باب: جس نے لات اور عزیٰ کی قسم کھائی وہ لا الہ الاّ اللہ کہے
)
Muslim:
The Book of Oaths
(Chapter: Whoever swears by Al-Lat and Al-Uzza, let him say La Ilaha Illallah)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1647.
یونس نے ابن شہاب سے روایت کی، کہا: مجھے حمید بن عبدالرحمان بن عوف نے بتایا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے جس نے حلف اٹھایا اور اپنے حلف میں کہا: لات کی قسم! تو وہ لا اله الا الله کہے اور جس نے اپنے ساتھی سے کہا: آؤ، جوا کھیلیں تو وہ صدقہ کرے۔‘‘
تشریح:
فوائدومسائل:
یہ بھول کر یا غلطی سے کلمۂ شرک زیان سے ادا کرنے کا تدارک ہے کہ وہ لا اله الا الله کہے۔ اگر جان بوجھ کر کہا ہے تو یہ کفر ہے تجدید ایمان ضروری ہے اس کے لیے تجدید ایمان کی نیت اور شہادتین ضروری ہیں۔ اسی طرح بھول کر ہی سہی جوئے کی دعوت دینا گناہ ہے اور جوعموماً شرط کی صورت میں ہوتا ہے۔ اس کا تدارک یہ ہےکہ صدقہ کرے۔ جوا مال کی حرص کے سبب کھیلا جاتا ہے۔ صدقہ اس حرص کو دل سے زائل کرتا ہے۔
اَیمان یمین (دایاں ہاتھ)کی جمع ہے جب کوئی شخص دوسرے کے ساتھ معاہدہ کر کے قسم کھاتا تو دونوں اپنے دائیں ہاتھ ملاتے ،یہ معاہدہ پختہ ہو جانے کی ایک علامت تھی ایسا معاہدہ ہر صورت میں پورا کیا جاتا اس مناسبت سے قسم پر بھی جس کو پو را کرنا ضروری تھا ،یمین کے لفظ کا اطلاق ہونے لگا۔
امام مسلم نے اپنی صحیح میں فکر انگیز ترتیب سے احادیث بیان کی ہیں وصیت اور ہبہ وغیرہ کے بعد جو اپنی اپنی جگہ مضبوط لازمی (Binding)عہد ہیں ،نذر اور اس کے بعد قسموں کے حوالے سے احادیث بیان کیں نذر بھی ایک پختہ عہد ہے جو انسان اللہ کے ساتھ کرتا ہے قسم بھی اس کا نام لے کر کسی عہد یا عزم کی پختگی کے لیے ہوتی ہے اللہ کے علاوہ کسی اور کی رضا کے لیے اللہ کی طرح اس کی بھی عظمت کا اعتقاد رکھتے ہوئے اس کی قسم کھانے سے انسان مکمل شرک کا مرتکب ہو جاتا ہے اس لیے اسلام سے خارج ہو جاتا ہے اگر سابقہ عادت کی بنا پر بھول کر بھی کسی جھوٹے معبود کی قسم کھا لی تو انسان پر از سر نو کلمہ تو حید کا اقرار لازم ہے۔
کسی معاہدے کے علاوہ خود انسان اپنے اوپر قسم کے ذریعے جو بات لازم کر لیتا ہے اگر اس کے بارے میں بعد ازاں احساس ہوجائے کہ میری قسم غلط تھی یا وہ کسی دوسرے کے لیے تکلیف کا باعث ہے تو اس صورت میں قسم کی خلاف ورزی کرنا ضروری ہے اس صورت میں کفارہ ادا کرنا پڑتا ہے کچھ دوسرے معاملات بھی ،انسان خود اپنے اوپر لازم کر لیتا ہے قسم کے ساتھ ترتیب وار ذکر کیے گئے ہیں ان میں سے ایسی نذریں ہیں جو کفر کے زمانے میں مانی گئیں اگر وہ کام فی نفسہ نیکی کا ہے تو اب بھی اس کا کرنا ضروری ہے رسول اللہ ﷺ نے واضح فرمایا کہ ایمان لانے کے بعد پچھلی زندگی کے نیک اعمال پر بھی ثواب ملتا ہے اسی طرح غلامی کے حوالے سے آقا اور غلام دونوں پر کچھ لازمی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں امام مسلم نے ترتیب کا لحاظ رکھتے ہوئے ان کے بارے میں بھی احادیث بیان کی ہیں کچھ اجادیث کتاب العتق میں بیان کی گئی تھیں ، وہ یہاں دوبارہ بیان کی گئی ہیں مقصود اس بات کو واضح کرنا ہے کہ یہ لازمی ذمہ داریاں قسم ہی کی طرح پوری کرنی ضروری ہیں غلام کی ملکیت اور اس کے بارے میں انسان کے اختیار کے حوالے سے متعدد اہم امور کو بھی موضوع بنایا گیا ہے اسلام نے غلامی سے آزادی کو ہر طرح سے یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ ہر قسم کے انسانی حقوق کے تحفظ کا اہتمام کیا ہے مختلف فریقوں کے درمیان حقوق کے حوالے سے ایسا توازن قائم کرنا ایک مشکل کا م ہے اللہ اور اس کے رسول ﷺکی رہنمائی کے بغیر کسی انسان کے لیے ایسا توازن قائم رکھنا ممکن نہیں۔
یونس نے ابن شہاب سے روایت کی، کہا: مجھے حمید بن عبدالرحمان بن عوف نے بتایا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے جس نے حلف اٹھایا اور اپنے حلف میں کہا: لات کی قسم! تو وہ لا اله الا الله کہے اور جس نے اپنے ساتھی سے کہا: آؤ، جوا کھیلیں تو وہ صدقہ کرے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائدومسائل:
یہ بھول کر یا غلطی سے کلمۂ شرک زیان سے ادا کرنے کا تدارک ہے کہ وہ لا اله الا الله کہے۔ اگر جان بوجھ کر کہا ہے تو یہ کفر ہے تجدید ایمان ضروری ہے اس کے لیے تجدید ایمان کی نیت اور شہادتین ضروری ہیں۔ اسی طرح بھول کر ہی سہی جوئے کی دعوت دینا گناہ ہے اور جوعموماً شرط کی صورت میں ہوتا ہے۔ اس کا تدارک یہ ہےکہ صدقہ کرے۔ جوا مال کی حرص کے سبب کھیلا جاتا ہے۔ صدقہ اس حرص کو دل سے زائل کرتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے جس نے قسم اٹھائی، اور قسم لات کی اٹھائی، وہ فورا لا الہ الا اللہ کہے، اور جس نے اپنے ساتھی سے کہا، آئیے میں تم سے جوا کھلوں، وہ صدقہ کرے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
دور جاہلیت میں لوگ اپنے اپنے بتوں کی قسمیں اٹھایا کرتے تھے، اور وہ ان کی زبانوں پر چڑھ چکی تھیں، اس لیے اسلام لانے کے بعد بھی بعض دفعہ غیر شعوری طور پر ان کی زبانوں پر قسمیں جاری ہو جاتی تھیں، اس لیے جو انسان مسلمان ہو کر شعوری طور پر، عمدا بتوں کی تعظیم و توقیر کرتے ہوئے ان کی قسم اٹھائے تو، بقول ابن العربی مالکی کافر ہو گا، لیکن اگر غیر شعوری طور پر، غفلت اور بے خبری یا جہالت کی بنا پر یہ قسم اٹھائے تو پھر وہ کلمہ توحید کا اعادہ کرے اور بعض روایات کی رو سے استغفار اور تعوذ کرے گا، اور اگر دوسرے کو جوئے کی دعوت دے، لیکن کھیلے گا نہیں، تو پھر اس گناہ کا ارادہ کرنے کی بنا پر، صدقہ و خیرات کرے گا، اور یہ بہتر اور مستحسن ہے، فرض نہیں ہے، امام نووی لکھتے ہیں، ہمارے یعنی شوافع کے نزدیک، جس نے لات یا عزیٰ یا کسی اور بت کی قسم اٹھائی، یا اس نے یہ کہا، گر میں نے یہ کام کیا تو میں یہودی یا عیسائی ہوں یا میں اسلام سے یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیزار ہوں، یا اس قسم کی کوئی اور بات کہی، تو اس کی قسم منعقد نہیں ہو گی، اس پر کفارہ نہیں ہے، بلکہ اس پر توبہ و استغفار اور کلمہ توحید کا اعادہ لازم ہے، چاہے اس نے یہ کام کیا ہو یا نہ، امام شافعی، امام مالک اور جمہور فقہاء کا موقف یہی ہے، اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک ان تمام صورتوں میں کفارہ لازم ہے، الا یہ کہ وہ یہ کہے میں بدعتی ہوں یا میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بری ہوں یا یہودیت سے بیزار ہوں۔ (صحیح مسلم، ج 2، ص 46) حافظ ابن حجر نے فتح الباری (ج 11، ص 654 مکتبہ دارالسلام) میں یہی بات کہی ہے، لیکن علامہ تقی عثمانی اور علامہ سعیدی نے لکھا ہے، ہمارے نزدیک غیراللہ کی قسم منعقد نہیں ہوتی، (ہدایہ اولین ص 459، مکتبہ امدادیہ) میں بھی اس کی تصریح موجود ہے، ہاں بقول علامہ تقی، اگر یہ قسم اٹھاتا ہے، اگر میں یہ کام نہ کروں، تو میں کافر یا یہودی یا نصرانی ہوں، تو یہ احناف کے نزدیک قسم ہے، کیونکہ قسموں کا مدار عرف پر ہے، اور یہ الفاظ عرفا قسم ہیں۔ (تکملہ، ج 2، ص 183)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hurairah (RA) reported Allah's Messenger (ﷺ) as saying: He who takes an oath in the course of which he says: By Lat (and al-'Uzza), he should say: There is no god but Allah; and that if anyone says to his friend: "Come and I will gamble with you," he should pay sadaqa.