تشریح:
فوائدومسائل:
عربی زبان میں وصی اس شخص کو کہتے ہیں جسے وصیت کی جائے۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو ایسی کوئی وصیت نہیں فرمائی کہ آپ کے بعد وہ امیرالمؤمنین بن جائیں۔ امارت کے حوالے سے اللہ نے قرآن میں قطعی حکم نازل فرما دیا: ﴿وَاَمْرُهُمْ شُوْرٰي بَيْنَهُم﴾ ’’امارت مسلمانوں کے باہمی مشورے سے ہو گی‘‘ (الشوری 38:42) رسول اللہ نے اگر شوری کی بجائے وصیت کا نظام جاری فرمانا ہوتا توبھی آپﷺ یہ وصیت حضرت علی کے بجائے مسلمانوں کو کرتے۔ اور اگر بالفرض حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ہی کو وصیت فرمائی ہو تب تو وہ لازماً یہ معاملہ مسلمانوں کے سامنے پیش کر کے اس پر عملدرآمد کا اتنظام کرتے۔ یہ کسی کی مجال نہ تھی کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی وصیت کے خلاف کوئی کام کرتا۔ پھر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے قرآن کے حکم کے مطابق پہلے بھی شوریٰ کے فیصلے کو قبول کیا اور جب شوریٰ نے ان کے بارے میں امارت سنبھالنے کا فیصلہ کیا تو انھوں نے اس پر عمل کیا۔ یہ کبھی نہیں کہا کہ ان کے لیے وصیت کی گئی تھی۔ نہ خلیفہ بننے سے پہلے، نہ اس کے بعد بلکہ جو لوگ یہ کہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی کو خلافت کے بارے میں وصیت کی تھی وہی ان کے خلیفہ بن جانے کے بعد ان کی بھی نافرمانی پر کمر بستہ ہو گئے۔ حضرت علی ﷺ سے سخت بیزار تھے۔ اس سے ثابت ہوا کہ وصیت کا شوشہ من گھڑت تھا، محض اخلاف ڈالنے کے لیے چھوڑا گیا تھا، اس سے مقصود حق کی حمایت نہ تھی۔