باب: اس شخص کا وصیت نہ کرنا جس کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں جس میں وہ وصیت کر سکے
)
Muslim:
The Book of Wills
(Chapter: Not Making A Will For One Who Has Nothing To Be Bequeathed)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1636.
اسود بن یزید سے روایت ہے، انہوں نے کہا: لوگوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس ذکر کیا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ وصی (جسے وصیت کی جائے) تھے۔ تو انہوں نے کہا: آپ ﷺ نے انہیں کب وصیت کی؟ بلاشبہ آپﷺ کو اپنے سینے سے ۔۔ یا کہا: اپنی گود سے ۔۔ سہارا دینے والی میں تھی، آپﷺ نے برتن منگوایا، اس کے بعد آپ (کمزوری سے) میری گود ہی میں جھک گئے اور مجھے پتہ بھی نہ چلا کہ آپﷺ کی وفات ہو گئی، تو آپﷺ نے انہیں کب وصیت کی۔
تشریح:
فوائدومسائل:
عربی زبان میں وصی اس شخص کو کہتے ہیں جسے وصیت کی جائے۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو ایسی کوئی وصیت نہیں فرمائی کہ آپ کے بعد وہ امیرالمؤمنین بن جائیں۔ امارت کے حوالے سے اللہ نے قرآن میں قطعی حکم نازل فرما دیا: ﴿وَاَمْرُهُمْ شُوْرٰي بَيْنَهُم﴾’’امارت مسلمانوں کے باہمی مشورے سے ہو گی‘‘ (الشوری 38:42) رسول اللہ نے اگر شوری کی بجائے وصیت کا نظام جاری فرمانا ہوتا توبھی آپﷺ یہ وصیت حضرت علی کے بجائے مسلمانوں کو کرتے۔ اور اگر بالفرض حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ہی کو وصیت فرمائی ہو تب تو وہ لازماً یہ معاملہ مسلمانوں کے سامنے پیش کر کے اس پر عملدرآمد کا اتنظام کرتے۔ یہ کسی کی مجال نہ تھی کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی وصیت کے خلاف کوئی کام کرتا۔ پھر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے قرآن کے حکم کے مطابق پہلے بھی شوریٰ کے فیصلے کو قبول کیا اور جب شوریٰ نے ان کے بارے میں امارت سنبھالنے کا فیصلہ کیا تو انھوں نے اس پر عمل کیا۔ یہ کبھی نہیں کہا کہ ان کے لیے وصیت کی گئی تھی۔ نہ خلیفہ بننے سے پہلے، نہ اس کے بعد بلکہ جو لوگ یہ کہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی کو خلافت کے بارے میں وصیت کی تھی وہی ان کے خلیفہ بن جانے کے بعد ان کی بھی نافرمانی پر کمر بستہ ہو گئے۔ حضرت علی ﷺ سے سخت بیزار تھے۔ اس سے ثابت ہوا کہ وصیت کا شوشہ من گھڑت تھا، محض اخلاف ڈالنے کے لیے چھوڑا گیا تھا، اس سے مقصود حق کی حمایت نہ تھی۔
وَصِیَ کےمعنی وَصَلَ کےجیسےہیں، یعنی ملانا۔ یہ لفظ زیادہ ترموت سےپہلےکےمعاملات کوموت کےبعدکےعہدسےملانےکےلیے استعمال ہوتاہے۔ وصیت کی بنیادیہ ہےکہ مومن دنیوی زندگی کی خیر،خوبی اورنیکی کواگلےمرحلےکےساتھ جوڑناچاہتاہے،مثلا:قرآن میں حضرت ابراہیم اورحضرت یعقوبکی وصیت کاذکراس سیاق میں ہے(إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ وَوَصَّى بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ يَا بَنِيَّ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى لَكُمُ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ)’’جب ان (ابراہیم)کےرب نےان سےکہا:خودکو(اللہ کے)سپردکرو(اسلام میں آؤ)توانہوں نےکہامیں نےخودکوسب جہانوں کےپالنےوالےکےسپردکیا۔ اورانہوں (ابراہیم)نےاپنےبیٹوں کواوریعقوب نےبھی یہی وصیت کی کہ میرےبیٹو!اللہ نےتمہارےلیےدین(زندگی گزارنےکاطریقہ)چن لیاہے، اس لیے تم نہ مرنامگراس طرح کہ تم نےخودکو(اللہ کے)سپردکردیاہو۔ ‘‘(البقرۃ 132،131:2)
حضرت ابراہیم اورحضرت یعقوبنےچاہاکہ ان کی زندگی کاپوراطریقہ ان کےبعدان کی اولادمیں جاری وساری ہو۔ یہ مقصدعمومازبانی یالکھ کربعدوالون کےذمہ لگانےسےحاصل ہوتاہے،اس لیے وصیت کالفظ دوسرےکوذمہ داربنانے،پابندکرنےیاکسی کوتاکیدکرنےکےمعنیٰ میں بھی استعمال ہوتاہے۔ اللہ نےقرآن مجیدمیں جہاں وصیت کالفظ اپنےلیے استعمال کیاہےوہاں صرف اورصرف تاکیدکرنےاورذمہ داری لگانےیاپابندکرنےکےمعنی میں ہے: (وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا )’’اورہم نےانسان کواپنےوالدین سےحسن سلوک کاذمہ دارٹھہرایا،یاحسن سلوک کی تاکیدکی ۔ ‘‘)العنکبوت 8:29)
اللہ نےانسان کواس بات کابھی پابندکیاکہ وہ موت سےپہلےاپنےچھوڑےہوئےمال کےحوالےسےذمہ داری کاتعین کرے(تاکہ اس کی موت کےبعداسی طرح استعمال ہو۔) (إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِنْ تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ )’’تم پرفرض کیاگیاہےکہ جب تم میں سےکسی کی موت قریب آئے،اگروہ کوئی مال چھوڑے،تووہ والدین اواقرباءکےحق میںوصیت کرے۔‘‘(البقرۃ180:2)بعدازاں جب اللہ تبارک وتعالیٰ نےوارثوں کےحصےمقررفرمادیےتووصیت مال کےایک تہائی حصےتک بطوراختیارباقی رکھی گئی ،البتہ جوشخص اپنایہ اختیاراستعمال کرناچاہیےاسےپابندکیاگیاکہ ارادہ پختہ ہوتےہی وہ بلاتاخیراپنی وصیت کوتحریری شکل میں لےآئے۔
صحیح مسلم کی ’’کتاب الوصیۃ‘‘کاآغازوصیت تحریرکرنےکےمسئلےسےہوتاہے،پھراس حوالےسےاحادیث بیان کی گئی ہیں کہ انسان اپنےترکےمیں سےایک تہائی حصےتک کےبارےمیں وصیت کرسکتاہے،پھردیگرمتعلقہ مسائل پربھی روشنی ڈالی گئی ہے،مثلاکیارسول اللہﷺ نےوصیت فرمائی؟کیاوہ وصیت اپنےبعدکسی کی جانشینی کےحوالےسےتھی جس طرح سےبعض لوگوں نےدعویٰ کیا؟متعلقہ باب کی احادیث اوران کےتحت دیےگئے’’فوائد‘‘کےذریعےسےاس دعویٰ کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے۔ یہ بھی کتاب الوصیۃ کاحصہ ہےکہ اپنی جائدادکاکچھ حصہ موقف کرنےکےبارےمیں کیاحکم ہے؟پھراس کےساتھ یہ اہم مسئلہ بھی کہ انسان کےمرجانےکےبعداسےکس کس چیزکاثواب پہنچتاہے؟اگرکوئی دوسراشخص مرنےوالےکےبعداس کیطرف سےصدقہ کرےتوکیامرنےوالےکےاس کافائدہ پہنچتاہے۔ اس مسئلےمیں اہل علم کےہاں اختلاف پایاجاتاہے۔ متکلمین میں سےماوردی کانقطہ نظریہ ہےکہ موت کےبعدانسان کوکسی طرح کاکوئی ثواب نہیں پہنچتا۔ امام نووی ایک مقام پرلکھتےہیں حدیث سےواضح ہوجاتاہے کہ جس طرح میت کودعاکافائدہ ہوتاہےاسی طرح صدقےکابھی ثواب ملتاہےاس حوالےسےصحیح مسلم کی احادیث کےعلاوہ بخاری کی یہ روایت بھی واضح ہے: (أَنْبَأَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ تُوُفِّيَتْ أُمُّهُ وَهُوَ غَائِبٌ عَنْهَا، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أُمِّي تُوُفِّيَتْ وَأَنَا غَائِبٌ عَنْهَا، أَيَنْفَعُهَا شَيْءٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ بِهِ عَنْهَا؟ قَالَ: «نَعَمْ»، قَالَ: فَإِنِّي أُشْهِدُكَ أَنَّ حَائِطِيَ المِخْرَافَ صَدَقَةٌ عَلَيْهَا )’’حضرت ابن عباسؓ نےخبردی کہ حضرت سعدبن عبادہ کی والدہ فوت ہوئیں تووہ موجودنہ تھے(رسول اللہﷺ کی معیت میں غزوہ دومۃ الجندل میں شریک تھے) انہوں نےرسول اللہﷺ سےپوچھامیری والدہ فوت ہوئیں تومیں غائب تھا۔ اگرمیں ان کی طرف کوئی چیزصدقہ کروں توکیااس سےانہیں فائدہ ہوگا؟آپ ﷺ نےفرمایا:’’ہاں ۔‘‘انہوں نےکہاتومیں آپ کوگواہ بناتاہوں کہ میراباغ منحراف ان کےلیے صدقہ ہے۔‘‘(صحیح البخاری ،حدیث :2762)
امام ابن قیملکھتےہیں بدنی عبادات،مثلا:نماز،روزہ ،تلاوت اورذکرکرکےحوالےسےعلماءمیں اختلاف ہے۔ امام احمد،امام ابوحنیفہ کےشاگرداورجمہورعلماءان کاثواب پہنچنےکےقائل ہیں۔ ماوردی وغیرہ نےقرآن کی آیت(وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى) ’’اورانسان کےلیے صرف وہی ہےجس کی اس نےکوشش کی ‘‘(النجم39:53)سےاپنےحق میں استدلال کیاہے۔ اہل سنت نےاس کاجواب یہ دیاہےکہ قرآن کےعموم کی سنت کےذریعےسےتخصیص ہوتی ہے۔ حضرت اما م ابن تیمیہ نےاپنےفتاوی میں کئی جگہ اس موضوع پربحث کی ہےوہ فرماتےہیں۔ (ان الاية ليست فى ظاهرهاالاانه ليس له الاسعيه وهذاحق فانه لايملك ولايستحق الاسعى نفسه ،واماسعى غيره فلايملكه ولايستحقه ،لكن هذالا يمنع ان ينفعه الله ويرحمه به )مجموع فتاوى:7/499)’’انسان کےلیے اس کی کاوش ہی ہے۔‘‘یہ بات درست ہے،کیونکہ وہ اپنی کاوش ہی کامالک اورمستحق ہے،رہی دوسروں کی کوشش تووہ نہ اس کامالک ہےنہ مستحق لیکن یہ بات مانع نہیں کہ اللہ تعالیٰ اسےدوسروں کی کاوشوں کےسبب سےنفع دےیااس پررحم کرے۔ اسی طرح وہ فرماتےہیں:(لكن الجواب المحقق فى ذلك ان الله تعالى لم يقل :ان الانسان لاينتفع الابسعى نفسه،وانماقال (لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى)النجم39:53)فهولايملك الا سعيه ولايستحق غيرذلك ،واما سعى غيره فهوله كما ان الانسان لايملك الامال نفسه ونفع نفسه فمال غيره ونفع غيره هوكذالك للغيرلكن اذاتبرع له الغيربذلك ،جازوهكذااذاتبرع له الغيربسعيه نفعه الله بذلك كما ينفعه بدعائه له والصدقة عنه وهو ينتفع بكل مايصل اليه من كل مسلم سواء كان من اقاربه او غيرهم كماينفع بصلاة المصلين عليه ودعائهم له عندقبره)’’لیکن اس بارےمیں تحقیق شدہ جواب یہ ہےکہ اللہ تعالیٰ نےیہ نہیں کہاکہ انسان اپنی کوشش کےسواکسی چیزسےفائدہ نہیں اٹھاسکتابلکہ فرمایاہے:’’انسان کےلیے وہی ہےجس کی اس نےکوشش کی ‘‘لہذاوہ مالک اپنی کاوش ہی کاہے۔ اس کےعلاوہ کسی بات کااستحقاق نہیں رکھتا۔ جہاں تک کسی دوسرےکی سعی کاتعلق ہےتووہ اسی کی ہے۔ جس طرح انسان اپنےہی مال کامالک ہوتاہےاورخودکی ہی فائدہ پہنچاسکتاہے، اسی طرح دوسرےکامال اوردوسرےکامنافع اسی غیرکاہے،لیکن جب وہ غیراپنی مرضی سےاس کودےتواس کےلیے وہ جائزہے۔ اسی طرح اگرکسی دوسرےنےاپنی سعی کاثمراپنی مرضی سےاسےدیاتواللہ اس کواس کافائدہ پہنچاتاہے، وہ ہراس چیزسےفائدہ اٹھاتاہےجواس تک کسی بھی مسلمان کی طرف سےپہنچتی ہے،چاہےوہ اس کےاقارب میں سےہو، چاہےکوئی دوسرامسلمان۔ جس طرح وہ اپنےحق میں دعاکرنےوالوں کی دعاسےمستفیدہوتاہےاوراپنی قبرکےپاس ان کی دعاسےفائدہ اٹھاتاہے۔ ‘‘(مجموع فتاوی:24/367)
انہوں نےحضرت ابوذرکی حدیث کی شرح پرمشتمل اپنےرسالےمیں تقریباتیس شرعی دلیلیں اس بات کےبارےمیں ذکرکی ہیں کہ انسان کاحق اپنی سعی پرہےلیکن وہ دوسروں کی سعی سےمستفیدہوسکتاہے۔ (مجموعۃ الرسائل المنیرہ:3/209)
اس کتاب میں صحیح مسلم کی احادیث کابغورمطالعہ بہت سےمسائل میں انسانی ذہن کی گتھیاں سلجھا سکتاہے۔
اسود بن یزید سے روایت ہے، انہوں نے کہا: لوگوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس ذکر کیا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ وصی (جسے وصیت کی جائے) تھے۔ تو انہوں نے کہا: آپ ﷺ نے انہیں کب وصیت کی؟ بلاشبہ آپﷺ کو اپنے سینے سے ۔۔ یا کہا: اپنی گود سے ۔۔ سہارا دینے والی میں تھی، آپﷺ نے برتن منگوایا، اس کے بعد آپ (کمزوری سے) میری گود ہی میں جھک گئے اور مجھے پتہ بھی نہ چلا کہ آپﷺ کی وفات ہو گئی، تو آپﷺ نے انہیں کب وصیت کی۔
حدیث حاشیہ:
فوائدومسائل:
عربی زبان میں وصی اس شخص کو کہتے ہیں جسے وصیت کی جائے۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو ایسی کوئی وصیت نہیں فرمائی کہ آپ کے بعد وہ امیرالمؤمنین بن جائیں۔ امارت کے حوالے سے اللہ نے قرآن میں قطعی حکم نازل فرما دیا: ﴿وَاَمْرُهُمْ شُوْرٰي بَيْنَهُم﴾’’امارت مسلمانوں کے باہمی مشورے سے ہو گی‘‘ (الشوری 38:42) رسول اللہ نے اگر شوری کی بجائے وصیت کا نظام جاری فرمانا ہوتا توبھی آپﷺ یہ وصیت حضرت علی کے بجائے مسلمانوں کو کرتے۔ اور اگر بالفرض حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ہی کو وصیت فرمائی ہو تب تو وہ لازماً یہ معاملہ مسلمانوں کے سامنے پیش کر کے اس پر عملدرآمد کا اتنظام کرتے۔ یہ کسی کی مجال نہ تھی کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی وصیت کے خلاف کوئی کام کرتا۔ پھر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے قرآن کے حکم کے مطابق پہلے بھی شوریٰ کے فیصلے کو قبول کیا اور جب شوریٰ نے ان کے بارے میں امارت سنبھالنے کا فیصلہ کیا تو انھوں نے اس پر عمل کیا۔ یہ کبھی نہیں کہا کہ ان کے لیے وصیت کی گئی تھی۔ نہ خلیفہ بننے سے پہلے، نہ اس کے بعد بلکہ جو لوگ یہ کہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی کو خلافت کے بارے میں وصیت کی تھی وہی ان کے خلیفہ بن جانے کے بعد ان کی بھی نافرمانی پر کمر بستہ ہو گئے۔ حضرت علی ﷺ سے سخت بیزار تھے۔ اس سے ثابت ہوا کہ وصیت کا شوشہ من گھڑت تھا، محض اخلاف ڈالنے کے لیے چھوڑا گیا تھا، اس سے مقصود حق کی حمایت نہ تھی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اسود بن یزید بیان کرتے ہیں، لوگوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے بیان کیا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں آپﷺ نے وصیت فرمائی تھی، تو انہوں نے کہا، انہیں کب وصیت کی؟ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے سینے کا سہارا دیا ہوا تھا، یا کہنے لگیں، آپﷺ میری گود میں ٹیک لگائے ہوئے تھے، تو آپﷺ نے تھال منگوایا اور میری گود میں گر گئے، اور مجھے پتہ نہ چل سکا، کہ آپﷺ فوت ہو گئے ہیں، تو آپﷺ نے انہیں کب وصیت کی؟
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
انخنث:آپ کے اعضاء ڈھیلے پڑ گئے، آپ جھک گئے۔
فوائد ومسائل
رافضی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے وصی ہونے کا پرچار کرتے تھے، اس لیے لوگ، صحابہ کرام سے اس کے بارے میں سوال کرتے تھے، تو صحابہ کرام اس کی تردید فرماتے، حتی کہ خود حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اس کی تردید منقول ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ جمل کے موقعہ پر کہا، اے لوگو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس امارت کے بارے میں کوئی وصیت نہیں کی۔ (فتح الباری، ج 5، ص 444) مولانا مبارکپوری نے تحفۃ الاحوذی، ج 3، ص 230 پر نقل کیا، کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے لوگوں نے کہا، آپ ہم پر خلیفہ کیوں مقرر نہیں کرتے؟ انہوں نے جواب دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خلیفہ مقرر نہیں فرمایا تھا، میں کیسے خلیفہ مقرر کروں، تفصیل کے لیے تکملہ ج 2 ص 131، 132 دیکھئے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Aswad bin Yazid reported: It was mentioned before A'isha that will had been made (by the Holy Prophet) in favour of 'Ali (as the Prophet's first caliph), whereupon she said: When did he make will in his favour? I had been providing support to him (to the Holy Prophet) with my chest (or with my lap). He asked for a tray, when he fell in my lap (relaxing his body), and I did not realise that he had breathed his last. When did he make any will in his ('Ali's) favour?