حدکالغوی معنی وہ آخری کنارہ ہےجہاں کوئی چیز،مثلا:گھرختم ہوجاتاہے۔ حدمنطق میں کسی چیزکی ایسی تعریف کوکہتےہیں جس کےذریعےسےوہ ممیزہوجاتی ہے،یعنی دوسری چیزیں اس سےالگ اوروہ ان سےممتاز ہوجاتی ہے۔ شرعی حدسےمرادکسی گناہ یاجرم کی اللہ کی طرف سےنازل کردہ سزاہےجس کامقصدجرم کےآگےبندباندھا، حدفاصل قائم کرناہےتاکہ وہ معاشرےمیں سرایت نہ کرسکے۔
جن جرائم میں حدکانفاذہوتاہےان میں سےمندرجہ ذیل پرسب کااتفاق ہے،ارتداد،محاربت ،زنا،قذف،چوری اورشراب نوشی۔ جن میں اختلاف ہےوہ گیارہ ہیں :ان میں سےاہم عاریتالی ہوئی چیزکاانکار،شراب کےعلاوہ اورنشہ آورچیزکی قلیل (غیرنشہ آور)مقدارکااستعمال ،عمل قوم لوط،اورجانوروں کےساتھ بدفعلی اورجادوہیں۔
مختلف حدودکاتعین جرائم کےارتکاب کےمناسبت سےمختلف اوقات میں ہوا۔ تدریج بھی ملحوظ رہی۔ زناکےحوالےسےپہلےسورہ نساءکی یہ آیت نازل ہوئی،(وَاللَّاتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ مِنْ نِسَائِكُمْ فَاسْتَشْهِدُوا عَلَيْهِنَّ أَرْبَعَةً مِنْكُمْ فَإِنْ شَهِدُوا فَأَمْسِكُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ حَتَّى يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ أَوْ يَجْعَلَ اللَّهُ لَهُنَّ سَبِيلًا)’’اورتمہاری عورتوں میں سےجوکوئی بدکاری کرےتوان پراپنےچارمردوں کی گواہی لاؤ،اگروہ گواہی دیں توان کوگھروں میں بندرکھویہاں تک کہ موت ان کی مہلت پوری کردےیااللہ تعالیٰ ان کےلیے کوئی راہ نکالے۔‘‘(النساء4/15) پھرسورہ نورکی آیت نازل ہوئی(الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ وَلَا تَأْخُذْكُمْ بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ)’’زناکرنےوالی عورت اورزناکرنےوالےمردمیں سےہرایک (جن شادی نہیں ہوئی،تخصیص رسول اللہﷺ نےفرمائی)کوسوکوڑےمارو،اگرتم اللہ اوریوم آخرت پرایمان رکھتےہوتوتمہیں اللہ کاحکم لاگوکرنےمیں نرمی یاترس نہ آن لےاوران دونوں کی سزاکامومنوں کی ایک جماعت مشاہدہ کرے۔ ‘‘النور24/2)
حضرت عبادہ بن صامت(کی حدیث4414۔4417)کےمطابق رسول اللہﷺ نےاس کی وضاحت فرمائی کہ کنوارےمردعورت کوسوسوکوڑےلگائےجائیں گےاورجلاوطن کیاجائےگاجبکہ شادی شدہ کوکوڑےلگائےجائیں گےاوررجم کیاجائےگا۔ رسول اللہﷺ نےاس حکم کےمطابق فیصلہ بھی صادرفرمایا۔(حدیث 4435)البتہ اس حدیث میں عورت کی سزاکےبارےمیں یہ وضاحت نہیں کہ اسےکوڑےمارنےکاحکم بھی دیا۔ پھرجمہورعلماءکےنقطہ نظرکےمطابق شادی شدہ کورجم سےپہلےکوڑےمارنےکاحکم ماعزبن مالک اسلمیکےواقعےمیں رسول اللہﷺ کےقول وعمل کےذریعےسےمنسوخ ہوگیااورشادی شدہ کےلیے صرف رجم کی سزاباقی رہی۔ حضرت علیرسول اللہﷺکےاسی فیصلےپرقائم رہے(بخاری:6812)امام احمد،اسحاق،داؤداورابن منذرشادی شدہ کےحوالےسےکوڑوں اوراس کےبعدرجم کی سزاکےقائل ہیں۔ جمہورکےموقف کواس بات سےبھی تقویت ملتی ہےکہ حضرت ماعزقبیلہ غامداورقبیلہ جہینہ کی عورتوں کی سزاکےحوالےسےمختلف سندوں سےروایات موجودہیں ،لیکن کسی ایک میں بھی رجم کےساتھ کوڑوں کی سزاکی طرف کوئی اشارہ موجودنہیں بلکہ سزاکےحوالےسےاس طرح کےالفاظ ہیں جن سےیہی پتہ چلتاہےکہ صرف رجم کی سزاکاحکم دیاگیاہے،مثلاماعزکےحوالےسےآپﷺنےفرمایا(اذهبوابه فارجموه )’’اسےلےجاؤاوررجم کردو۔‘‘(حدیث :4420)(فامربه فرجم)’’چنانچہ اس کےبارےمیں حکم دیاتواسےرجم کردیاگیا۔ ‘‘ ( حدیث : 4431) جہینہ والی عورت کےبارےمیں بھی حدیث کےالفاظ یہی ہیں (امربهانبى اللهﷺفشكت عليهاثيابها،ثم امربهافرجمت ،ثم صلى عليها)’’نبی ﷺنےاس کےمتعلق حکم دیاتواس کےکپڑےکس کےباندھ دیےگئے،پھراس کےبارےمیں حکم دیاتواسےرجم کردیاگیا،پھرآپ نےاس کی نمازجنازہ پڑھائی۔ (حدیث :4433)اپنےنوکرکےساتھ بدکاری کرنےوالی عورت کےبارےمیں بھی رسول اللہﷺ کےالفاظ اس طرح ہیں(اُغْدُ ، يَا أُنَيْسُ إلَى امْرَأَةِ هَذَا فَإِنِ اعْتَرَفَتْ فَارْجُمْهَا)’’انیس صبح اس کی بیوی کےپاس جانا،اگروہ اعتراف کرلےتواسےرجم کردینا۔ ‘‘حدیث :4435)
اس پوری حدیث میں رسول اللہ ﷺسےجوالفاظ منقول ہیں ان سےبہت سےمعاملات واضح ہوتےہیں ،آپﷺ نےفرمایا:(وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَأَقْضِيَنَّ بَيْنَكُمَا بِكِتَابِ اللَّهِ، المِائَةُ وَالخَادِمُ رَدٌّ عَلَيْكَ، وَعَلَى ابْنِكَ جَلْدُ مِائَةٍ وَتَغْرِيبُ عَامٍ، وَيَا أُنَيْسُ اغْدُ عَلَى امْرَأَةِ هَذَا فَسَلْهَا، فَإِنِ اعْتَرَفَتْ فَارْجُمْهَا» فَاعْتَرَفَتْ فَرَجَمَهَا )’’اس ذات کی قسم جس کےہاتھ میں میری جان ہے!میں تمہارےدرمیان اللہ کی کتاب کےمطابق فیصلہ کروں گا۔ لونڈی اوربکریاں(جواس نےخودہی سزاکےفدیےکےطورپردےدی تھیں)واپس ہوں گی اورتمہارےبیٹےپرسوکوڑےاورایک سال کی جلاوطنی ہے،انیس !کل صبح (اس دوسرےآدمی)کی عورت کی طرف جانا،اگروہ اعتراف کرلےتواسےرجم کردینا۔ ‘‘(حدیث:4435)
ان الفاظ سےواضح ہوتاہےکہ (الف)رسول اللہﷺنےاس موقع پرجوفیصلہ سنایاوہ کتاب اللہ کافیصلہ تھا۔(ب)حدودکی سزامیں فدیےکاکوئی تصورموجودنہیں۔ (ج)غیرشادی شدہ زانی مردکوسوکوڑےلگیں گےاوراس کےبعدایک سال کےلیے جلاوطن کردیاجائےگا۔ (د)زناکی مرتکب شادی شدہ عورت کورجم کیاجائےگا۔ ماعزکی حدیث سےواضح ہوتاہےکہ شادی شدہ زانی مردکوبھی رجم ہی کیاجائےگا۔
امام شافعی اورجمہورعلماءاس کےقائل ہیں کہ غیرشادی شدہ عورت کوبھی کوڑوں اورجلاوطنی کی سزادی جائےگی۔ امام مالک اوراوزاعی کامسلک یہ ہےکہ اس حدیث میں غیرشادی شدہ مردکوکوڑوں کےساتھ جلاوطنی کی سزادی گئی ہے۔ رسول اللہﷺ نےزناکی مرتکب کسی غیرشادی شدہ عورت کوجلاوطنی کی سزانہیں دی،اس لیےباکرہ عورت کونہیں دی جائےگی۔ حضرت علی سےبھی ایک قول اس کےمطابق مروی ہے۔ اس نقطہ نظرکی حکمت واضح کرتےہوئےیہ بھی کہاجاتاہےکہ عورت کی جلاوطنی اس کوتباہ کردینےکےمرادف ہے۔ امام ابوحنیفہ اورامام محمدکےنزدیک جلاوطنی سرےسےحدکاحصہ ہی نہیں، وہ حدسےالگ ایک تعزیرہے۔ امام وقت چاہےتواس پرعمل کرےاورچاہےتونہ کرے۔ (المغنی لابن قدامۃ:1/123)
زناکی حدرسول اللہﷺ نےیہودپرجاری فرمائی۔ وہ اس حدکےبجائےاپنی خودساختہ سزاپرعمل کرتےتھے۔ اس سزاکودیکھ کررسول اللہﷺ نےان سےپوچھا’’کیاتورات میں یہی سزامقررکی گئی ہے؟‘‘پہلےتوانہوں نےغلط بیانی اورسخن سازی کی ۔ بعدمیں جب یہودیہ معاملہ رسول اللہﷺ کےپاس لےکرآئےتوآپ نےحضرت عبداللہ بن سلامکی مددسےتورات میں سےآیت رجم دکھادی بلکہ ان کےعالم سےیہ اعتراف بھی کروالیاکہ ان کےہاں رائج سزاخودساختہ ہے۔ اس کےبعدآپ نےرجم پرعمل کروایا۔ اس حوالےسےبعض اہل علم کےہاں اس بات پربھی بحث ہوئی کہ آپﷺ نےتورات کی سزاپرعمل کروایاتھایاقرآن کی سزاپر؟یہ بحث غیرضروری ہے،کیونکہ آپ نےجس سزاپرعمل کروایاوہ تورات میں بھی موجودہےاوروہی قرآ ن مجیدمیں بھی موجودہے۔ آپﷺ نےتورات کاحوالہ دےکریہودکےسامنےیہ بات ثابت کی کہ اللہ کادین بنیادی طورپرایک ہے،قرآن اصل دین لےکرآیاہے،چونکہ انہوں نےتحریف کرکےاسےتبدیل کیاہےاوروہ احکام بھی جن کووہ اپنی عادت کےمطابق ابھی تک تورات سےخارج نہیں کرسکے، ان کےبجائےبھی خودساختہ احکام رائج کررکھےہیں۔ آپ کااقدام اللہ کےحکم (قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ)’’کہہ دیجیے!اےاہل کتاب !آؤایک ایسی بات کی طرف جوہمارےاورتمہارےدرمیان برابرہے،یہ کہ ہم اللہ کےسواکسی کی عبادت نہ کریں اورنہ اس کےساتھ کسی چیزکوشریک کریں اورہم میں سےکوئی کسی کواللہ کےسوارب نہ بنائے۔‘‘(آل عمٰران 3/64)
امام مسلمنےزناکی حدکےبعدشراب کی حدکےبارےمیں احادیث پیش کیں۔ احادیث کےذریعےسےیہ بھی واضح کیاکہ حدودکانفاذاگرچہ پورےمعاشرےکی صحت،سلامتی اورامن کےلیے ضروری ہے،اس کاسب سےزیادہ فائدہ اس شخص کوہےجس پرحدنافذکی جاتی ہے۔ وہ گناہوں سےپاک ہوجاتاہے۔ خوداعتراف کرکےحدکوقبول کرنےوالےکی توبہ عظیم ترین توبہ ہے۔ رسول اللہﷺ ایسےلوگوں پرحددرجہ شفقت فرماتےتھے۔ آخرمیں ان اتفاقیہ نقصانات کاتذکرہ کیاگیاہےکہ جولوگ بظاہران کاسبب کہلائےجاسکتےہیں ان پرنہ کوئی حدہے،نہ ان کےازالےکی کوئی صورت ۔وہ حادثات کی طرح ہیں اورانہی کےحکم میں آتےہیں۔
یونس، صالح اور معمر سب نے زہری سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح حدیث بیان کی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
یہی روایت امام صاحب اپنے چار اساتذہ کی تین سندوں سے زہری ہی کی مذکورہ بالا سند سے بیان کرتے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
(1) هُوَ أَفقَهُ مَنه: بدوی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ کا واسطہ دے کر اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ کرنے کا سوال کیا تھا، حالانکہ آپ اللہ کی کتاب ہی کے مطابق فیصلہ فرماتے تھے، اس لیے اللہ کا واسطہ دینا خلاف ادب و تکریم تھا، لیکن فریق ثانی ادب و احترام سے بات کرنے کی اجازت طلب کی اور پھر پورا واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا کہ میرا بیٹا اس کا نوکر تھا، اس کے گھر کام کاج کرتا تھا، اس لیے اس کی بیوی کے ساتھ ربط و تعلق کا موقعہ ملا، جس کا یہ نتیجہ نکلا، لیکن آج کل غیر محرموں سے خلط ملط رکھنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کیا جاتا ہے، جس کا نتیجہ عیاشی و فحاشی، گھر سے بھاگنے یا اغوا کر لینے کی صورت میں نکل رہا ہے، لیکن اس کے باوجود مسلمان عقل کے ناخن نہیں لے رہے۔ (2) کم علم یا عام لوگوں نے بچے کے والد کو غلط بات بتائی کہ تیرے بچے کو رجم کیا جائے گا اور تم عورت کے خاوند کے ساتھ معاملہ طے کر سکتے ہو، اس لیے اس نے خاوند کو ایک لونڈی اور سو بکری دے کر صلح کر لی، جس سے معلوم ہوا دینی مسائل کم علم یا عوام سے نہیں پوچھنے چاہئیں، مسائل بتانا اہل علم کا کام ہے، لیکن آج اس کی پابندی بھی نہیں کی جاتی، جو اردو تراجم دیکھ لیتا ہے، وہ فقہیہ اور مجتہد بن بیٹھتا ہے، جس کے نتیجہ میں امت میں انتشار و افتراق بڑھ رہا ہے اور نئے نئے فتاویٰ جاری ہو رہے ہیں، اہل علم چونکہ مسئلہ کی تمام جزئیات اور دلائل سے واقف ہوتے ہیں، اس لیے صحیح جواب دیتے ہیں، اس لیے جب اس نے اہل علم سے پوچھا تو انہوں نے صحیح صورت حال سے آگاہ کیا اور اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے، شادی شدہ کو رجم کرنا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اہل علم کے ہاں معروف و مشہور تھا اور آپ کے دور میں بھی اہل علم صحابہ مسائل کے جوابات دیتے تھے۔ (3) لا قضين بينكما بكتاب الله: کہ میں قطعی طور پر اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ کروں گا، سے ثابت ہوتا ہے، سنت ثابتہ یعنی صحیح حدیث کا حکم کتاب اللہ کا حکم ہے اور اس پر عمل کرنا اسی طرح ضروری ہے، جس طرح قرآن پر عمل کرنا لازم ہے، کیونکہ شادی شدہ کو رجم کرنا اور غیر شادی شدہ کو کوڑوں کے ساتھ سال بھر کے لیے شہر بدر کرنا، قرآن سے صراحتا ثابت نہیں ہے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو کتاب اللہ کا حکم قرار دے رہے ہیں، گویا جس طرح قرآن کا قانون و حکم کتاب اللہ ہے، اس طرح رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا قانون و حکم بھی کتاب اللہ ہے۔ (4) الوليدة والغنم رد: لونڈی اور بکریاں تجھے واپس ملیں گی، اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ کی کتاب یا حکم کے خلاف باہمی رضا مندی سے کیا ہوا معاملہ درست تصور نہیں ہو گا، اس کو کالعدم قرار دیا جائے گا۔ (5) زنا ایسا جرم ہے، جس کی پردہ پوشی ممکن ہو تو پردہ پوشی کی جائے گی اور خواہ مخواہ تجسس اور اشاعت سے گریز کیا جائے گا، لیکن صورت مذکورہ میں چونکہ یہ پھیل چکا تھا، بیوی کے خاوند اور بچے کے باپ نے اس کا تذکرہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں آنے سے پہلے، عوام اور اہل علم کے ہاں کر دیا تھا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بھی دوسروں کی موجودگی میں اس کا ذکر کیا، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انیس بن ضحاک اسلمی رضی اللہ عنہ کو عورت کے پاس بھیجا تاکہ اگر وہ اعتراف کر لے تو اس پر حد جاری کی جا سکے، اگر انکار کر دے تو محض کسی کے اس دعویٰ کی بناء پر کہ میں نے فلاں سے زنا کیا ہے، بلا شہادت یا اقرار اس کی بات کو مان کر کسی پر حد نہ جاری کی جائے گی، اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے، عورت کو عدالت میں حاضر ہونا ضروری نہیں ہے، قاضی یا حاکم، خود یا اپنے مقررہ کردہ ولی کو بھیج کر بھی معاملہ کی تحقیق کر سکتا ہے، اور نائب اپنا اختیار استعمال کر کے خود فیصلہ کر سکتا ہے یا قاضی اور حاکم کو آ کر بتا سکتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انیس رضی اللہ عنہ کو اعتراف کی صورت میں حد قائم کرنے کی اجازت دی تھی، لیکن انہوں نے اس اختیار کو استعمال نہیں کیا اور آ کر عورت کے اعتراف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ کیا اور آپ نے اسے رجم کر دینے کا حکم دیا۔ (6) حضرت انیس رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ اگر عورت اعتراف کر لے تو اس کو رجم کر دینا، اس بات کی دلیل ہے کہ مجرم اگر قاضی یا حاکم کے سامنے جرم کا اعتراف کر لے اور وہاں کوئی اور حاضر نہ ہو تو وہ اس کے اقرار و اعتراف کے مطابق اسے سزا دے سکتا ہے، لیکن جمہور کے نزدیک یہ بات درست نہیں ہے، جب تک وہاں اور گواہ موجود نہ ہوں۔ (فتح الباری، ج 12، ص 174) تاکہ اس پر بدگمانی نہ ہو سکے، الزام تراشی سے بچ جائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
This hadith has been narrated on the authority of Zuhri with the same chain of transmitters.