باب: انسان نے جو کچھ صدقہ کیا اس کو اس شخص سے خریدنا مکروہ ہے جس پر وہ صدقہ کیا گیاتھا
)
Muslim:
The Book of Gifts
(Chapter: It Is Disliked For A Man To Buy What He Gave In Charity From The One To Whom He Gave It)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1620.
عبداللہ بن مسلمہ بن قعنب نے ہمیں حدیث بیان کی: ہمیں مالک بن انس نے زید بن اسلم سے حدیث بیان کی، انہوں نے اپنے والد سے روایت کی کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: میں نے اللہ کی راہ میں (جہاد کرنے کے لیے کسی کو) ایک عمدہ گھوڑے پر سوار کیا (اسے دے دیا) تو اس کے (نئے) مالک نے اسے ضائع کر دیا (اس کی ٹھیک طرح سے خبر گیری نہ کی)، میں نے خیال کیا کہ وہ اسے کم قیمت پر فروخت کر دے گا، چنانچہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے بارے میں پوچھا تو آپﷺ نے فرمایا: ’’اسے مت خریدو اور نہ اپنا (دیا ہوا) صدقہ واپس لو کیونکہ صدقہ واپس لینے والا ایسے کتے کی طرح ہے جو قے (چاٹنے کے لیے) اس کی طرف لوٹتا ہے۔‘‘
وراثت میں شرعی استحقاق کی بنیادپربلاقیمت دولت اورچیزیں وغیرہ ملتی ہیں۔ ہبہ میں بغیرکسی شرعی استحقاق کےایسی چیزیں دی جاتی ہیں ۔ صدقہ میں بھی یہی ہوتاہے لیکن فرق یہ ہےکہ صدقہ کسی ضرورت مندکودیاجاتاہے۔ اس کےپیچھےترحم کاجذبہ ہوتاہےجبکہ ہدیہ اکرام اورعزت ومحبت کےاظہارکےلیے دیاجاتاہے ۔ اگرصحیح نیت سےاورصحیح صورت میں کسی کوکچھ ہبہ کیاجائےتویہ اجتماعی طورپرمعاشرےکی بہتری کاسبب ہے۔دوست احباب اورعزیزایک دوسرےکےقریب آتےہیں ،اس لیے اس سےایسی کوئی صورت پیدانہیں ہونی چاہیےکہ مثبت کےبجائےمنفی نتائج سامنےآئیں۔ آپ اپنی مرضی سےکسی کوعطیہ نہ کریں یاصدقےکامستحق نہ سمجھیں توکوئی بہت بڑی خرابی پیدانہیں ہوتی لیکن کسی کوچیزدےکرواپس لےلیں توبناہواتعلق بھی بگڑجاتاہے۔ کسی کوکچھ دینابہت اعلیٰ جذبات کامرہون منت ہوتاہے۔ دےکرلےلینااس کےبرعکس ہے۔یہ لالچ ،خودغرضی اورخودپسندی کےزمرےمیں آتاہے۔
امام مسلم نےصدقات واپس نہ لینےکی احادیث سےآغازکیاہے۔ ہبہ کی ہوئی چیزکی طرح صدقات کوواپس لینابھی انتہائی ناپسندیدہ کام ہے۔ رسول اللہﷺ نےاس کےلیے مثال بھی ایسی دی ہےجس سےاس کی انتہائی قباحت واضح ہوتی ہے۔ صدقےمیں اصل امقصوداللہ کوراضی کرناہے،واپسی یقینی طورپراس کی رضاسےمحرومی بلکہ ناراضی کاسبب ہے۔ نتائج کےاعتبارسے یہ انتہائی غلط کام ہے۔ رسول اللہﷺنےاخلاق عالیہ کےتقاضےپورےکرنےکےلیے صدقےمیں دی ہوئی چیزکوقیمتاواپس لینےسےبھی منع فرمایاہے۔
اگرکسی قریبی رشتہ دارخصوصااولادمیں سےبعض کودیاجائےاوربعض کومحروم رکھاجائےتواس سےبھی بےپناہ خرابیاں پیداہوتی ہیں۔ سب سےبڑی خرابی یہ ہےکہ سب بچےفطرتاوالدین سےایک جیسامحبت بھراتعلق رکھتےہیں، اس کےاظہارمیں وہ ایک دوسرےسےمختلف ہوں، لیکن جنہیں محروم کیاجائےگاوہ یہی سمجھیں گےکہ ان کےوالدین یاوالدان سےمحبت نہیں کرتے۔ اس سےوہ خودبھی منفی کیفیت کاشکارہوجائیں گےاوران میں والدین کےحوالےسےعدم محبت اورعدم خدمت کابھی جذبہ پیداہوگا۔ اگروالدین سمجھتےہیں کہ کسی بچےمیں اس حوالےسےکمی ہےتواسےمحروم کرنےسےاس خرابی میں اضافہ ہوگا۔ منصفانہ سلوک بچوں کی اصلاح کاسبب بنتاہےاوراگرایسانہ بھی ہوسکےتووالدین یادونوں میں سےایک جودےرہاہے،کم ازکم خوداللہ کےسامنےجوابدہی سےمحفوظ رہےگا۔
عمربھرکےلیے کسی کوچیزدیں تووہ اس خاندان کےلیے اپنی چیزکےمترادف ہوتی ہے۔ اس سےمحرومی اپنی چیزسےمحرومی کی طرح تلخ لگتی ہےاوراب تک جومثبت جذبات موجودتھےوہ منفی جذبات میں تبدیل ہوجاتےہیں۔ معاشرےکواس سےمحفوظ رکھنےکےلیے آپﷺ نےیہ ہدایت جاری فرمائی کہ عمربھرکےلیے کسی کودیں توان کےبچوں سےبھی واپس نہ لیں،واپسی سےبہترہےدیاہی نہ جائے،البتہ عاریتادینااس سےمختلف ہے۔ لینےوالاسمجھتاہےکہ یہ چیزاس کی نہیں ،وہ عارضی طورپراس سےاستفادہ کررہاہےتویہ دینےوالےکی نیکی ہے۔
كتاب الهبات میں ان تمام امورکےحوالےسےفرامین رسولﷺکوپیش کیاگیاہے۔
عبداللہ بن مسلمہ بن قعنب نے ہمیں حدیث بیان کی: ہمیں مالک بن انس نے زید بن اسلم سے حدیث بیان کی، انہوں نے اپنے والد سے روایت کی کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: میں نے اللہ کی راہ میں (جہاد کرنے کے لیے کسی کو) ایک عمدہ گھوڑے پر سوار کیا (اسے دے دیا) تو اس کے (نئے) مالک نے اسے ضائع کر دیا (اس کی ٹھیک طرح سے خبر گیری نہ کی)، میں نے خیال کیا کہ وہ اسے کم قیمت پر فروخت کر دے گا، چنانچہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے بارے میں پوچھا تو آپﷺ نے فرمایا: ’’اسے مت خریدو اور نہ اپنا (دیا ہوا) صدقہ واپس لو کیونکہ صدقہ واپس لینے والا ایسے کتے کی طرح ہے جو قے (چاٹنے کے لیے) اس کی طرف لوٹتا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک عمدہ گھوڑا اللہ کی راہ میں یعنی بطور صدقہ دیا، تو اس کے مالک نے اسے ضائع کر دیا، تو میں نے خیال کیا، وہ اس کو سستا بیچ دے گا، میں نے اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا؟ تو آپﷺ نے فرمایا: ’’اسے مت خریدو، اور اپنا صدقہ واپس نہ لو، کیونکہ اپنا صدقہ واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو قے کر کے چاٹ لیتا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
(1) حَمَلْتُ عَليٰ فَرسِ: میں نے گھوڑے پر سوار کیا، یعنی گھوڑا صدقہ کیا۔ (2) عَتِيق: نفیس اور عمدہ۔ (3) اضاعه صاحبه: جس کو صدقہ میں دیا تھا، اس نے اس کی دیکھ بھال اور فروخت میں کوتاہی کی اور ضائع کر ڈالا۔
فوائد ومسائل
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ جو چیز صدقہ میں دے دی جائے، اس کو خریدنا جائز نہیں ہے، اور چونکہ جس کو صدقہ دیا ہے، جب اس سے خرید لیں گے، تو وہ سستے داموں آپ کو واپس کرے گا، اس لیے آپ نے اس کو صدقہ کی واپسی سے تعبیر فرمایا ہے، ائمہ کے نزدیک سستا خریدنا تو ناجائز ہے، اور صحیح قیمت پر خریدنا، ناپسندیدہ ہے، لیکن ہر دو صورت میں بیع ہو جائے گی، جبکہ اہل ظاہر کے نزدیک یہ بیع ہی درست نہیں ہے، جیسا کہ حدیث کا تقاضا ہے، لیکن اگر صدقہ کردہ چیز وراثت میں واپس آ جائے، تو ائمہ اربعہ کے نزدیک بالاتفاق جائز ہے، اگرچہ بعض اہل علم اس کو بھی درست نہیں سمجھتے، لیکن یہ موقف درست نہیں ہے، کیونکہ اس کا جواز حدیث سے ثابت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Umar bin Khattab (RA) reported: I donated a pedigree horse in the path of Allah. Its possesser made it languish. I thought that he would sell it at a cheap price. I asked Allah's Messenger (ﷺ) about it, whereupon he said: Don't buy it and do not get back your charity, for one who gets back the charity is like a dog who swallows its vomit.