Muslim:
The Book of Wills
(Chapter: A Man's Will Should Be Written With Him)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1627.
یحییٰ بن سعید قطان نے ہمیں عبیداللہ سے حدیث بیان کی کہا: مجھے نافع نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کسی مسلمان کو، جس کے پاس کچھ ہو اور وہ اس میں وصیت کرنا چاہتا ہو، اس بات کا حق نہیں کہ وہ دو راتیں (بھی) گزارے مگر اس طرح کہ اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی ہو۔‘‘
وَصِیَ کےمعنی وَصَلَ کےجیسےہیں، یعنی ملانا۔ یہ لفظ زیادہ ترموت سےپہلےکےمعاملات کوموت کےبعدکےعہدسےملانےکےلیے استعمال ہوتاہے۔ وصیت کی بنیادیہ ہےکہ مومن دنیوی زندگی کی خیر،خوبی اورنیکی کواگلےمرحلےکےساتھ جوڑناچاہتاہے،مثلا:قرآن میں حضرت ابراہیم اورحضرت یعقوبکی وصیت کاذکراس سیاق میں ہے(إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ وَوَصَّى بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ يَا بَنِيَّ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى لَكُمُ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ)’’جب ان (ابراہیم)کےرب نےان سےکہا:خودکو(اللہ کے)سپردکرو(اسلام میں آؤ)توانہوں نےکہامیں نےخودکوسب جہانوں کےپالنےوالےکےسپردکیا۔ اورانہوں (ابراہیم)نےاپنےبیٹوں کواوریعقوب نےبھی یہی وصیت کی کہ میرےبیٹو!اللہ نےتمہارےلیےدین(زندگی گزارنےکاطریقہ)چن لیاہے، اس لیے تم نہ مرنامگراس طرح کہ تم نےخودکو(اللہ کے)سپردکردیاہو۔ ‘‘(البقرۃ 132،131:2)
حضرت ابراہیم اورحضرت یعقوبنےچاہاکہ ان کی زندگی کاپوراطریقہ ان کےبعدان کی اولادمیں جاری وساری ہو۔ یہ مقصدعمومازبانی یالکھ کربعدوالون کےذمہ لگانےسےحاصل ہوتاہے،اس لیے وصیت کالفظ دوسرےکوذمہ داربنانے،پابندکرنےیاکسی کوتاکیدکرنےکےمعنیٰ میں بھی استعمال ہوتاہے۔ اللہ نےقرآن مجیدمیں جہاں وصیت کالفظ اپنےلیے استعمال کیاہےوہاں صرف اورصرف تاکیدکرنےاورذمہ داری لگانےیاپابندکرنےکےمعنی میں ہے: (وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا )’’اورہم نےانسان کواپنےوالدین سےحسن سلوک کاذمہ دارٹھہرایا،یاحسن سلوک کی تاکیدکی ۔ ‘‘)العنکبوت 8:29)
اللہ نےانسان کواس بات کابھی پابندکیاکہ وہ موت سےپہلےاپنےچھوڑےہوئےمال کےحوالےسےذمہ داری کاتعین کرے(تاکہ اس کی موت کےبعداسی طرح استعمال ہو۔) (إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِنْ تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ )’’تم پرفرض کیاگیاہےکہ جب تم میں سےکسی کی موت قریب آئے،اگروہ کوئی مال چھوڑے،تووہ والدین اواقرباءکےحق میںوصیت کرے۔‘‘(البقرۃ180:2)بعدازاں جب اللہ تبارک وتعالیٰ نےوارثوں کےحصےمقررفرمادیےتووصیت مال کےایک تہائی حصےتک بطوراختیارباقی رکھی گئی ،البتہ جوشخص اپنایہ اختیاراستعمال کرناچاہیےاسےپابندکیاگیاکہ ارادہ پختہ ہوتےہی وہ بلاتاخیراپنی وصیت کوتحریری شکل میں لےآئے۔
صحیح مسلم کی ’’کتاب الوصیۃ‘‘کاآغازوصیت تحریرکرنےکےمسئلےسےہوتاہے،پھراس حوالےسےاحادیث بیان کی گئی ہیں کہ انسان اپنےترکےمیں سےایک تہائی حصےتک کےبارےمیں وصیت کرسکتاہے،پھردیگرمتعلقہ مسائل پربھی روشنی ڈالی گئی ہے،مثلاکیارسول اللہﷺ نےوصیت فرمائی؟کیاوہ وصیت اپنےبعدکسی کی جانشینی کےحوالےسےتھی جس طرح سےبعض لوگوں نےدعویٰ کیا؟متعلقہ باب کی احادیث اوران کےتحت دیےگئے’’فوائد‘‘کےذریعےسےاس دعویٰ کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے۔ یہ بھی کتاب الوصیۃ کاحصہ ہےکہ اپنی جائدادکاکچھ حصہ موقف کرنےکےبارےمیں کیاحکم ہے؟پھراس کےساتھ یہ اہم مسئلہ بھی کہ انسان کےمرجانےکےبعداسےکس کس چیزکاثواب پہنچتاہے؟اگرکوئی دوسراشخص مرنےوالےکےبعداس کیطرف سےصدقہ کرےتوکیامرنےوالےکےاس کافائدہ پہنچتاہے۔ اس مسئلےمیں اہل علم کےہاں اختلاف پایاجاتاہے۔ متکلمین میں سےماوردی کانقطہ نظریہ ہےکہ موت کےبعدانسان کوکسی طرح کاکوئی ثواب نہیں پہنچتا۔ امام نووی ایک مقام پرلکھتےہیں حدیث سےواضح ہوجاتاہے کہ جس طرح میت کودعاکافائدہ ہوتاہےاسی طرح صدقےکابھی ثواب ملتاہےاس حوالےسےصحیح مسلم کی احادیث کےعلاوہ بخاری کی یہ روایت بھی واضح ہے: (أَنْبَأَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ تُوُفِّيَتْ أُمُّهُ وَهُوَ غَائِبٌ عَنْهَا، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أُمِّي تُوُفِّيَتْ وَأَنَا غَائِبٌ عَنْهَا، أَيَنْفَعُهَا شَيْءٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ بِهِ عَنْهَا؟ قَالَ: «نَعَمْ»، قَالَ: فَإِنِّي أُشْهِدُكَ أَنَّ حَائِطِيَ المِخْرَافَ صَدَقَةٌ عَلَيْهَا )’’حضرت ابن عباسؓ نےخبردی کہ حضرت سعدبن عبادہ کی والدہ فوت ہوئیں تووہ موجودنہ تھے(رسول اللہﷺ کی معیت میں غزوہ دومۃ الجندل میں شریک تھے) انہوں نےرسول اللہﷺ سےپوچھامیری والدہ فوت ہوئیں تومیں غائب تھا۔ اگرمیں ان کی طرف کوئی چیزصدقہ کروں توکیااس سےانہیں فائدہ ہوگا؟آپ ﷺ نےفرمایا:’’ہاں ۔‘‘انہوں نےکہاتومیں آپ کوگواہ بناتاہوں کہ میراباغ منحراف ان کےلیے صدقہ ہے۔‘‘(صحیح البخاری ،حدیث :2762)
امام ابن قیملکھتےہیں بدنی عبادات،مثلا:نماز،روزہ ،تلاوت اورذکرکرکےحوالےسےعلماءمیں اختلاف ہے۔ امام احمد،امام ابوحنیفہ کےشاگرداورجمہورعلماءان کاثواب پہنچنےکےقائل ہیں۔ ماوردی وغیرہ نےقرآن کی آیت(وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى) ’’اورانسان کےلیے صرف وہی ہےجس کی اس نےکوشش کی ‘‘(النجم39:53)سےاپنےحق میں استدلال کیاہے۔ اہل سنت نےاس کاجواب یہ دیاہےکہ قرآن کےعموم کی سنت کےذریعےسےتخصیص ہوتی ہے۔ حضرت اما م ابن تیمیہ نےاپنےفتاوی میں کئی جگہ اس موضوع پربحث کی ہےوہ فرماتےہیں۔ (ان الاية ليست فى ظاهرهاالاانه ليس له الاسعيه وهذاحق فانه لايملك ولايستحق الاسعى نفسه ،واماسعى غيره فلايملكه ولايستحقه ،لكن هذالا يمنع ان ينفعه الله ويرحمه به )مجموع فتاوى:7/499)’’انسان کےلیے اس کی کاوش ہی ہے۔‘‘یہ بات درست ہے،کیونکہ وہ اپنی کاوش ہی کامالک اورمستحق ہے،رہی دوسروں کی کوشش تووہ نہ اس کامالک ہےنہ مستحق لیکن یہ بات مانع نہیں کہ اللہ تعالیٰ اسےدوسروں کی کاوشوں کےسبب سےنفع دےیااس پررحم کرے۔ اسی طرح وہ فرماتےہیں:(لكن الجواب المحقق فى ذلك ان الله تعالى لم يقل :ان الانسان لاينتفع الابسعى نفسه،وانماقال (لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى)النجم39:53)فهولايملك الا سعيه ولايستحق غيرذلك ،واما سعى غيره فهوله كما ان الانسان لايملك الامال نفسه ونفع نفسه فمال غيره ونفع غيره هوكذالك للغيرلكن اذاتبرع له الغيربذلك ،جازوهكذااذاتبرع له الغيربسعيه نفعه الله بذلك كما ينفعه بدعائه له والصدقة عنه وهو ينتفع بكل مايصل اليه من كل مسلم سواء كان من اقاربه او غيرهم كماينفع بصلاة المصلين عليه ودعائهم له عندقبره)’’لیکن اس بارےمیں تحقیق شدہ جواب یہ ہےکہ اللہ تعالیٰ نےیہ نہیں کہاکہ انسان اپنی کوشش کےسواکسی چیزسےفائدہ نہیں اٹھاسکتابلکہ فرمایاہے:’’انسان کےلیے وہی ہےجس کی اس نےکوشش کی ‘‘لہذاوہ مالک اپنی کاوش ہی کاہے۔ اس کےعلاوہ کسی بات کااستحقاق نہیں رکھتا۔ جہاں تک کسی دوسرےکی سعی کاتعلق ہےتووہ اسی کی ہے۔ جس طرح انسان اپنےہی مال کامالک ہوتاہےاورخودکی ہی فائدہ پہنچاسکتاہے، اسی طرح دوسرےکامال اوردوسرےکامنافع اسی غیرکاہے،لیکن جب وہ غیراپنی مرضی سےاس کودےتواس کےلیے وہ جائزہے۔ اسی طرح اگرکسی دوسرےنےاپنی سعی کاثمراپنی مرضی سےاسےدیاتواللہ اس کواس کافائدہ پہنچاتاہے، وہ ہراس چیزسےفائدہ اٹھاتاہےجواس تک کسی بھی مسلمان کی طرف سےپہنچتی ہے،چاہےوہ اس کےاقارب میں سےہو، چاہےکوئی دوسرامسلمان۔ جس طرح وہ اپنےحق میں دعاکرنےوالوں کی دعاسےمستفیدہوتاہےاوراپنی قبرکےپاس ان کی دعاسےفائدہ اٹھاتاہے۔ ‘‘(مجموع فتاوی:24/367)
انہوں نےحضرت ابوذرکی حدیث کی شرح پرمشتمل اپنےرسالےمیں تقریباتیس شرعی دلیلیں اس بات کےبارےمیں ذکرکی ہیں کہ انسان کاحق اپنی سعی پرہےلیکن وہ دوسروں کی سعی سےمستفیدہوسکتاہے۔ (مجموعۃ الرسائل المنیرہ:3/209)
اس کتاب میں صحیح مسلم کی احادیث کابغورمطالعہ بہت سےمسائل میں انسانی ذہن کی گتھیاں سلجھا سکتاہے۔
یحییٰ بن سعید قطان نے ہمیں عبیداللہ سے حدیث بیان کی کہا: مجھے نافع نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کسی مسلمان کو، جس کے پاس کچھ ہو اور وہ اس میں وصیت کرنا چاہتا ہو، اس بات کا حق نہیں کہ وہ دو راتیں (بھی) گزارے مگر اس طرح کہ اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی ہو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایسے مسلمان کے لیے جس کے پاس وصیت کے لائق چیز ہو، جس کے بارے میں وہ وصیت کرنا چاہتا ہے، اس کے لیے درست نہیں ہے کہ وصیت لکھے بغیر دو راتیں بسر کرے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
ما حق امري، يعني لا يحق له،اس کے لیے درست اور صحیح رویہ نہیں ہے کہ وہ اپنے پاس وصیت لکھ کر نہ رکھے۔
فوائد ومسائل
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اگر کسی کے پاس وصیت کے قابل چیز موجود ہو، اس پر قرضہ ہو، کسی کی امانت ہو، یا کوئی اور لازم چیز ہو، جس کو اب وہ خود ادا نہیں کر سکتا، تو اس پر اس صورت میں وصیت کرنا لازم ہے، مثلا اس کے ذمہ روزے رہتے ہیں، حج کرنا لازم ہے، لیکن کر نہیں سکتا ہے، کسی غیر وارث کے حق میں وصیت کرنے کی ضرورت ہے، مثلا اس کے پوتے، پوتیاں ہیں، جو اپنے چچاؤں کی موجودگی میں وارث نہیں بن سکتے، ان ضروری صورتوں کے بغیر جمہور کے نزدیک جس میں ائمہ اربعہ داخل ہیں، وصیت ضروری نہیں ہے، لیکن امام داؤد اور بعض تابعین کے نزدیک، غیر وارث، رشتہ داروں کے حق میں ہر صورت میں وصیت کرنا فرض ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Ibn 'Umar (RA) reported Allah's Messenger (ﷺ) as saying: It is the duty of a Muslim who has something which is to be given as a bequest not to have it for two nights without having his will written down regarding it.