باب: ایسی قسم پر اصرار کرنا منع ہے جس میں حلف اٹھانے والے کے اہل خانہ کو تکلیف ہو ‘چاہے وہ (کام )حرام نہ ہو
)
Muslim:
The Book of Oaths
(Chapter: The prohibition of persisting in an oath that will harm the family of the one who swears it, so long as not persisting in it does not involve anything unlawful)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1655.
ہمام بن منبہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: یہ احادیث ہیں جو ہمیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے بیان کیں، پھر انہوں نے چند احادیث بیان کیں، ان میں سے یہ تھی: اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم! تم میں سے کسی کا اپنے گھر والوں کے بارے میں اپنی قسم پر اصرار کرنا اس کے لیے اللہ کے ہاں اس سے زیادہ گناہ کا باعث ہے کہ وہ اس قسم کے لیے اللہ کا مقرر کردہ کفارہ دے۔‘‘ (اور اسے توڑ کر درست کام کرے اور گھر والوں کو آرام پہنچائے)
اَیمان یمین (دایاں ہاتھ)کی جمع ہے جب کوئی شخص دوسرے کے ساتھ معاہدہ کر کے قسم کھاتا تو دونوں اپنے دائیں ہاتھ ملاتے ،یہ معاہدہ پختہ ہو جانے کی ایک علامت تھی ایسا معاہدہ ہر صورت میں پورا کیا جاتا اس مناسبت سے قسم پر بھی جس کو پو را کرنا ضروری تھا ،یمین کے لفظ کا اطلاق ہونے لگا۔
امام مسلم نے اپنی صحیح میں فکر انگیز ترتیب سے احادیث بیان کی ہیں وصیت اور ہبہ وغیرہ کے بعد جو اپنی اپنی جگہ مضبوط لازمی (Binding)عہد ہیں ،نذر اور اس کے بعد قسموں کے حوالے سے احادیث بیان کیں نذر بھی ایک پختہ عہد ہے جو انسان اللہ کے ساتھ کرتا ہے قسم بھی اس کا نام لے کر کسی عہد یا عزم کی پختگی کے لیے ہوتی ہے اللہ کے علاوہ کسی اور کی رضا کے لیے اللہ کی طرح اس کی بھی عظمت کا اعتقاد رکھتے ہوئے اس کی قسم کھانے سے انسان مکمل شرک کا مرتکب ہو جاتا ہے اس لیے اسلام سے خارج ہو جاتا ہے اگر سابقہ عادت کی بنا پر بھول کر بھی کسی جھوٹے معبود کی قسم کھا لی تو انسان پر از سر نو کلمہ تو حید کا اقرار لازم ہے۔
کسی معاہدے کے علاوہ خود انسان اپنے اوپر قسم کے ذریعے جو بات لازم کر لیتا ہے اگر اس کے بارے میں بعد ازاں احساس ہوجائے کہ میری قسم غلط تھی یا وہ کسی دوسرے کے لیے تکلیف کا باعث ہے تو اس صورت میں قسم کی خلاف ورزی کرنا ضروری ہے اس صورت میں کفارہ ادا کرنا پڑتا ہے کچھ دوسرے معاملات بھی ،انسان خود اپنے اوپر لازم کر لیتا ہے قسم کے ساتھ ترتیب وار ذکر کیے گئے ہیں ان میں سے ایسی نذریں ہیں جو کفر کے زمانے میں مانی گئیں اگر وہ کام فی نفسہ نیکی کا ہے تو اب بھی اس کا کرنا ضروری ہے رسول اللہ ﷺ نے واضح فرمایا کہ ایمان لانے کے بعد پچھلی زندگی کے نیک اعمال پر بھی ثواب ملتا ہے اسی طرح غلامی کے حوالے سے آقا اور غلام دونوں پر کچھ لازمی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں امام مسلم نے ترتیب کا لحاظ رکھتے ہوئے ان کے بارے میں بھی احادیث بیان کی ہیں کچھ اجادیث کتاب العتق میں بیان کی گئی تھیں ، وہ یہاں دوبارہ بیان کی گئی ہیں مقصود اس بات کو واضح کرنا ہے کہ یہ لازمی ذمہ داریاں قسم ہی کی طرح پوری کرنی ضروری ہیں غلام کی ملکیت اور اس کے بارے میں انسان کے اختیار کے حوالے سے متعدد اہم امور کو بھی موضوع بنایا گیا ہے اسلام نے غلامی سے آزادی کو ہر طرح سے یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ ہر قسم کے انسانی حقوق کے تحفظ کا اہتمام کیا ہے مختلف فریقوں کے درمیان حقوق کے حوالے سے ایسا توازن قائم کرنا ایک مشکل کا م ہے اللہ اور اس کے رسول ﷺکی رہنمائی کے بغیر کسی انسان کے لیے ایسا توازن قائم رکھنا ممکن نہیں۔
ہمام بن منبہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: یہ احادیث ہیں جو ہمیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے بیان کیں، پھر انہوں نے چند احادیث بیان کیں، ان میں سے یہ تھی: اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم! تم میں سے کسی کا اپنے گھر والوں کے بارے میں اپنی قسم پر اصرار کرنا اس کے لیے اللہ کے ہاں اس سے زیادہ گناہ کا باعث ہے کہ وہ اس قسم کے لیے اللہ کا مقرر کردہ کفارہ دے۔‘‘ (اور اسے توڑ کر درست کام کرے اور گھر والوں کو آرام پہنچائے)
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم! تم میں سے کسی ایک کا اپنے گھر والوں کے بارے میں قسم کھا کر اس پر جم جانا یا اصرار کرنا، اللہ کے ہاں اس کے لیے اس سے زیادہ گناہ کا سبب ہے کہ وہ اس کا وہ کفارہ ادا کرے جو اللہ نے فرض قرار دیا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
اگر ایک انسان کوئی ایسی قسم اٹھا لیتا ہے، جس پر اصرار کرنے یا اڑ جانے سے اس کے بیوی، بچوں کو اذیت و تکلیف سے دوچار ہونا پڑتا ہے، اور وہ کام کرنا معصیت یا گناہ نہیں ہے، اگر وہ تصور کر کے قسم پر اصرار کرتا ہے کہ قسم توڑنا گناہ ہے، تو یہ محض اس کا نظریہ اور خیال ہے، گناہ تو ایسی صورت میں قسم پر اڑنا ہے نہ کہ قسم توڑنا، یہاں آثم اسم تفضیل کا صیغہ اس کے تصور کے اعتبار سے لایا گیا ہے، کیونکہ وہ قسم توڑنا گناہ سمجھتا ہے، یا علي سبيل التنزل ہے کہ اگر بالفرض قسم توڑنا گناہ ہے، تو گھر والوں کو اذیت و تکلیف پہنچانا اس سے بڑھ کر گناہ ہے، اور قسم کا تو کفارہ دے کر گناہ سے بچا جا سکتا ہے، ان کی تکلیف و اذیت کو رفع کرنے کی کیا صورت ہو گی اور اسم تفضیل کو اضافہ و زیادتی سے مجرد بھی کیا جا سکتا ہے، یعنی یہ اصرار اس کے لیے گناہ کا باعث ہے، اور اہل کا لفظ عموم کے اعتبار سے ہے، وگرنہ کسی کو تکلیف و اذیت پہنچانے والی قسم پر اصرار کرنا، اس بنیاد پر کہ میں نے قسم کھا لی ہے، میں اس کو توڑ نہیں سکتا، درست نہیں ہے، اس کو قسم توڑ کر اس کا کفارہ ادا کرنا چاہیے۔قسم توڑنے کا کفارہ دس مسکینوں کو اوسط درجے کا کھانا کھلانا یا انہیں لباس پہنانا یا ایک غلام آزاد کرنا ہے، اگر ان تینوں کاموں میں سے کوئی بھی کام نہ کر سکتا ہو تو پھر تین دن کے روزے رکھنا ہے۔ (سورہ المائدہ، آیت نمبر 89)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Hammam bin Munabbih reported: This is what Abu Hurairah (RA) reported to us from Allah's Messenger (ﷺ) , and he narrated a hadith and (one) of them is that Allah's Messenger (ﷺ) said: I swear by Allah, it is more sinful in Allah's sight for one of you to persist in an oath regarding his family than payment of its expiation which Allah has imposed upon him (for breaking the oath).