Muslim:
The Book of Oaths
(Chapter: The prohibition of swearing by something other than Allah)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1646.
یونس نے ابن شہاب سے، انہوں نے سالم بن عبداللہ سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے آباء و اجداد کی قسم کھانے سے منع کرتا ہے۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! جب سے میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ آپﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے، میں نے نہ (اپنی طرف سے) نہ (کسی کی) پیروی کرتے ہوئے کبھی ان (آباء و اجداد کی) قسم کھائی۔ (آباء و اجداد کی قسم کے الفاظ ہی زبان سے ادا نہیں کیے۔
اَیمان یمین (دایاں ہاتھ)کی جمع ہے جب کوئی شخص دوسرے کے ساتھ معاہدہ کر کے قسم کھاتا تو دونوں اپنے دائیں ہاتھ ملاتے ،یہ معاہدہ پختہ ہو جانے کی ایک علامت تھی ایسا معاہدہ ہر صورت میں پورا کیا جاتا اس مناسبت سے قسم پر بھی جس کو پو را کرنا ضروری تھا ،یمین کے لفظ کا اطلاق ہونے لگا۔
امام مسلم نے اپنی صحیح میں فکر انگیز ترتیب سے احادیث بیان کی ہیں وصیت اور ہبہ وغیرہ کے بعد جو اپنی اپنی جگہ مضبوط لازمی (Binding)عہد ہیں ،نذر اور اس کے بعد قسموں کے حوالے سے احادیث بیان کیں نذر بھی ایک پختہ عہد ہے جو انسان اللہ کے ساتھ کرتا ہے قسم بھی اس کا نام لے کر کسی عہد یا عزم کی پختگی کے لیے ہوتی ہے اللہ کے علاوہ کسی اور کی رضا کے لیے اللہ کی طرح اس کی بھی عظمت کا اعتقاد رکھتے ہوئے اس کی قسم کھانے سے انسان مکمل شرک کا مرتکب ہو جاتا ہے اس لیے اسلام سے خارج ہو جاتا ہے اگر سابقہ عادت کی بنا پر بھول کر بھی کسی جھوٹے معبود کی قسم کھا لی تو انسان پر از سر نو کلمہ تو حید کا اقرار لازم ہے۔
کسی معاہدے کے علاوہ خود انسان اپنے اوپر قسم کے ذریعے جو بات لازم کر لیتا ہے اگر اس کے بارے میں بعد ازاں احساس ہوجائے کہ میری قسم غلط تھی یا وہ کسی دوسرے کے لیے تکلیف کا باعث ہے تو اس صورت میں قسم کی خلاف ورزی کرنا ضروری ہے اس صورت میں کفارہ ادا کرنا پڑتا ہے کچھ دوسرے معاملات بھی ،انسان خود اپنے اوپر لازم کر لیتا ہے قسم کے ساتھ ترتیب وار ذکر کیے گئے ہیں ان میں سے ایسی نذریں ہیں جو کفر کے زمانے میں مانی گئیں اگر وہ کام فی نفسہ نیکی کا ہے تو اب بھی اس کا کرنا ضروری ہے رسول اللہ ﷺ نے واضح فرمایا کہ ایمان لانے کے بعد پچھلی زندگی کے نیک اعمال پر بھی ثواب ملتا ہے اسی طرح غلامی کے حوالے سے آقا اور غلام دونوں پر کچھ لازمی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں امام مسلم نے ترتیب کا لحاظ رکھتے ہوئے ان کے بارے میں بھی احادیث بیان کی ہیں کچھ اجادیث کتاب العتق میں بیان کی گئی تھیں ، وہ یہاں دوبارہ بیان کی گئی ہیں مقصود اس بات کو واضح کرنا ہے کہ یہ لازمی ذمہ داریاں قسم ہی کی طرح پوری کرنی ضروری ہیں غلام کی ملکیت اور اس کے بارے میں انسان کے اختیار کے حوالے سے متعدد اہم امور کو بھی موضوع بنایا گیا ہے اسلام نے غلامی سے آزادی کو ہر طرح سے یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ ہر قسم کے انسانی حقوق کے تحفظ کا اہتمام کیا ہے مختلف فریقوں کے درمیان حقوق کے حوالے سے ایسا توازن قائم کرنا ایک مشکل کا م ہے اللہ اور اس کے رسول ﷺکی رہنمائی کے بغیر کسی انسان کے لیے ایسا توازن قائم رکھنا ممکن نہیں۔
یونس نے ابن شہاب سے، انہوں نے سالم بن عبداللہ سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے آباء و اجداد کی قسم کھانے سے منع کرتا ہے۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! جب سے میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ آپﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے، میں نے نہ (اپنی طرف سے) نہ (کسی کی) پیروی کرتے ہوئے کبھی ان (آباء و اجداد کی) قسم کھائی۔ (آباء و اجداد کی قسم کے الفاظ ہی زبان سے ادا نہیں کیے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ تمہیں اس بات سے روکتا ہے کہ تم اپنے آباؤ اجداد کی قسم اٹھاؤ۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، اللہ کی قسم! جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کی ممانعت سنی ہے، میں نے یہ قسم اپنی طرف سے یا بطور نقل بھی نہیں اٹھائی۔
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
(1) ايمان، يمينکی جمع ہے، جس کا معنی ہے، قوت و طاقت، اس بنا پر دائیں ہاتھ کو یمین کہتے ہیں، کیونکہ اس میں زور و قوت زیادہ ہے، اور قسم کو بھی یمین کہتے ہیں، کیونکہ عرب آپس میں قسم اٹھاتے وقت اپنا دایاں ہاتھ دوسرے کے دائیں ہاتھ پر مارتے تھے، اور یمین سے مقصود تاکید و مبالغہ ہوتا ہے۔ (2) ذاكرا: اپنی طرف سے، اثرا: دوسرے کی قسم کی نقل و حکایت کرتے ہوئے۔ صحیح اور واضح معنی یہی ہے اگرچہ امام بلقینی دو اور احتمال پیدا کرتے ہیں۔ (3) آثرا کا معنی ہے مختارا کیونکہ آثرا کا معنی ہوتا ہے اس کو پسند کرنا، تو معنی ہو گا دوسری چیز پر ترجیح دیتے ہوئے اس کو پسند کرتے ہوئے۔ آثرا کا معنی آباو اجداد کے مفاخر اور مکارم بیان کرنا، اس سے ماثرة اور ماثر ہے یعنی میں نے آباؤ اجداد کے مفاخر بیان کرتے ہوئے ان کی قسم نہیں اٹھائی۔
فوائد ومسائل
ائمہ اربعہ اور اکثر فقہاء کے نزدیک غیر اللہ کی قسم اٹھانا جائز نہیں ہے، اور بقول علامہ ابن عبدالبر، هذا اصل مجمع عليه: یہ اتفاقی قاعدہ و ضابطہ، کیونکہ شاذ قول کا اعتبار نہیں ہوتا اور بعض احادیث میں آپﷺ نے وابيهکا لفظ فرمایا ہے، تو علماء نے اس کے مختلف جوابات دئیے۔ (1) بقول علامہ ابن عبدالبر، حدیث میں یہ لفظ صحیح احادیث کے خلاف ہے، اس لیے منکر ہے لیکن یہ جواب درست نہیں۔ (2) یہ اس وقت کی بات ہے، جب ابھی غیراللہ کی قسم، یا آباؤ و اجداد کی قسم اٹھانا جائز تھا، بعد میں منسوخ ہو گیا، لیکن اس کی بھی کوئی دلیل نہیں۔ (3) عرب یہ لفظ بعض دفعہ تکیہ کلام استعمال کر لیتے تھے قسم اٹھانا مقصود نہیں ہوتا تھا، اس لیے یہ لفظ غیر شعوری طور پر زبان سے نکل جاتا تھا۔ (4) اس سے مقصود قسم نہیں ہوتا، یہ لفظ محض تقریر و تاکید کے لیے بڑھا دیتے ہیں، جس طرح محض اختصاص کے لیے، حرف نداء کا اضافہ کر دیتے ہیں، حالانکہ نداء مقصود نہیں ہوتی۔ (5) قسم تنظیم و توقیر کے لیے اٹھانا جائز نہیں ہے، تاکید و مبالغہ کے لیے قسمیہ الفاظ کا استعمال درست ہے۔ (6) وابيه یا وابيك،یہ الفاظ بعض دفعہ حیرت و تعجب کا اظہار کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں، قسم مقصود نہیں ہوتی، قسم کے لیے ان کا استعمال ممنوع ہے، بطور تعجب ممنوع نہیں ہے۔ (7) آپ کے لیے جائز تھا، امت کے لیے جائز نہیں ہے۔ (فتح الباری، ج 11، مکتبہ دارالسلام، ص 650-651)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Umar bin al-Khattab reported Allah's Messenger (ﷺ) as saying: Allah, the Great and Majestic, forbids you to swear by your fathers. Umar said: By Allah. I have never sworn (by my father) since I heard Allah's Messenger (ﷺ) forbidding it mentioning them "on my behalf" nor on behalf of someone else.