے بعد ان چیزوں کا بیان ہے جن کی تجارت ممنوع ہے وہ غصب کی ہوئی چیزیں یا ایسی خدمات یا اشیاء ہیں جو حرام ہیں ،مثلاً:ناپاک جانور،جیسے کتے وغیرہ کو پالنا یا نشہ آور اشیاء مثلا شراب وغیرہ کو استعمال کرنا۔ پھر ان اشیاء کے لین دین میں جو بالکل حلال ہیں ان صورتوں کا ذکر ہے جن میں سود شامل ہو جاتا ہے یہ ربالفضل ہے ۔ایک ہی جنس کا اسی جنس سے کمی پیشی کے ساتھ تبادلہ ،ملتی جلتی اشیاء کا ادھار تبادلہ ،مثلا سونے چاندی کا،گندم اور جَو کا لین دین جس میں ایک چیز ادھار ہو یاد رہے کہ ایسی اشیاء کی قیمتوں میں موسم کے ساتھ یا مطقاً وقت اور تجارتی حالات کی بنا پر بہت جلد فرق پڑتا ہے اگرچہ قیمت(سونے ،چاندی یا سکے یا کرنسی نوٹ وغیرہ)کے ساتھ اشیاء کے تبادلے میں ادھار لین دین کی اجازت دی گئی ہے کیونکہ اگر اقتصادی معاملات انصاف کے ساتھ چلائے جائیں تو نقدی کی قیمت زیادہ عرصے تک مستحکم رہتی ہے ،دوسرا سبب یہ کہ نقدی کے عوض ادھار خریدو فروخت کے بغیر تجارتی معاملات چلنے ممکن نہیں تجارت کے جاری رہنے ہی سے انسانوں کے بنیادی اقتصادی مفادات حاصل بھی ہوتے ہے اور محفوظ رہتے ہیں ۔حیوانات کی بیع اجناس اور اشیاء کی بیع سے مختلف ہے بدوی معاشروں میں ان کا لین دین بہت زیادہ ہوتا ہے بلکہ کسی نہ کسی مویشی کو خود نقدی سے ملتی جلتی حیثیت حاصل ہوتی ہے ۔ ان کے لین دین کو آسان بنانے کے لیے اس میں جن مراعات کی ضرورت تھی ،اسلام نے ان مراعات کا ت اہتمام کیا ہے پھر تجارتی لین دین کے معاہدوں میں رہن کے مسائل کو واضح کیا گیا ہے۔ اس کے بعد بیع سلم یا سلف کے مسائل کو واضح کیا گیا ہے،پھر ذخیرہ اندوزی کی ممانعت بیان ہوئی ہے پھر شفعہ کے مسائل ہیں کہ لین دین اپنی جگہ درست ہو سکتا ہے لیکن ایک چیز میں شراکت رکھنے والے کا پہلا حق ہے کہ وہ بازار کی قیمت پر اس چیز کا باقی حصہ خیرید سکے۔ آخر میں زمین یا جائیداد کے حوالے سے حسن سلوک،کسی کی زمین دبانے کی ممانعت اور اختلاف کی صورت میں مشترکہ راستے کی چوڑائی متعین کرنے کے حوالے سے شریعت کے حکم کا بیان ہے۔
ابوزبیر نےخبر دی کہ انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: رسول اللہ ﷺ نے ہمیں کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دیا حتی کہ کوئی عورت بادیہ سے اپنے کتے کے ساتھ آتی تو ہم اس کتے کو بھی مار ڈالتے، پھر نبی ﷺ نے ہمیں ان کو مارنے سے منع کر دیا اور فرمایا: ’’تم (آنکھوں کے اوپر) دو (سفید) نقطوں والے کالے سیاہ کتے کو نہ چھوڑو، بلاشبہ وہ شیطان ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دیا، حتی کہ کوئی عورت جنگل سے اپنے کتے کو ساتھ لے کر آتی تو ہم اسے بھی قتل کر دیتے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے قتل کرنے سے روک دیا، اور فرمایا: ’’تم سیاہ کالے کتے کو جس کی آنکھوں پر دو نقطے ہوں، اسے قتل کرو، کیونکہ وہ شیطان ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
آغاز میں کتوں سے نفرت دلانے کے لیے ان کے قتل کا عمومی حکم دیا گیا، آہستہ آہستہ، جب ان سے نفرت پختہ ہو گئی، تو پھر وہ کتے جو تکلیف اور ضرر کا باعث نہیں بنتے تھے، ان کے قتل کرنے سے روک دیا، انتہائی سیاہ کتا خوفناک ہوتا ہے اور اس سے لوگ خطرہ اور ڈر محسوس کرتے ہیں، اس لیے اس کو قتل کرنے کی اجازت برقرار رکھی، اور اس کی مضرت و خطرہ کی بنا پر اس کو شیطان سے تعبیر کیا، یا سیاہ کتا جس کی آنکھوں پر دو نقطے ہوں فی الواقع ہی شیطان ہے اور اس بات کی حقیقت اللہ بہتر جانتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Zubair heard Jabir bin 'Abdullah (RA) saying: Allah's Messenger (ﷺ) ordered us to kill dogs, and we carried out this order so much so that we also kill the dog coming with a woman from the desert. Then Allah's Apostle (ﷺ) forbade their killing. He (the Holy Prophet (ﷺ) further) said: It is your duty the jet-black (dog) having two spots (on the eyes), for it is a devil.