باب: چوری کرنے والے معزز اور معمولی آدی ‘دونوں کا ہاتھ کاٹنا اور حدود میں سفارش کرنے کی ممانعت
)
Muslim:
The Book of Legal Punishments
(Chapter: Cutting off the hand of a thief from the nobility and others; the prohibition of interceding with regard to Hudud punishments)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1689.
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ بنو مخزوم کی ایک عورت نے چوری کی، اسے نبی ﷺ کے سامنے لایا گیا تو اس نے نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی پناہ لی تو نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اگر فاطمہ (بنت محمد ﷺ بھی) ہوتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔‘‘ چنانچہ اس عورت کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔
حدکالغوی معنی وہ آخری کنارہ ہےجہاں کوئی چیز،مثلا:گھرختم ہوجاتاہے۔ حدمنطق میں کسی چیزکی ایسی تعریف کوکہتےہیں جس کےذریعےسےوہ ممیزہوجاتی ہے،یعنی دوسری چیزیں اس سےالگ اوروہ ان سےممتاز ہوجاتی ہے۔ شرعی حدسےمرادکسی گناہ یاجرم کی اللہ کی طرف سےنازل کردہ سزاہےجس کامقصدجرم کےآگےبندباندھا، حدفاصل قائم کرناہےتاکہ وہ معاشرےمیں سرایت نہ کرسکے۔
جن جرائم میں حدکانفاذہوتاہےان میں سےمندرجہ ذیل پرسب کااتفاق ہے،ارتداد،محاربت ،زنا،قذف،چوری اورشراب نوشی۔ جن میں اختلاف ہےوہ گیارہ ہیں :ان میں سےاہم عاریتالی ہوئی چیزکاانکار،شراب کےعلاوہ اورنشہ آورچیزکی قلیل (غیرنشہ آور)مقدارکااستعمال ،عمل قوم لوط،اورجانوروں کےساتھ بدفعلی اورجادوہیں۔
مختلف حدودکاتعین جرائم کےارتکاب کےمناسبت سےمختلف اوقات میں ہوا۔ تدریج بھی ملحوظ رہی۔ زناکےحوالےسےپہلےسورہ نساءکی یہ آیت نازل ہوئی،(وَاللَّاتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ مِنْ نِسَائِكُمْ فَاسْتَشْهِدُوا عَلَيْهِنَّ أَرْبَعَةً مِنْكُمْ فَإِنْ شَهِدُوا فَأَمْسِكُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ حَتَّى يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ أَوْ يَجْعَلَ اللَّهُ لَهُنَّ سَبِيلًا)’’اورتمہاری عورتوں میں سےجوکوئی بدکاری کرےتوان پراپنےچارمردوں کی گواہی لاؤ،اگروہ گواہی دیں توان کوگھروں میں بندرکھویہاں تک کہ موت ان کی مہلت پوری کردےیااللہ تعالیٰ ان کےلیے کوئی راہ نکالے۔‘‘(النساء4/15) پھرسورہ نورکی آیت نازل ہوئی(الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ وَلَا تَأْخُذْكُمْ بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ)’’زناکرنےوالی عورت اورزناکرنےوالےمردمیں سےہرایک (جن شادی نہیں ہوئی،تخصیص رسول اللہﷺ نےفرمائی)کوسوکوڑےمارو،اگرتم اللہ اوریوم آخرت پرایمان رکھتےہوتوتمہیں اللہ کاحکم لاگوکرنےمیں نرمی یاترس نہ آن لےاوران دونوں کی سزاکامومنوں کی ایک جماعت مشاہدہ کرے۔ ‘‘النور24/2)
حضرت عبادہ بن صامت(کی حدیث4414۔4417)کےمطابق رسول اللہﷺ نےاس کی وضاحت فرمائی کہ کنوارےمردعورت کوسوسوکوڑےلگائےجائیں گےاورجلاوطن کیاجائےگاجبکہ شادی شدہ کوکوڑےلگائےجائیں گےاوررجم کیاجائےگا۔ رسول اللہﷺ نےاس حکم کےمطابق فیصلہ بھی صادرفرمایا۔(حدیث 4435)البتہ اس حدیث میں عورت کی سزاکےبارےمیں یہ وضاحت نہیں کہ اسےکوڑےمارنےکاحکم بھی دیا۔ پھرجمہورعلماءکےنقطہ نظرکےمطابق شادی شدہ کورجم سےپہلےکوڑےمارنےکاحکم ماعزبن مالک اسلمیکےواقعےمیں رسول اللہﷺ کےقول وعمل کےذریعےسےمنسوخ ہوگیااورشادی شدہ کےلیے صرف رجم کی سزاباقی رہی۔ حضرت علیرسول اللہﷺکےاسی فیصلےپرقائم رہے(بخاری:6812)امام احمد،اسحاق،داؤداورابن منذرشادی شدہ کےحوالےسےکوڑوں اوراس کےبعدرجم کی سزاکےقائل ہیں۔ جمہورکےموقف کواس بات سےبھی تقویت ملتی ہےکہ حضرت ماعزقبیلہ غامداورقبیلہ جہینہ کی عورتوں کی سزاکےحوالےسےمختلف سندوں سےروایات موجودہیں ،لیکن کسی ایک میں بھی رجم کےساتھ کوڑوں کی سزاکی طرف کوئی اشارہ موجودنہیں بلکہ سزاکےحوالےسےاس طرح کےالفاظ ہیں جن سےیہی پتہ چلتاہےکہ صرف رجم کی سزاکاحکم دیاگیاہے،مثلاماعزکےحوالےسےآپﷺنےفرمایا(اذهبوابه فارجموه )’’اسےلےجاؤاوررجم کردو۔‘‘(حدیث :4420)(فامربه فرجم)’’چنانچہ اس کےبارےمیں حکم دیاتواسےرجم کردیاگیا۔ ‘‘ ( حدیث : 4431) جہینہ والی عورت کےبارےمیں بھی حدیث کےالفاظ یہی ہیں (امربهانبى اللهﷺفشكت عليهاثيابها،ثم امربهافرجمت ،ثم صلى عليها)’’نبی ﷺنےاس کےمتعلق حکم دیاتواس کےکپڑےکس کےباندھ دیےگئے،پھراس کےبارےمیں حکم دیاتواسےرجم کردیاگیا،پھرآپ نےاس کی نمازجنازہ پڑھائی۔ (حدیث :4433)اپنےنوکرکےساتھ بدکاری کرنےوالی عورت کےبارےمیں بھی رسول اللہﷺ کےالفاظ اس طرح ہیں(اُغْدُ ، يَا أُنَيْسُ إلَى امْرَأَةِ هَذَا فَإِنِ اعْتَرَفَتْ فَارْجُمْهَا)’’انیس صبح اس کی بیوی کےپاس جانا،اگروہ اعتراف کرلےتواسےرجم کردینا۔ ‘‘حدیث :4435)
اس پوری حدیث میں رسول اللہ ﷺسےجوالفاظ منقول ہیں ان سےبہت سےمعاملات واضح ہوتےہیں ،آپﷺ نےفرمایا:(وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَأَقْضِيَنَّ بَيْنَكُمَا بِكِتَابِ اللَّهِ، المِائَةُ وَالخَادِمُ رَدٌّ عَلَيْكَ، وَعَلَى ابْنِكَ جَلْدُ مِائَةٍ وَتَغْرِيبُ عَامٍ، وَيَا أُنَيْسُ اغْدُ عَلَى امْرَأَةِ هَذَا فَسَلْهَا، فَإِنِ اعْتَرَفَتْ فَارْجُمْهَا» فَاعْتَرَفَتْ فَرَجَمَهَا )’’اس ذات کی قسم جس کےہاتھ میں میری جان ہے!میں تمہارےدرمیان اللہ کی کتاب کےمطابق فیصلہ کروں گا۔ لونڈی اوربکریاں(جواس نےخودہی سزاکےفدیےکےطورپردےدی تھیں)واپس ہوں گی اورتمہارےبیٹےپرسوکوڑےاورایک سال کی جلاوطنی ہے،انیس !کل صبح (اس دوسرےآدمی)کی عورت کی طرف جانا،اگروہ اعتراف کرلےتواسےرجم کردینا۔ ‘‘(حدیث:4435)
ان الفاظ سےواضح ہوتاہےکہ (الف)رسول اللہﷺنےاس موقع پرجوفیصلہ سنایاوہ کتاب اللہ کافیصلہ تھا۔(ب)حدودکی سزامیں فدیےکاکوئی تصورموجودنہیں۔ (ج)غیرشادی شدہ زانی مردکوسوکوڑےلگیں گےاوراس کےبعدایک سال کےلیے جلاوطن کردیاجائےگا۔ (د)زناکی مرتکب شادی شدہ عورت کورجم کیاجائےگا۔ ماعزکی حدیث سےواضح ہوتاہےکہ شادی شدہ زانی مردکوبھی رجم ہی کیاجائےگا۔
امام شافعی اورجمہورعلماءاس کےقائل ہیں کہ غیرشادی شدہ عورت کوبھی کوڑوں اورجلاوطنی کی سزادی جائےگی۔ امام مالک اوراوزاعی کامسلک یہ ہےکہ اس حدیث میں غیرشادی شدہ مردکوکوڑوں کےساتھ جلاوطنی کی سزادی گئی ہے۔ رسول اللہﷺ نےزناکی مرتکب کسی غیرشادی شدہ عورت کوجلاوطنی کی سزانہیں دی،اس لیےباکرہ عورت کونہیں دی جائےگی۔ حضرت علی سےبھی ایک قول اس کےمطابق مروی ہے۔ اس نقطہ نظرکی حکمت واضح کرتےہوئےیہ بھی کہاجاتاہےکہ عورت کی جلاوطنی اس کوتباہ کردینےکےمرادف ہے۔ امام ابوحنیفہ اورامام محمدکےنزدیک جلاوطنی سرےسےحدکاحصہ ہی نہیں، وہ حدسےالگ ایک تعزیرہے۔ امام وقت چاہےتواس پرعمل کرےاورچاہےتونہ کرے۔ (المغنی لابن قدامۃ:1/123)
زناکی حدرسول اللہﷺ نےیہودپرجاری فرمائی۔ وہ اس حدکےبجائےاپنی خودساختہ سزاپرعمل کرتےتھے۔ اس سزاکودیکھ کررسول اللہﷺ نےان سےپوچھا’’کیاتورات میں یہی سزامقررکی گئی ہے؟‘‘پہلےتوانہوں نےغلط بیانی اورسخن سازی کی ۔ بعدمیں جب یہودیہ معاملہ رسول اللہﷺ کےپاس لےکرآئےتوآپ نےحضرت عبداللہ بن سلامکی مددسےتورات میں سےآیت رجم دکھادی بلکہ ان کےعالم سےیہ اعتراف بھی کروالیاکہ ان کےہاں رائج سزاخودساختہ ہے۔ اس کےبعدآپ نےرجم پرعمل کروایا۔ اس حوالےسےبعض اہل علم کےہاں اس بات پربھی بحث ہوئی کہ آپﷺ نےتورات کی سزاپرعمل کروایاتھایاقرآن کی سزاپر؟یہ بحث غیرضروری ہے،کیونکہ آپ نےجس سزاپرعمل کروایاوہ تورات میں بھی موجودہےاوروہی قرآ ن مجیدمیں بھی موجودہے۔ آپﷺ نےتورات کاحوالہ دےکریہودکےسامنےیہ بات ثابت کی کہ اللہ کادین بنیادی طورپرایک ہے،قرآن اصل دین لےکرآیاہے،چونکہ انہوں نےتحریف کرکےاسےتبدیل کیاہےاوروہ احکام بھی جن کووہ اپنی عادت کےمطابق ابھی تک تورات سےخارج نہیں کرسکے، ان کےبجائےبھی خودساختہ احکام رائج کررکھےہیں۔ آپ کااقدام اللہ کےحکم (قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ)’’کہہ دیجیے!اےاہل کتاب !آؤایک ایسی بات کی طرف جوہمارےاورتمہارےدرمیان برابرہے،یہ کہ ہم اللہ کےسواکسی کی عبادت نہ کریں اورنہ اس کےساتھ کسی چیزکوشریک کریں اورہم میں سےکوئی کسی کواللہ کےسوارب نہ بنائے۔‘‘(آل عمٰران 3/64)
امام مسلمنےزناکی حدکےبعدشراب کی حدکےبارےمیں احادیث پیش کیں۔ احادیث کےذریعےسےیہ بھی واضح کیاکہ حدودکانفاذاگرچہ پورےمعاشرےکی صحت،سلامتی اورامن کےلیے ضروری ہے،اس کاسب سےزیادہ فائدہ اس شخص کوہےجس پرحدنافذکی جاتی ہے۔ وہ گناہوں سےپاک ہوجاتاہے۔ خوداعتراف کرکےحدکوقبول کرنےوالےکی توبہ عظیم ترین توبہ ہے۔ رسول اللہﷺ ایسےلوگوں پرحددرجہ شفقت فرماتےتھے۔ آخرمیں ان اتفاقیہ نقصانات کاتذکرہ کیاگیاہےکہ جولوگ بظاہران کاسبب کہلائےجاسکتےہیں ان پرنہ کوئی حدہے،نہ ان کےازالےکی کوئی صورت ۔وہ حادثات کی طرح ہیں اورانہی کےحکم میں آتےہیں۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ بنو مخزوم کی ایک عورت نے چوری کی، اسے نبی ﷺ کے سامنے لایا گیا تو اس نے نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی پناہ لی تو نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اگر فاطمہ (بنت محمد ﷺ بھی) ہوتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔‘‘ چنانچہ اس عورت کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ بنو مخزوم کی ایک عورت نے چوری کی تو اس کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی پناہ میں آ گئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم! بالفرض اگر فاطمہ بھی ہوتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔‘‘ تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
یہ بنو مخزوم کی ایک اور عورت ہے جس کا نام ام عمرو بنت سفیان بن عبدالاسد ہے، جو فاطمہ بنت الاسود کی چچا زاد ہے اس نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر رات کو ایک قافلہ والوں کا کپڑوں کا صندوق یا سوٹ کیس چرایا تھا، انہوں نے اس کو پکڑ کر باندھ لیا اور صبح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا، اس نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی پناہ لی، ان کی تہبند میں اپنے ہاتھ چھپا لیے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی تہبند سے اس کے ہاتھ نکالے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم! اگر فاطمہ بنت محمد بھی بالفرض یہ حرکت کر لیتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا،‘‘ پھر اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا، تفصیلی واقعہ کے لیے۔ (طبقات ابن سعد، ج 8، ص 263) جمہور کے نزدیک ہاتھ کلائی سے کاٹا جائے گا اور دایاں ہاتھ کاٹا جائے گا، اگر نہ ہو تو پھر بایاں کاٹا جائے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Jaibir reported that a woman from the tribe of Makhzum committed theft. She was brought to Allah's Apostle (ﷺ) and she sought refuge (intercession) from Umm Salamah, the wife of Allah's Apostle (ﷺ) . Thereupon Allah's Apostle (ﷺ) said: By Allah, even if she were Fatima, I would have her hand cut off. And thus her hand was cut off.