Muslim:
The Book of Legal Punishments
(Chapter: One who confesses to Zina)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1693.
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے (چار بار واپس کرنے اور اس کے اصرار کے بعد) ماعز بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا: ’’کیا وہ بات سچ ہے جو مجھے تمہارے بارے میں پہنچی ہے؟‘‘ انہوں نے کہا: میرے بارے میں آپ کو کیا بات پہنچی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ تم نے فلاں خاندان کی لونڈی سے زنا کیا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ کہا: تو انہوں نے (اپنے خلاف) چار گواہیاں دیں، پھر آپﷺ نے ان (کو رجم کرنے) کے بارے میں حکم دیا تو انہیں رجم کر دیا گیا۔
تشریح:
فوائد و مسائل:
رسول اللہ ﷺ تک یہ بات پہنچ چکی تھی لیکن آپ ﷺ نے ماعز بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کو خود نہیں بلایا۔ ندامت اور پشیمانی سے جو اس کی حالت تھی اس کی وجہ سے، دوسری روایات کے مطابق، اس کی اپنی قوم نے اسے رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہونے کا مشورہ دیا۔ مسلم کی اگلی روایت کے الفاظ بھی اس کی تائید کرتے ہیں کہ ان کی قوم کو ان کی سخت پشیمانی اور کرب کی کیفیت سے ان کی نجات کا یہی راستہ نظر آتا تھا کہ وہ اپنے گناہ کی سزا بھگت کر پاک ہو جائیں۔ بہت سے لوگ آج بھی ایسے ہوتے ہیں جو اپنے کسی بڑے گناہ پر ناقابل برداشت پشیمانی میں مبتلا ہو کر شدید کرب میں مبتلا ہو جاتے ہیں، کئی پاگل ہو جاتے ہیں، کئی خود کشی تک کا ارتکاب کر لیتے ہیں۔ اس طرح کے نتائج سے بچنے کا راستہ یہی ہوتا ہے کہ پشیمان انسان اپنے گناہ کی سزا بھگت لے۔ رسول اللہ ﷺ ماعز رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں باکل نہیں چاہتے تھے کہ وہ سزا بھگتیں، آپ ﷺ نے بار بار انھیں واپس کیا، وہ پھر سے آ جاتے تھے۔ اس مرحلے پر آپﷺ نے مزید یقین کے لیے تفصیلی سوال پوچھا کہ جو بات مجھے پہنچی ہے وہ سچ تھی۔ ماعز رضی اللہ تعالی عنہ نے صحیح جواب دینے کے لیے پورے ہوش و حواس ارو عقلمندی سے سوال کی وضاحت چاہی کہ آپﷺ کو کیا بات پہنچی ہے؟۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’کہ تم نے فلاں خاندان کی لونڈی کے ساتھ زنا کیا ہے۔‘‘ انھوں نے کہا، ہاں۔ اور اپنے اعتراف کو چار دفعہ دہرایا۔ آپﷺ نے ان کو یہاں تک سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ جس گناہ کی پشیمانی میں مبتلا ہیں وہ زنا کے عمل سے پہلے کا کوئی مرحلہ ہو گا۔ وہ نہیں مانے۔ دیگر کتب کیا روایات میں ہے کہ آپﷺ نے ان کی قوم کے ہزال نامی جس شخص کے پاس وہ رہتے تھے، اس سے کہا: لَوْسَتَرْتَهُ بِثَوْبِكَ يَا هَزَّالُ لَكَانَ خَيْراًلَّكَ ’’ہزال! اگر تم اسے اپنے کپڑے سے ہی چھپا لیتے، یعنی اس کی کیفیت قوم کے دوسرے افراد تک نہ پہنچنے دیتے اور وہ اس کو میرے پاس آنے کا مشورہ نہ دیتے تو یہ تمھارے لیے بہتر ہوتا۔‘‘ لیکن ماعز رضی اللہ تعالی عنہ سوا بھگتنے پر مصر رہے، پھر انہیں ہڈیوں، مٹی کے ڈھیلوں اور ٹھیکروں وغیرہ سے مارا جانے لگا اور انھیں احساس ہوا کہ اس طرح ان کی سزا پوری نہیں ہو گی تو وہ دوڑ کر سخت اور بڑے بڑے پتھروں والے علاقے ’’حرّے‘‘ میں چلے گئے اور ویاں جا کر ’’فَانْتَصَبَ لَنَا‘‘ مارنے والوں کے سامنے جم کر کھڑے ہو گئے اور اس وقت تک پتھر کھاتے رہے ’’حَتّٰي سَكَتَ‘‘ یہاں تک کہ بے جان ہو گئے۔ جب آپﷺ نے سنا کہ وہ جنازگاہ سے بھاگ کر ’’حرہ‘‘ پہنچے تو آپﷺ نے فرمایا: ’’هَلَّا تَرَكتُمُوه‘‘ (تم نے اسے چھوڑ کیوں نہ دیا؟) (جامع ترمذي: 1428، و سنن ابن ماجة: 2554) اگلی احادیث سے اس معاملے کے اور پہلو سامنے آئیں گے۔ حقائق سے واضح ہو جاتا ہے کہ بعض لوگوں کی طرف سے یہ دعویٰ کہ ماعز رضی اللہ تعالی عنہ فحاشی پھیلانے کے عادی تھے، اس لیے انھیں یہ سزا دی گئی، علمی دیانتداری پر مبنی نہیں۔ یہ بات رجم کی سزا کی مخالفت کے لیے جان بوجھ کر گھڑی گئی ہے اور حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش ہے، اس کے سوا کچھ نہیں۔
حدکالغوی معنی وہ آخری کنارہ ہےجہاں کوئی چیز،مثلا:گھرختم ہوجاتاہے۔ حدمنطق میں کسی چیزکی ایسی تعریف کوکہتےہیں جس کےذریعےسےوہ ممیزہوجاتی ہے،یعنی دوسری چیزیں اس سےالگ اوروہ ان سےممتاز ہوجاتی ہے۔ شرعی حدسےمرادکسی گناہ یاجرم کی اللہ کی طرف سےنازل کردہ سزاہےجس کامقصدجرم کےآگےبندباندھا، حدفاصل قائم کرناہےتاکہ وہ معاشرےمیں سرایت نہ کرسکے۔
جن جرائم میں حدکانفاذہوتاہےان میں سےمندرجہ ذیل پرسب کااتفاق ہے،ارتداد،محاربت ،زنا،قذف،چوری اورشراب نوشی۔ جن میں اختلاف ہےوہ گیارہ ہیں :ان میں سےاہم عاریتالی ہوئی چیزکاانکار،شراب کےعلاوہ اورنشہ آورچیزکی قلیل (غیرنشہ آور)مقدارکااستعمال ،عمل قوم لوط،اورجانوروں کےساتھ بدفعلی اورجادوہیں۔
مختلف حدودکاتعین جرائم کےارتکاب کےمناسبت سےمختلف اوقات میں ہوا۔ تدریج بھی ملحوظ رہی۔ زناکےحوالےسےپہلےسورہ نساءکی یہ آیت نازل ہوئی،(وَاللَّاتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ مِنْ نِسَائِكُمْ فَاسْتَشْهِدُوا عَلَيْهِنَّ أَرْبَعَةً مِنْكُمْ فَإِنْ شَهِدُوا فَأَمْسِكُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ حَتَّى يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ أَوْ يَجْعَلَ اللَّهُ لَهُنَّ سَبِيلًا)’’اورتمہاری عورتوں میں سےجوکوئی بدکاری کرےتوان پراپنےچارمردوں کی گواہی لاؤ،اگروہ گواہی دیں توان کوگھروں میں بندرکھویہاں تک کہ موت ان کی مہلت پوری کردےیااللہ تعالیٰ ان کےلیے کوئی راہ نکالے۔‘‘(النساء4/15) پھرسورہ نورکی آیت نازل ہوئی(الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ وَلَا تَأْخُذْكُمْ بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ)’’زناکرنےوالی عورت اورزناکرنےوالےمردمیں سےہرایک (جن شادی نہیں ہوئی،تخصیص رسول اللہﷺ نےفرمائی)کوسوکوڑےمارو،اگرتم اللہ اوریوم آخرت پرایمان رکھتےہوتوتمہیں اللہ کاحکم لاگوکرنےمیں نرمی یاترس نہ آن لےاوران دونوں کی سزاکامومنوں کی ایک جماعت مشاہدہ کرے۔ ‘‘النور24/2)
حضرت عبادہ بن صامت(کی حدیث4414۔4417)کےمطابق رسول اللہﷺ نےاس کی وضاحت فرمائی کہ کنوارےمردعورت کوسوسوکوڑےلگائےجائیں گےاورجلاوطن کیاجائےگاجبکہ شادی شدہ کوکوڑےلگائےجائیں گےاوررجم کیاجائےگا۔ رسول اللہﷺ نےاس حکم کےمطابق فیصلہ بھی صادرفرمایا۔(حدیث 4435)البتہ اس حدیث میں عورت کی سزاکےبارےمیں یہ وضاحت نہیں کہ اسےکوڑےمارنےکاحکم بھی دیا۔ پھرجمہورعلماءکےنقطہ نظرکےمطابق شادی شدہ کورجم سےپہلےکوڑےمارنےکاحکم ماعزبن مالک اسلمیکےواقعےمیں رسول اللہﷺ کےقول وعمل کےذریعےسےمنسوخ ہوگیااورشادی شدہ کےلیے صرف رجم کی سزاباقی رہی۔ حضرت علیرسول اللہﷺکےاسی فیصلےپرقائم رہے(بخاری:6812)امام احمد،اسحاق،داؤداورابن منذرشادی شدہ کےحوالےسےکوڑوں اوراس کےبعدرجم کی سزاکےقائل ہیں۔ جمہورکےموقف کواس بات سےبھی تقویت ملتی ہےکہ حضرت ماعزقبیلہ غامداورقبیلہ جہینہ کی عورتوں کی سزاکےحوالےسےمختلف سندوں سےروایات موجودہیں ،لیکن کسی ایک میں بھی رجم کےساتھ کوڑوں کی سزاکی طرف کوئی اشارہ موجودنہیں بلکہ سزاکےحوالےسےاس طرح کےالفاظ ہیں جن سےیہی پتہ چلتاہےکہ صرف رجم کی سزاکاحکم دیاگیاہے،مثلاماعزکےحوالےسےآپﷺنےفرمایا(اذهبوابه فارجموه )’’اسےلےجاؤاوررجم کردو۔‘‘(حدیث :4420)(فامربه فرجم)’’چنانچہ اس کےبارےمیں حکم دیاتواسےرجم کردیاگیا۔ ‘‘ ( حدیث : 4431) جہینہ والی عورت کےبارےمیں بھی حدیث کےالفاظ یہی ہیں (امربهانبى اللهﷺفشكت عليهاثيابها،ثم امربهافرجمت ،ثم صلى عليها)’’نبی ﷺنےاس کےمتعلق حکم دیاتواس کےکپڑےکس کےباندھ دیےگئے،پھراس کےبارےمیں حکم دیاتواسےرجم کردیاگیا،پھرآپ نےاس کی نمازجنازہ پڑھائی۔ (حدیث :4433)اپنےنوکرکےساتھ بدکاری کرنےوالی عورت کےبارےمیں بھی رسول اللہﷺ کےالفاظ اس طرح ہیں(اُغْدُ ، يَا أُنَيْسُ إلَى امْرَأَةِ هَذَا فَإِنِ اعْتَرَفَتْ فَارْجُمْهَا)’’انیس صبح اس کی بیوی کےپاس جانا،اگروہ اعتراف کرلےتواسےرجم کردینا۔ ‘‘حدیث :4435)
اس پوری حدیث میں رسول اللہ ﷺسےجوالفاظ منقول ہیں ان سےبہت سےمعاملات واضح ہوتےہیں ،آپﷺ نےفرمایا:(وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَأَقْضِيَنَّ بَيْنَكُمَا بِكِتَابِ اللَّهِ، المِائَةُ وَالخَادِمُ رَدٌّ عَلَيْكَ، وَعَلَى ابْنِكَ جَلْدُ مِائَةٍ وَتَغْرِيبُ عَامٍ، وَيَا أُنَيْسُ اغْدُ عَلَى امْرَأَةِ هَذَا فَسَلْهَا، فَإِنِ اعْتَرَفَتْ فَارْجُمْهَا» فَاعْتَرَفَتْ فَرَجَمَهَا )’’اس ذات کی قسم جس کےہاتھ میں میری جان ہے!میں تمہارےدرمیان اللہ کی کتاب کےمطابق فیصلہ کروں گا۔ لونڈی اوربکریاں(جواس نےخودہی سزاکےفدیےکےطورپردےدی تھیں)واپس ہوں گی اورتمہارےبیٹےپرسوکوڑےاورایک سال کی جلاوطنی ہے،انیس !کل صبح (اس دوسرےآدمی)کی عورت کی طرف جانا،اگروہ اعتراف کرلےتواسےرجم کردینا۔ ‘‘(حدیث:4435)
ان الفاظ سےواضح ہوتاہےکہ (الف)رسول اللہﷺنےاس موقع پرجوفیصلہ سنایاوہ کتاب اللہ کافیصلہ تھا۔(ب)حدودکی سزامیں فدیےکاکوئی تصورموجودنہیں۔ (ج)غیرشادی شدہ زانی مردکوسوکوڑےلگیں گےاوراس کےبعدایک سال کےلیے جلاوطن کردیاجائےگا۔ (د)زناکی مرتکب شادی شدہ عورت کورجم کیاجائےگا۔ ماعزکی حدیث سےواضح ہوتاہےکہ شادی شدہ زانی مردکوبھی رجم ہی کیاجائےگا۔
امام شافعی اورجمہورعلماءاس کےقائل ہیں کہ غیرشادی شدہ عورت کوبھی کوڑوں اورجلاوطنی کی سزادی جائےگی۔ امام مالک اوراوزاعی کامسلک یہ ہےکہ اس حدیث میں غیرشادی شدہ مردکوکوڑوں کےساتھ جلاوطنی کی سزادی گئی ہے۔ رسول اللہﷺ نےزناکی مرتکب کسی غیرشادی شدہ عورت کوجلاوطنی کی سزانہیں دی،اس لیےباکرہ عورت کونہیں دی جائےگی۔ حضرت علی سےبھی ایک قول اس کےمطابق مروی ہے۔ اس نقطہ نظرکی حکمت واضح کرتےہوئےیہ بھی کہاجاتاہےکہ عورت کی جلاوطنی اس کوتباہ کردینےکےمرادف ہے۔ امام ابوحنیفہ اورامام محمدکےنزدیک جلاوطنی سرےسےحدکاحصہ ہی نہیں، وہ حدسےالگ ایک تعزیرہے۔ امام وقت چاہےتواس پرعمل کرےاورچاہےتونہ کرے۔ (المغنی لابن قدامۃ:1/123)
زناکی حدرسول اللہﷺ نےیہودپرجاری فرمائی۔ وہ اس حدکےبجائےاپنی خودساختہ سزاپرعمل کرتےتھے۔ اس سزاکودیکھ کررسول اللہﷺ نےان سےپوچھا’’کیاتورات میں یہی سزامقررکی گئی ہے؟‘‘پہلےتوانہوں نےغلط بیانی اورسخن سازی کی ۔ بعدمیں جب یہودیہ معاملہ رسول اللہﷺ کےپاس لےکرآئےتوآپ نےحضرت عبداللہ بن سلامکی مددسےتورات میں سےآیت رجم دکھادی بلکہ ان کےعالم سےیہ اعتراف بھی کروالیاکہ ان کےہاں رائج سزاخودساختہ ہے۔ اس کےبعدآپ نےرجم پرعمل کروایا۔ اس حوالےسےبعض اہل علم کےہاں اس بات پربھی بحث ہوئی کہ آپﷺ نےتورات کی سزاپرعمل کروایاتھایاقرآن کی سزاپر؟یہ بحث غیرضروری ہے،کیونکہ آپ نےجس سزاپرعمل کروایاوہ تورات میں بھی موجودہےاوروہی قرآ ن مجیدمیں بھی موجودہے۔ آپﷺ نےتورات کاحوالہ دےکریہودکےسامنےیہ بات ثابت کی کہ اللہ کادین بنیادی طورپرایک ہے،قرآن اصل دین لےکرآیاہے،چونکہ انہوں نےتحریف کرکےاسےتبدیل کیاہےاوروہ احکام بھی جن کووہ اپنی عادت کےمطابق ابھی تک تورات سےخارج نہیں کرسکے، ان کےبجائےبھی خودساختہ احکام رائج کررکھےہیں۔ آپ کااقدام اللہ کےحکم (قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ)’’کہہ دیجیے!اےاہل کتاب !آؤایک ایسی بات کی طرف جوہمارےاورتمہارےدرمیان برابرہے،یہ کہ ہم اللہ کےسواکسی کی عبادت نہ کریں اورنہ اس کےساتھ کسی چیزکوشریک کریں اورہم میں سےکوئی کسی کواللہ کےسوارب نہ بنائے۔‘‘(آل عمٰران 3/64)
امام مسلمنےزناکی حدکےبعدشراب کی حدکےبارےمیں احادیث پیش کیں۔ احادیث کےذریعےسےیہ بھی واضح کیاکہ حدودکانفاذاگرچہ پورےمعاشرےکی صحت،سلامتی اورامن کےلیے ضروری ہے،اس کاسب سےزیادہ فائدہ اس شخص کوہےجس پرحدنافذکی جاتی ہے۔ وہ گناہوں سےپاک ہوجاتاہے۔ خوداعتراف کرکےحدکوقبول کرنےوالےکی توبہ عظیم ترین توبہ ہے۔ رسول اللہﷺ ایسےلوگوں پرحددرجہ شفقت فرماتےتھے۔ آخرمیں ان اتفاقیہ نقصانات کاتذکرہ کیاگیاہےکہ جولوگ بظاہران کاسبب کہلائےجاسکتےہیں ان پرنہ کوئی حدہے،نہ ان کےازالےکی کوئی صورت ۔وہ حادثات کی طرح ہیں اورانہی کےحکم میں آتےہیں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے (چار بار واپس کرنے اور اس کے اصرار کے بعد) ماعز بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا: ’’کیا وہ بات سچ ہے جو مجھے تمہارے بارے میں پہنچی ہے؟‘‘ انہوں نے کہا: میرے بارے میں آپ کو کیا بات پہنچی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ تم نے فلاں خاندان کی لونڈی سے زنا کیا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ کہا: تو انہوں نے (اپنے خلاف) چار گواہیاں دیں، پھر آپﷺ نے ان (کو رجم کرنے) کے بارے میں حکم دیا تو انہیں رجم کر دیا گیا۔
حدیث حاشیہ:
فوائد و مسائل:
رسول اللہ ﷺ تک یہ بات پہنچ چکی تھی لیکن آپ ﷺ نے ماعز بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کو خود نہیں بلایا۔ ندامت اور پشیمانی سے جو اس کی حالت تھی اس کی وجہ سے، دوسری روایات کے مطابق، اس کی اپنی قوم نے اسے رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہونے کا مشورہ دیا۔ مسلم کی اگلی روایت کے الفاظ بھی اس کی تائید کرتے ہیں کہ ان کی قوم کو ان کی سخت پشیمانی اور کرب کی کیفیت سے ان کی نجات کا یہی راستہ نظر آتا تھا کہ وہ اپنے گناہ کی سزا بھگت کر پاک ہو جائیں۔ بہت سے لوگ آج بھی ایسے ہوتے ہیں جو اپنے کسی بڑے گناہ پر ناقابل برداشت پشیمانی میں مبتلا ہو کر شدید کرب میں مبتلا ہو جاتے ہیں، کئی پاگل ہو جاتے ہیں، کئی خود کشی تک کا ارتکاب کر لیتے ہیں۔ اس طرح کے نتائج سے بچنے کا راستہ یہی ہوتا ہے کہ پشیمان انسان اپنے گناہ کی سزا بھگت لے۔ رسول اللہ ﷺ ماعز رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں باکل نہیں چاہتے تھے کہ وہ سزا بھگتیں، آپ ﷺ نے بار بار انھیں واپس کیا، وہ پھر سے آ جاتے تھے۔ اس مرحلے پر آپﷺ نے مزید یقین کے لیے تفصیلی سوال پوچھا کہ جو بات مجھے پہنچی ہے وہ سچ تھی۔ ماعز رضی اللہ تعالی عنہ نے صحیح جواب دینے کے لیے پورے ہوش و حواس ارو عقلمندی سے سوال کی وضاحت چاہی کہ آپﷺ کو کیا بات پہنچی ہے؟۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’کہ تم نے فلاں خاندان کی لونڈی کے ساتھ زنا کیا ہے۔‘‘ انھوں نے کہا، ہاں۔ اور اپنے اعتراف کو چار دفعہ دہرایا۔ آپﷺ نے ان کو یہاں تک سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ جس گناہ کی پشیمانی میں مبتلا ہیں وہ زنا کے عمل سے پہلے کا کوئی مرحلہ ہو گا۔ وہ نہیں مانے۔ دیگر کتب کیا روایات میں ہے کہ آپﷺ نے ان کی قوم کے ہزال نامی جس شخص کے پاس وہ رہتے تھے، اس سے کہا: لَوْسَتَرْتَهُ بِثَوْبِكَ يَا هَزَّالُ لَكَانَ خَيْراًلَّكَ ’’ہزال! اگر تم اسے اپنے کپڑے سے ہی چھپا لیتے، یعنی اس کی کیفیت قوم کے دوسرے افراد تک نہ پہنچنے دیتے اور وہ اس کو میرے پاس آنے کا مشورہ نہ دیتے تو یہ تمھارے لیے بہتر ہوتا۔‘‘ لیکن ماعز رضی اللہ تعالی عنہ سوا بھگتنے پر مصر رہے، پھر انہیں ہڈیوں، مٹی کے ڈھیلوں اور ٹھیکروں وغیرہ سے مارا جانے لگا اور انھیں احساس ہوا کہ اس طرح ان کی سزا پوری نہیں ہو گی تو وہ دوڑ کر سخت اور بڑے بڑے پتھروں والے علاقے ’’حرّے‘‘ میں چلے گئے اور ویاں جا کر ’’فَانْتَصَبَ لَنَا‘‘ مارنے والوں کے سامنے جم کر کھڑے ہو گئے اور اس وقت تک پتھر کھاتے رہے ’’حَتّٰي سَكَتَ‘‘ یہاں تک کہ بے جان ہو گئے۔ جب آپﷺ نے سنا کہ وہ جنازگاہ سے بھاگ کر ’’حرہ‘‘ پہنچے تو آپﷺ نے فرمایا: ’’هَلَّا تَرَكتُمُوه‘‘ (تم نے اسے چھوڑ کیوں نہ دیا؟) (جامع ترمذي: 1428، و سنن ابن ماجة: 2554) اگلی احادیث سے اس معاملے کے اور پہلو سامنے آئیں گے۔ حقائق سے واضح ہو جاتا ہے کہ بعض لوگوں کی طرف سے یہ دعویٰ کہ ماعز رضی اللہ تعالی عنہ فحاشی پھیلانے کے عادی تھے، اس لیے انھیں یہ سزا دی گئی، علمی دیانتداری پر مبنی نہیں۔ یہ بات رجم کی سزا کی مخالفت کے لیے جان بوجھ کر گھڑی گئی ہے اور حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش ہے، اس کے سوا کچھ نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ماعز بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا: ’’کیا تیرے بارے میں مجھ تک جو کچھ پہنچا ہے، ٹھیک ہے، (حقیقت ہے)۔‘‘ اس نے عرض کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو میرے بارے میں کیا خبر ملی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے خبر ملی ہے کہ تو نے فلاں خاندان کی لونڈی سے زنا کیا ہے؟‘‘ اس نے کہا، جی ہاں، اس نے چار مرتبہ اس کی شہادت دی، پھر آپﷺ نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
یہ بات ہم اوپر بتا چکے ہیں کہ ان کو لانے والے حضرت ہذال رضی اللہ عنہ تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا بھی تھا، تمہارا اس پر پردہ پوشی کرنا بہتر تھا اور ان کے ساتھ آنے والے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پورے واقعہ سے آگاہ کر چکے تھے، اس لیے آپﷺ نے حضرت ماعز سے پوچھا اور ان کو اس اعتراف سے منحرف ہونے کی راہ بھی سمجھانے کی کوشش کی، لیکن وہ حضرت ہذال رضی اللہ عنہ کے پکا کرنے کے سبب اپنی بات پر قائم رہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Ibn Abbas (RA) reported that Allah's Apostle (ﷺ) said to Ma'iz bin Malik: Is it true what has reached me about you? He said: What has reached you about me? He said: It has reached me that you have committed (adultery) with the slave-girl of so and so? He said: Yes. He (the narrator) said: He testified four times. He (the Holy Prophet) then made pronouncement about him and he was stoned (to death).