کتاب: سیرابی کے عوض پیدوار میں حصہ داری اور مزارعت
(
باب: غذائی اشیاء میں ذخیرہ اندوزی حرام ہے
)
Muslim:
The Book of Musaqah
(Chapter: The prohibition of hoarding staple foods)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1605.
سلیمان بن بلال نے ہمیں یحییٰ بن سعید سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: سعید بن مسیب حدیث بیان کرتے تھے کہ حضرت معمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے ذخیرہ اندوزی کی وہ گناہ گار ہے۔‘‘ سعید سے کہا گیا: آپﷺ خود (کھانے کی بنیادی چیزوں کے سوا دوسری اشیاء میں) ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں؟ سعید نے کہا: حضرت معمر ؓ رضی اللہ تعالی عنہ جو یہ حدیث بیان کرتے تھے، وہ بھی (اس طرح کی) ذخیرہ اندوزی کرتے تھے۔
تشریح:
فوائدومسائل:
حضرت معمر رضی اللہ تعالی عنہ نے عمومی الفاظ کے ساتھ ذخیرہ اندوزی کے گناہ ہونے کی روایت بیان کی۔ انھیں رسول اللہ ﷺ کے حکم کا مقصود، کہ اس سے قلت کے زمانے میں کھانے پینے کی بنیادی اشیاء کی ذخیرہ اندوزی مراد ہے، معلوم تھا اور وہ یہ بات اس طرح بیان کرتے تھے کہ سننے والوں کو معلوم ہو جاتا کہ اس سے کس طرح کی ذخیرہ اندوزی مراد ہے۔ انکا عمل اس روایت کے خلاف نہ تھا بلکہ اس کے مطابق اور اس کے مفہوم کی وضاحت کرنے والا تھا۔
یہ حقیقت میں کتاب البیوع ہی کا تسلسل ہے۔کتاب البیوع کے آخری حصے میں زمین کو بٹائی پر دینے کی مختلف جائز اور نا جائز یا مختلف فیہ صورتوں کا ذکر تھا مساقات (سیرابی اور نگہداشت کے عوض پھل وغیرہ میں حصہ داری)اور مزارعت کا معاملہ امام ابوحنیفہ اور زفرکے علاوہ تمام فقہاء کے ہاں جائز ہے یہی معاملہ ہے جو رسول اللہ ﷺ نے خیبر کی فتح کے بعد خود یہود کے ساتھ کیا اس حوالے سے اما م ابو حنیفہ اور زفر کے نقط نظر کو ان کے اپنے اہم ترین شاگرد وں امام ابو یوسف اور امام محمد نے قبول نہیں کیایہ معاہدہ درختوں،ملحقہ کھیتوں ،مالکان اور نگہداشت کرنے والوں تمام کے مفادات کو محفوظ رکھنے کا ضامن ہے مساقات اور مزارعت کے لیے مخصوص باب کے بعد درخت لگانے اور زراعت کی فضیلت بیان کی گئی ہے اسی پر انسان کے رزق اور اس کی فلاح کا سب سے زیادہ انحصار ہے زمین پر محنت اور پیدا وار کے اشتراک کے انتہائی منصفانہ معاہدوں کی تمام صورتوں میں جنھیں اسلام نے رائج کیا ہے انصاف کے تمام تر تقاضے ملحوظ رکھنے کے باوجود نا گہانی مسئلہ یہ پید ہو سکتا ہے کہ کوئی غیر متوقع قدرتی آفت پیداوار کو تباہ کر دے ۔ اس کے لیے رسول اللہ ﷺ کا واضح حکم ہے ایسے نقصان کے بعد حصے کا مطالبہ ساقط ہو جاتا ہے جب کسی قدرتی آفت کی بنا پر پھل حاصل ہی نہیں ہوا تو مطالبہ کس بنیاد پر؟اس کے ساتھ ہی تجارتی لین دین کی صورت میں جبکہ قبضہ اور ملکیت دوسرے فریق کو منتقل ہو چکی ہو اور ادائیگی باقی ہو تو کسی نقصان کی صورت میں مہلت اور اگر ممکن ہوتو تخفیف کی تلقین کی گئی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی تفلیس (قرض ادا کرنے کی صلاحیت کے فقدان)کے حوالے سے طریقہ کا ر واضح کیا گیا ہے دوسری طرف جس کے پاس ادائیگی کی صلاحیت موجود ہو اس کی طرف سے لیت و لعل کو ظلم قرار دیا گیا ہے اور اس کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔
اب تک لین دین کے معاہدوں کا ذکر تھا اس کے بعد ان چیزوں کا بیان ہے جن کی تجارت ممنوع ہے وہ غصب کی ہوئی چیزیں یا ایسی خدمات یا اشیاء ہیں جو حرام ہیں ،مثلاً:ناپاک جانور،جیسے کتے وغیرہ کو پالنا یا نشہ آور اشیاء مثلا شراب وغیرہ کو استعمال کرنا۔ پھر ان اشیاء کے لین دین میں جو بالکل حلال ہیں ان صورتوں کا ذکر ہے جن میں سود شامل ہو جاتا ہے یہ ربالفضل ہے ۔ایک ہی جنس کا اسی جنس سے کمی پیشی کے ساتھ تبادلہ ،ملتی جلتی اشیاء کا ادھار تبادلہ ،مثلا سونے چاندی کا،گندم اور جَو کا لین دین جس میں ایک چیز ادھار ہو یاد رہے کہ ایسی اشیاء کی قیمتوں میں موسم کے ساتھ یا مطقاً وقت اور تجارتی حالات کی بنا پر بہت جلد فرق پڑتا ہے اگرچہ قیمت(سونے ،چاندی یا سکے یا کرنسی نوٹ وغیرہ)کے ساتھ اشیاء کے تبادلے میں ادھار لین دین کی اجازت دی گئی ہے کیونکہ اگر اقتصادی معاملات انصاف کے ساتھ چلائے جائیں تو نقدی کی قیمت زیادہ عرصے تک مستحکم رہتی ہے ،دوسرا سبب یہ کہ نقدی کے عوض ادھار خریدو فروخت کے بغیر تجارتی معاملات چلنے ممکن نہیں تجارت کے جاری رہنے ہی سے انسانوں کے بنیادی اقتصادی مفادات حاصل بھی ہوتے ہے اور محفوظ رہتے ہیں ۔حیوانات کی بیع اجناس اور اشیاء کی بیع سے مختلف ہے بدوی معاشروں میں ان کا لین دین بہت زیادہ ہوتا ہے بلکہ کسی نہ کسی مویشی کو خود نقدی سے ملتی جلتی حیثیت حاصل ہوتی ہے ۔ ان کے لین دین کو آسان بنانے کے لیے اس میں جن مراعات کی ضرورت تھی ،اسلام نے ان مراعات کا ت اہتمام کیا ہے پھر تجارتی لین دین کے معاہدوں میں رہن کے مسائل کو واضح کیا گیا ہے۔ اس کے بعد بیع سلم یا سلف کے مسائل کو واضح کیا گیا ہے،پھر ذخیرہ اندوزی کی ممانعت بیان ہوئی ہے پھر شفعہ کے مسائل ہیں کہ لین دین اپنی جگہ درست ہو سکتا ہے لیکن ایک چیز میں شراکت رکھنے والے کا پہلا حق ہے کہ وہ بازار کی قیمت پر اس چیز کا باقی حصہ خیرید سکے۔ آخر میں زمین یا جائیداد کے حوالے سے حسن سلوک،کسی کی زمین دبانے کی ممانعت اور اختلاف کی صورت میں مشترکہ راستے کی چوڑائی متعین کرنے کے حوالے سے شریعت کے حکم کا بیان ہے۔
سلیمان بن بلال نے ہمیں یحییٰ بن سعید سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: سعید بن مسیب حدیث بیان کرتے تھے کہ حضرت معمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے ذخیرہ اندوزی کی وہ گناہ گار ہے۔‘‘ سعید سے کہا گیا: آپﷺ خود (کھانے کی بنیادی چیزوں کے سوا دوسری اشیاء میں) ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں؟ سعید نے کہا: حضرت معمر ؓ رضی اللہ تعالی عنہ جو یہ حدیث بیان کرتے تھے، وہ بھی (اس طرح کی) ذخیرہ اندوزی کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
فوائدومسائل:
حضرت معمر رضی اللہ تعالی عنہ نے عمومی الفاظ کے ساتھ ذخیرہ اندوزی کے گناہ ہونے کی روایت بیان کی۔ انھیں رسول اللہ ﷺ کے حکم کا مقصود، کہ اس سے قلت کے زمانے میں کھانے پینے کی بنیادی اشیاء کی ذخیرہ اندوزی مراد ہے، معلوم تھا اور وہ یہ بات اس طرح بیان کرتے تھے کہ سننے والوں کو معلوم ہو جاتا کہ اس سے کس طرح کی ذخیرہ اندوزی مراد ہے۔ انکا عمل اس روایت کے خلاف نہ تھا بلکہ اس کے مطابق اور اس کے مفہوم کی وضاحت کرنے والا تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت معمر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نے ذخیرہ اندوزی کی ہے، وہ قصوروار ہے۔‘‘ تو اس حدیث کے راوی حضرت سعید سے پوچھا گیا، آپﷺ تو ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں؟ سعید نے جواب دیا، یہ حدیث بیان کرنے والے حضرت معمر رضی اللہ تعالی عنہ خود ذخیرہ کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
احتكار، حَكَرسے ماخوذ ہے، جس کا معنی ہے جمع کرنا، روک لینا، اس لیے حكره کا معنی ہوتا ہے، مہنگا بیچنے کے لیے روک لینا، یا جمع کرنا۔
فوائد ومسائل
ائمہ اربعہ کے نزدیک، غذائی اشیاء کو ذخیرہ کرنا، تاکہ ان کو مہنگا بیچا جا سکے، ناجائز ہے، اور غذائی اشیاء کے سوا، دوسری اشیاء کا ذخیرہ کرنا، ناجائز نہیں ہے، اور حضرت معمر اور سعید، زیتون کے تیل کا ذخیرہ کرتے تھے، امام ابن قدامہ حنبلی نے ناجائز احتکار کے لیے تین شروط بیان کی ہیں۔ (1) چیز بازار سے خرید کر ذخیرہ کرے، اپنے کھیت کی چیز کا سٹاک کر لینا ذخیرہ اندوزی نہیں ہے۔ (2) ایسی چیز ذخیرہ کی جائے، جو غذا کے کام آتی ہو، اس لیے، سالن، شہد، حلوا، زیتون کا تیل اور جانوروں کا چارہ اس میں داخل نہیں ہے۔ (3) چیز پر مکمل طور پر قبضہ کر لیا جائے، وہ بازار سے دستیاب نہ ہو، اور لوگوں کو اس کی ضرورت ہو، اگر چیز بازار میں دستیاب ہو تو یہ احتکار نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Ma'mar (RA) reported Allah's Messenger (ﷺ) as saying: He who hoards is a sinner. It was said to Sa'id (b. al-Musayyib): You also hoard. Sa'id said: Ma'mar who narrated this hadith also hoarded.