کتاب: سیرابی کے عوض پیدوار میں حصہ داری اور مزارعت
(
باب: شراب ‘مردار ‘خنزیر اور بتوں کی خریدو فروخت حرام ہے
)
Muslim:
The Book of Musaqah
(Chapter: The prohibition of selling wine, dead meat, pork and idols)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1582.
سفیان بن عیینہ نے ہمیں عمرو سے حدیث بیان کی، انہوں نے طاؤس سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کی، انہوں نے کہا: حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو اطلاع ملی کہ حضرت سمرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے شراب فروخت کی ہے تو انہوں نے کہا: اللہ سمرہ کو ہلاک کرے! کیا وہ نہیں جانتا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ یہود پر لعنت کرے! (کہ) ان پر چربی حرام کی گئی تو انہوں نے اسے پھگلایا اور فروخت کیا‘‘
یہ حقیقت میں کتاب البیوع ہی کا تسلسل ہے۔کتاب البیوع کے آخری حصے میں زمین کو بٹائی پر دینے کی مختلف جائز اور نا جائز یا مختلف فیہ صورتوں کا ذکر تھا مساقات (سیرابی اور نگہداشت کے عوض پھل وغیرہ میں حصہ داری)اور مزارعت کا معاملہ امام ابوحنیفہ اور زفرکے علاوہ تمام فقہاء کے ہاں جائز ہے یہی معاملہ ہے جو رسول اللہ ﷺ نے خیبر کی فتح کے بعد خود یہود کے ساتھ کیا اس حوالے سے اما م ابو حنیفہ اور زفر کے نقط نظر کو ان کے اپنے اہم ترین شاگرد وں امام ابو یوسف اور امام محمد نے قبول نہیں کیایہ معاہدہ درختوں،ملحقہ کھیتوں ،مالکان اور نگہداشت کرنے والوں تمام کے مفادات کو محفوظ رکھنے کا ضامن ہے مساقات اور مزارعت کے لیے مخصوص باب کے بعد درخت لگانے اور زراعت کی فضیلت بیان کی گئی ہے اسی پر انسان کے رزق اور اس کی فلاح کا سب سے زیادہ انحصار ہے زمین پر محنت اور پیدا وار کے اشتراک کے انتہائی منصفانہ معاہدوں کی تمام صورتوں میں جنھیں اسلام نے رائج کیا ہے انصاف کے تمام تر تقاضے ملحوظ رکھنے کے باوجود نا گہانی مسئلہ یہ پید ہو سکتا ہے کہ کوئی غیر متوقع قدرتی آفت پیداوار کو تباہ کر دے ۔ اس کے لیے رسول اللہ ﷺ کا واضح حکم ہے ایسے نقصان کے بعد حصے کا مطالبہ ساقط ہو جاتا ہے جب کسی قدرتی آفت کی بنا پر پھل حاصل ہی نہیں ہوا تو مطالبہ کس بنیاد پر؟اس کے ساتھ ہی تجارتی لین دین کی صورت میں جبکہ قبضہ اور ملکیت دوسرے فریق کو منتقل ہو چکی ہو اور ادائیگی باقی ہو تو کسی نقصان کی صورت میں مہلت اور اگر ممکن ہوتو تخفیف کی تلقین کی گئی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی تفلیس (قرض ادا کرنے کی صلاحیت کے فقدان)کے حوالے سے طریقہ کا ر واضح کیا گیا ہے دوسری طرف جس کے پاس ادائیگی کی صلاحیت موجود ہو اس کی طرف سے لیت و لعل کو ظلم قرار دیا گیا ہے اور اس کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔
اب تک لین دین کے معاہدوں کا ذکر تھا اس کے بعد ان چیزوں کا بیان ہے جن کی تجارت ممنوع ہے وہ غصب کی ہوئی چیزیں یا ایسی خدمات یا اشیاء ہیں جو حرام ہیں ،مثلاً:ناپاک جانور،جیسے کتے وغیرہ کو پالنا یا نشہ آور اشیاء مثلا شراب وغیرہ کو استعمال کرنا۔ پھر ان اشیاء کے لین دین میں جو بالکل حلال ہیں ان صورتوں کا ذکر ہے جن میں سود شامل ہو جاتا ہے یہ ربالفضل ہے ۔ایک ہی جنس کا اسی جنس سے کمی پیشی کے ساتھ تبادلہ ،ملتی جلتی اشیاء کا ادھار تبادلہ ،مثلا سونے چاندی کا،گندم اور جَو کا لین دین جس میں ایک چیز ادھار ہو یاد رہے کہ ایسی اشیاء کی قیمتوں میں موسم کے ساتھ یا مطقاً وقت اور تجارتی حالات کی بنا پر بہت جلد فرق پڑتا ہے اگرچہ قیمت(سونے ،چاندی یا سکے یا کرنسی نوٹ وغیرہ)کے ساتھ اشیاء کے تبادلے میں ادھار لین دین کی اجازت دی گئی ہے کیونکہ اگر اقتصادی معاملات انصاف کے ساتھ چلائے جائیں تو نقدی کی قیمت زیادہ عرصے تک مستحکم رہتی ہے ،دوسرا سبب یہ کہ نقدی کے عوض ادھار خریدو فروخت کے بغیر تجارتی معاملات چلنے ممکن نہیں تجارت کے جاری رہنے ہی سے انسانوں کے بنیادی اقتصادی مفادات حاصل بھی ہوتے ہے اور محفوظ رہتے ہیں ۔حیوانات کی بیع اجناس اور اشیاء کی بیع سے مختلف ہے بدوی معاشروں میں ان کا لین دین بہت زیادہ ہوتا ہے بلکہ کسی نہ کسی مویشی کو خود نقدی سے ملتی جلتی حیثیت حاصل ہوتی ہے ۔ ان کے لین دین کو آسان بنانے کے لیے اس میں جن مراعات کی ضرورت تھی ،اسلام نے ان مراعات کا ت اہتمام کیا ہے پھر تجارتی لین دین کے معاہدوں میں رہن کے مسائل کو واضح کیا گیا ہے۔ اس کے بعد بیع سلم یا سلف کے مسائل کو واضح کیا گیا ہے،پھر ذخیرہ اندوزی کی ممانعت بیان ہوئی ہے پھر شفعہ کے مسائل ہیں کہ لین دین اپنی جگہ درست ہو سکتا ہے لیکن ایک چیز میں شراکت رکھنے والے کا پہلا حق ہے کہ وہ بازار کی قیمت پر اس چیز کا باقی حصہ خیرید سکے۔ آخر میں زمین یا جائیداد کے حوالے سے حسن سلوک،کسی کی زمین دبانے کی ممانعت اور اختلاف کی صورت میں مشترکہ راستے کی چوڑائی متعین کرنے کے حوالے سے شریعت کے حکم کا بیان ہے۔
سفیان بن عیینہ نے ہمیں عمرو سے حدیث بیان کی، انہوں نے طاؤس سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کی، انہوں نے کہا: حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو اطلاع ملی کہ حضرت سمرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے شراب فروخت کی ہے تو انہوں نے کہا: اللہ سمرہ کو ہلاک کرے! کیا وہ نہیں جانتا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ یہود پر لعنت کرے! (کہ) ان پر چربی حرام کی گئی تو انہوں نے اسے پھگلایا اور فروخت کیا‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
امام صاحب اپنے تین اساتذہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے بتایا، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو اطلاع ملی کہ حضرت سمرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے شراب فروخت کی ہے، تو انہوں نے کہا، اللہ تعالیٰ سمرہ رضی اللہ تعالی عنہ کو سمجھ دے، کیا اسے معلوم نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’اللہ تعالیٰ یہود پر لعنت بھیجے، ان پر چربیاں حرام قرار دی گئیں، تو انہوں نے اسے پگھلا کر بیچنا شروع کر دیا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں (قاتل الله) کا لفظ استعمال کیا ہے، تو یہ محض کلام میں زور اور تاکید پیدا کرنے کے لیے، اس کا اصلی معنی یا بددعا مقصود نہیں، جیسا کہ عرب کہتے ہیں، تربت يداك، رغم انفك، ويحلك، ويلك، عقري حلقي،، ظاہر ہے، ان کا معنی یا بددعا مقصود نہیں ہوتی، اور حضرت سمرہ کے شراب فروخت کرنے کی عطاء نے چار وجوہ بیان کی ہیں۔ (1) انہوں نے یہ شراب اہل کتاب سے جزیہ میں لی تھی اور انہیں ہی بیچی تھی، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں، یہ آپس میں اس کی بیع کرتے ہیں، اس لیے ان سے لے کر ان کو بیچنا جائز ہے، (2) انہوں نے انگوروں کا شیرہ، شراب بنانے والوں کو بیچا تھا، اور شیرہ بیچنا جائز ہے، (انہیں یہ معلوم نہ ہو گا کہ یہ شراب بنائیں گے) (3) انہوں نے شراب سرکہ بنا کر بیچا تھا، وہ سرکہ بنا کر بیچنا جائز سمجھتے تھے، جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جائز نہیں سمجھتے تھے، اور احناف کے نزدیک بھی سرکہ بنا کر بیچنا جائز ہے، جو ایک ناجائز حیلہ ہے، شراب خود بخود سرکہ بن جائے تو جائز ہے، لیکن سرکہ بنانا درست نہیں ہے۔ (4) انہیں شراب کی فروخت کی حرمت کا علم نہیں تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Ibn Abbas (RA) reported: This news reached 'Umar that ahadeeth had sold wine, whereupon he said: May Allah destroy ahadeeth; does he not know that Allah's Messenger (ﷺ) said:" Let there be the curse of Allah upon the Jews that fat was declared forbidden for them, but they melted it and then sold it"?