نذر یہ ہے کہ آدمی کسی نیکی کو جو اس پر واجب نہیں ،خود اپنے لیے واجب کر لے عموماً یہ مشروط ہوتی ہے اگر میرا فلاں کام ہو گیا تو میں اتنے نوافل پڑھوں گا،یا اتنے روزے رکھوں گا بعثت سے پہلے بھی لوگ نذر مانتے تھے مثلاً کعبہ کی طرف پیدل جانے ،کعبہ میں اعتکاف کرنے،جانور وہاں لے جا کر قربان کرنے یا مطلق کسی جانور کی قربانی جیسی نذریں مانی جاتی تھیں۔ نیکی کے صحیح کاموں کی نذریں جو لوگوں نے اسلام لانے سے پہلے مانی تھیں،اسلام لانے کے بعد انھیں پورا کرنے کا حکم دیا گیا شرط عموما کسی کام کے ہو جانے ،کسی تکلیف کے رفع ہونے یا کسی خدشے سے محفوظ ہونے اور کسی اچھی خبر ملنے کے حوالے سے ہوتی ہے شوافع اس کو نذرِ لحاج کہتے ہیں۔جب شرط پوری ہو جائے تو نذر کا ایفاء(پورا کرنا) بھی ضروری ہوتا ہے ۔شرط کے بغیر بھی نذر مانی جاتی ہے اسے بہر صورت پورا کرنا ضروری ہے رسول اللہ ﷺ کا اپنا طرق کار یہ تھا کہ مشکل کے وقت دعا اور عبادت کے ذ ریعے سے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع فرماتے تھے بعد میں ازخود سجدہ شکر کا اہتمام فرماتے ۔یہی سب سے اچھا طریقہ ہے آپﷺ نے واضح فرمایا کہ نذر کے کے ذریعے سے تقدیر نہیں بدل سکتی جبکہ اس کے بالمقابل دعا کے حوالے سے آپ نے فرمایا :لَا يَرُدُّ القَضَاءَ إِلَّا الدُّعَاءُ تقدیر کے فیصلے کو دعا ہی بدل سکتی ہے ‘‘ (جامع ترمذی،حدیث 2139) اس لیےآپ نے نذر نہ ماننے کی تلقین فرمائی اور واضح کیا کہ نذر کے ذریعے سے کسی بخیل کا مال اللہ کی راہ میں خرچ ہو جاتا ہے یا نہ کرنے والا اس طرح کوئی اچھا کام کر لیتا ہے یہی وجہ ہے کہ آپ نے نذر کو ممنوع قرار نہیں دیا بلکہ مانی ہوئی نذر کو ،اگراس میں اللہ کی نافرمانی نہ ہو پورا کرنے کا حکم دیا اگر کسی شخص نے ایسا کام کرنے کی نذر مانی جو گنا ہ ہے تو وہ نذر ساقط ہے ، گناہ کا کام ہر گز نہیں کرنا چاہیے۔یہ بھی اسلام کی رحمت ہے کہ اگر کوئی ایسی نذر مان لے جو اس کے اختیار میں نہیں مثلاً:کوئی ایسا کام کرنے کی نذر جو اس کی استطاعت سے باہر ہے کہ کوئی شخص ایسی چیز اللہ کی راہ میں دینے یا قربان کرنے کی نذر جو اس کی ملکیت میں ہی نہیں توایسی نذر اس سے ساقط ہو جاتی ہے اگر نذر ماننے والا ایسے کام کی نذر مانے جسے وہ مکمل طور پر تو پورا کرنے کی سکت نہیں رکھتا لیکن جزوی طور پر سکت موجود ہے ،اسے استطاعت کے مطابق پورا کرنا ضروری ہے ۔
اگر اس کی نذر جائز یا نیکی کے حوالے سے تھی اور اس نے اس نذر کو پورا نہیں کیا تو اس پر کیا کفارہ عائد ہو گا؟اس کے بارے میں اختلاف ہے بہت سے علماء کفارے کو جائز قرار نہیں دیتے بلکہ مستحب گردانتے ہیں وہ صحیح مسلم کی اس کتاب کی آخری حدیث میں کفارے کے حوالے سے جو حکم ہے اس استحباب پر محمول کرتے ہیں لیکن احتیاط یہی ہے کہ نذر پوری نہ کرنے کی صورت میں قسم توڑنے کا کفارہ دیا جائے۔حضرت عقبہ بن عامر ؓنے اپنی بہن کی نذر کے حوالے سے دو حدیث بیان کی (حدیث 4250)سنن ابي داود میں اسی روایت کے آخر میں :’’تُھدِیَ ھَدْيًا‘‘(اور قربانی کے جانور ساتھ لے جانے )کے الفاظ بھی ہیں (سنن ابي داود حديث 3296)حضرت عقبہ بن عامر کے علاوہ حضرت ابن عباس ؓ نے بھی رسول اللہ ﷺ سے یہی الفاظ روایت کیے ہیں اس لیے نذر ایفاء نہ کرنے یا ادھوری ایفاء کرنے کی صورت میں قسم والا کفارہ دینا ہی قرین احتیاط ہے۔امام شافعی مشروط نذر(نذر لحاج)کے معاملے میں کفارہ ضروری خیال کرتے ہیں۔اگر نذر غیر مشروط ہو اس کے عدم ایفاء پر کفارہ دینا ضروری ہے ، اس پر سب کا اتفاق ہے۔
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کی، آپﷺ نے فرمایا: ’’نذر کا کفارہ (وہی ہے جو) قسم کا کفارہ ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نذر کا کفارہ، قسم والا کفارہ ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے، نذر کا حکم قسم والا ہے، اس لیے اس کا کفارہ بھی قسم والا ہے۔ جامع الصغیر میں ہے، (النذرة يمين) نذر قسم ہے، (وكفارته كفارة اليمين) اور اس کا کفارہ قسم والا ہے۔ بعض روایات میں ہے، (كفارة النذر اذا لم يسم كفارة اليمين) نذر اگر متعین نہ ہو تو اس کا کفارہ قسم والا ہے، اس لیے اس حدیث کا مطلب یہ ہو گا کہ اگر کسی نے کہا، لِلهِ عَلَی نذر، اللہ کی مجھ پر نذر ہے، تو اس پر کفارہ یمین لازم ہو گا، اور امام نووی کے نزدیک اس سے مراد نذر لجاج ہے، جس میں تعلیق ہوتی ہے، مثلا کوئی انسان کہتا ہے، اگر میں زید سے ہم کلام ہوں تو مجھ پر اللہ کے لیے حج ہو گا، تو شوافع کے نزدیک اگر وہ زید سے گفتگو کر کے حانث ہو جاتا ہے، یعنی قسم توڑ دیتا ہے، کیونکہ یہ نذر، قسم کے ہیں، تو اب اس کو اختیار ہے نذر پوری کرتے ہوئے حج کرے یا قسم والا کفارہ ادا کرے، احناف کا بھی یہی موقف ہے، اگر نذر معصیت کی ہے، تو اس کے بارے میں ائمہ کے اقوال گزر چکے ہیں، اگر ایسی چیز کے بارے میں نذر مانی ہے، جو اس کے بس یا طاقت سے باہر ہے، تو اس پر قسم والا کفارہ ہے، لیکن اگر بیت اللہ پیدل جانے کی نذر مانی ہے، یا بیٹا ذبح کرنے کی نذر مانی ہے، تو اکثر ائمہ کے نزدیک اس پر دم لازم ہو گا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنن ابی داود میں مرفوع حدیث مروی ہے کہ جس نے غیر متعین نذر مانی، اس پر قسم والا کفارہ ہے، اور جس نے معصیت کی نذر مانی، اس پر بھی قسم والا کفارہ ہے، اور جس نے طاقت سے بڑھ کر نذر مانی، اس کا کفارہ بھی قسم والا ہے، اور سنن ابن ماجہ میں ہے، جس نے مقدرت و طاقت کے مطابق نذر مانی، وہ اسے پورا کرے۔ (تکملہ، ج 2، ص 174)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Uqba. bin Amir reported Allah's Messenger (ﷺ) as saying: The expiation of the (breach of) a vow is the same as that of the (breach of an oath).