Muslim:
The Book of Legal Punishments
(Chapter: The Hadd punishments are an expiation for those on whom they are carried out)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1710.
لیث نے ابن شہاب سے حدیث بیان کی، انہوں نے سعید بن مسیب اور ابوسلمہ سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپﷺ نے فرمایا: ’’چوپائے کے (لگائے ہوئے) زخم پر تاوان نہیں، کنویں (کے زخم) کا تاوان نہیں، (معدنیات کی) کان (کے زخم) کا تاوان نہیں اور جاہلیت کے دفینے میں (بیت المال کا) پانچواں حصہ ہے۔‘‘
حدکالغوی معنی وہ آخری کنارہ ہےجہاں کوئی چیز،مثلا:گھرختم ہوجاتاہے۔ حدمنطق میں کسی چیزکی ایسی تعریف کوکہتےہیں جس کےذریعےسےوہ ممیزہوجاتی ہے،یعنی دوسری چیزیں اس سےالگ اوروہ ان سےممتاز ہوجاتی ہے۔ شرعی حدسےمرادکسی گناہ یاجرم کی اللہ کی طرف سےنازل کردہ سزاہےجس کامقصدجرم کےآگےبندباندھا، حدفاصل قائم کرناہےتاکہ وہ معاشرےمیں سرایت نہ کرسکے۔
جن جرائم میں حدکانفاذہوتاہےان میں سےمندرجہ ذیل پرسب کااتفاق ہے،ارتداد،محاربت ،زنا،قذف،چوری اورشراب نوشی۔ جن میں اختلاف ہےوہ گیارہ ہیں :ان میں سےاہم عاریتالی ہوئی چیزکاانکار،شراب کےعلاوہ اورنشہ آورچیزکی قلیل (غیرنشہ آور)مقدارکااستعمال ،عمل قوم لوط،اورجانوروں کےساتھ بدفعلی اورجادوہیں۔
مختلف حدودکاتعین جرائم کےارتکاب کےمناسبت سےمختلف اوقات میں ہوا۔ تدریج بھی ملحوظ رہی۔ زناکےحوالےسےپہلےسورہ نساءکی یہ آیت نازل ہوئی،(وَاللَّاتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ مِنْ نِسَائِكُمْ فَاسْتَشْهِدُوا عَلَيْهِنَّ أَرْبَعَةً مِنْكُمْ فَإِنْ شَهِدُوا فَأَمْسِكُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ حَتَّى يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ أَوْ يَجْعَلَ اللَّهُ لَهُنَّ سَبِيلًا)’’اورتمہاری عورتوں میں سےجوکوئی بدکاری کرےتوان پراپنےچارمردوں کی گواہی لاؤ،اگروہ گواہی دیں توان کوگھروں میں بندرکھویہاں تک کہ موت ان کی مہلت پوری کردےیااللہ تعالیٰ ان کےلیے کوئی راہ نکالے۔‘‘(النساء4/15) پھرسورہ نورکی آیت نازل ہوئی(الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ وَلَا تَأْخُذْكُمْ بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ)’’زناکرنےوالی عورت اورزناکرنےوالےمردمیں سےہرایک (جن شادی نہیں ہوئی،تخصیص رسول اللہﷺ نےفرمائی)کوسوکوڑےمارو،اگرتم اللہ اوریوم آخرت پرایمان رکھتےہوتوتمہیں اللہ کاحکم لاگوکرنےمیں نرمی یاترس نہ آن لےاوران دونوں کی سزاکامومنوں کی ایک جماعت مشاہدہ کرے۔ ‘‘النور24/2)
حضرت عبادہ بن صامت(کی حدیث4414۔4417)کےمطابق رسول اللہﷺ نےاس کی وضاحت فرمائی کہ کنوارےمردعورت کوسوسوکوڑےلگائےجائیں گےاورجلاوطن کیاجائےگاجبکہ شادی شدہ کوکوڑےلگائےجائیں گےاوررجم کیاجائےگا۔ رسول اللہﷺ نےاس حکم کےمطابق فیصلہ بھی صادرفرمایا۔(حدیث 4435)البتہ اس حدیث میں عورت کی سزاکےبارےمیں یہ وضاحت نہیں کہ اسےکوڑےمارنےکاحکم بھی دیا۔ پھرجمہورعلماءکےنقطہ نظرکےمطابق شادی شدہ کورجم سےپہلےکوڑےمارنےکاحکم ماعزبن مالک اسلمیکےواقعےمیں رسول اللہﷺ کےقول وعمل کےذریعےسےمنسوخ ہوگیااورشادی شدہ کےلیے صرف رجم کی سزاباقی رہی۔ حضرت علیرسول اللہﷺکےاسی فیصلےپرقائم رہے(بخاری:6812)امام احمد،اسحاق،داؤداورابن منذرشادی شدہ کےحوالےسےکوڑوں اوراس کےبعدرجم کی سزاکےقائل ہیں۔ جمہورکےموقف کواس بات سےبھی تقویت ملتی ہےکہ حضرت ماعزقبیلہ غامداورقبیلہ جہینہ کی عورتوں کی سزاکےحوالےسےمختلف سندوں سےروایات موجودہیں ،لیکن کسی ایک میں بھی رجم کےساتھ کوڑوں کی سزاکی طرف کوئی اشارہ موجودنہیں بلکہ سزاکےحوالےسےاس طرح کےالفاظ ہیں جن سےیہی پتہ چلتاہےکہ صرف رجم کی سزاکاحکم دیاگیاہے،مثلاماعزکےحوالےسےآپﷺنےفرمایا(اذهبوابه فارجموه )’’اسےلےجاؤاوررجم کردو۔‘‘(حدیث :4420)(فامربه فرجم)’’چنانچہ اس کےبارےمیں حکم دیاتواسےرجم کردیاگیا۔ ‘‘ ( حدیث : 4431) جہینہ والی عورت کےبارےمیں بھی حدیث کےالفاظ یہی ہیں (امربهانبى اللهﷺفشكت عليهاثيابها،ثم امربهافرجمت ،ثم صلى عليها)’’نبی ﷺنےاس کےمتعلق حکم دیاتواس کےکپڑےکس کےباندھ دیےگئے،پھراس کےبارےمیں حکم دیاتواسےرجم کردیاگیا،پھرآپ نےاس کی نمازجنازہ پڑھائی۔ (حدیث :4433)اپنےنوکرکےساتھ بدکاری کرنےوالی عورت کےبارےمیں بھی رسول اللہﷺ کےالفاظ اس طرح ہیں(اُغْدُ ، يَا أُنَيْسُ إلَى امْرَأَةِ هَذَا فَإِنِ اعْتَرَفَتْ فَارْجُمْهَا)’’انیس صبح اس کی بیوی کےپاس جانا،اگروہ اعتراف کرلےتواسےرجم کردینا۔ ‘‘حدیث :4435)
اس پوری حدیث میں رسول اللہ ﷺسےجوالفاظ منقول ہیں ان سےبہت سےمعاملات واضح ہوتےہیں ،آپﷺ نےفرمایا:(وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَأَقْضِيَنَّ بَيْنَكُمَا بِكِتَابِ اللَّهِ، المِائَةُ وَالخَادِمُ رَدٌّ عَلَيْكَ، وَعَلَى ابْنِكَ جَلْدُ مِائَةٍ وَتَغْرِيبُ عَامٍ، وَيَا أُنَيْسُ اغْدُ عَلَى امْرَأَةِ هَذَا فَسَلْهَا، فَإِنِ اعْتَرَفَتْ فَارْجُمْهَا» فَاعْتَرَفَتْ فَرَجَمَهَا )’’اس ذات کی قسم جس کےہاتھ میں میری جان ہے!میں تمہارےدرمیان اللہ کی کتاب کےمطابق فیصلہ کروں گا۔ لونڈی اوربکریاں(جواس نےخودہی سزاکےفدیےکےطورپردےدی تھیں)واپس ہوں گی اورتمہارےبیٹےپرسوکوڑےاورایک سال کی جلاوطنی ہے،انیس !کل صبح (اس دوسرےآدمی)کی عورت کی طرف جانا،اگروہ اعتراف کرلےتواسےرجم کردینا۔ ‘‘(حدیث:4435)
ان الفاظ سےواضح ہوتاہےکہ (الف)رسول اللہﷺنےاس موقع پرجوفیصلہ سنایاوہ کتاب اللہ کافیصلہ تھا۔(ب)حدودکی سزامیں فدیےکاکوئی تصورموجودنہیں۔ (ج)غیرشادی شدہ زانی مردکوسوکوڑےلگیں گےاوراس کےبعدایک سال کےلیے جلاوطن کردیاجائےگا۔ (د)زناکی مرتکب شادی شدہ عورت کورجم کیاجائےگا۔ ماعزکی حدیث سےواضح ہوتاہےکہ شادی شدہ زانی مردکوبھی رجم ہی کیاجائےگا۔
امام شافعی اورجمہورعلماءاس کےقائل ہیں کہ غیرشادی شدہ عورت کوبھی کوڑوں اورجلاوطنی کی سزادی جائےگی۔ امام مالک اوراوزاعی کامسلک یہ ہےکہ اس حدیث میں غیرشادی شدہ مردکوکوڑوں کےساتھ جلاوطنی کی سزادی گئی ہے۔ رسول اللہﷺ نےزناکی مرتکب کسی غیرشادی شدہ عورت کوجلاوطنی کی سزانہیں دی،اس لیےباکرہ عورت کونہیں دی جائےگی۔ حضرت علی سےبھی ایک قول اس کےمطابق مروی ہے۔ اس نقطہ نظرکی حکمت واضح کرتےہوئےیہ بھی کہاجاتاہےکہ عورت کی جلاوطنی اس کوتباہ کردینےکےمرادف ہے۔ امام ابوحنیفہ اورامام محمدکےنزدیک جلاوطنی سرےسےحدکاحصہ ہی نہیں، وہ حدسےالگ ایک تعزیرہے۔ امام وقت چاہےتواس پرعمل کرےاورچاہےتونہ کرے۔ (المغنی لابن قدامۃ:1/123)
زناکی حدرسول اللہﷺ نےیہودپرجاری فرمائی۔ وہ اس حدکےبجائےاپنی خودساختہ سزاپرعمل کرتےتھے۔ اس سزاکودیکھ کررسول اللہﷺ نےان سےپوچھا’’کیاتورات میں یہی سزامقررکی گئی ہے؟‘‘پہلےتوانہوں نےغلط بیانی اورسخن سازی کی ۔ بعدمیں جب یہودیہ معاملہ رسول اللہﷺ کےپاس لےکرآئےتوآپ نےحضرت عبداللہ بن سلامکی مددسےتورات میں سےآیت رجم دکھادی بلکہ ان کےعالم سےیہ اعتراف بھی کروالیاکہ ان کےہاں رائج سزاخودساختہ ہے۔ اس کےبعدآپ نےرجم پرعمل کروایا۔ اس حوالےسےبعض اہل علم کےہاں اس بات پربھی بحث ہوئی کہ آپﷺ نےتورات کی سزاپرعمل کروایاتھایاقرآن کی سزاپر؟یہ بحث غیرضروری ہے،کیونکہ آپ نےجس سزاپرعمل کروایاوہ تورات میں بھی موجودہےاوروہی قرآ ن مجیدمیں بھی موجودہے۔ آپﷺ نےتورات کاحوالہ دےکریہودکےسامنےیہ بات ثابت کی کہ اللہ کادین بنیادی طورپرایک ہے،قرآن اصل دین لےکرآیاہے،چونکہ انہوں نےتحریف کرکےاسےتبدیل کیاہےاوروہ احکام بھی جن کووہ اپنی عادت کےمطابق ابھی تک تورات سےخارج نہیں کرسکے، ان کےبجائےبھی خودساختہ احکام رائج کررکھےہیں۔ آپ کااقدام اللہ کےحکم (قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ)’’کہہ دیجیے!اےاہل کتاب !آؤایک ایسی بات کی طرف جوہمارےاورتمہارےدرمیان برابرہے،یہ کہ ہم اللہ کےسواکسی کی عبادت نہ کریں اورنہ اس کےساتھ کسی چیزکوشریک کریں اورہم میں سےکوئی کسی کواللہ کےسوارب نہ بنائے۔‘‘(آل عمٰران 3/64)
امام مسلمنےزناکی حدکےبعدشراب کی حدکےبارےمیں احادیث پیش کیں۔ احادیث کےذریعےسےیہ بھی واضح کیاکہ حدودکانفاذاگرچہ پورےمعاشرےکی صحت،سلامتی اورامن کےلیے ضروری ہے،اس کاسب سےزیادہ فائدہ اس شخص کوہےجس پرحدنافذکی جاتی ہے۔ وہ گناہوں سےپاک ہوجاتاہے۔ خوداعتراف کرکےحدکوقبول کرنےوالےکی توبہ عظیم ترین توبہ ہے۔ رسول اللہﷺ ایسےلوگوں پرحددرجہ شفقت فرماتےتھے۔ آخرمیں ان اتفاقیہ نقصانات کاتذکرہ کیاگیاہےکہ جولوگ بظاہران کاسبب کہلائےجاسکتےہیں ان پرنہ کوئی حدہے،نہ ان کےازالےکی کوئی صورت ۔وہ حادثات کی طرح ہیں اورانہی کےحکم میں آتےہیں۔
لیث نے ابن شہاب سے حدیث بیان کی، انہوں نے سعید بن مسیب اور ابوسلمہ سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپﷺ نے فرمایا: ’’چوپائے کے (لگائے ہوئے) زخم پر تاوان نہیں، کنویں (کے زخم) کا تاوان نہیں، (معدنیات کی) کان (کے زخم) کا تاوان نہیں اور جاہلیت کے دفینے میں (بیت المال کا) پانچواں حصہ ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’حیوان کا زخمی کرنا رائیگاں ہے اور کنویں سے نقصان کا تاوان نہیں ہے اور کان سے پہنچنے والے نقصان کا ڈنڈ نہیں ہے اور جاہلیت کے دفینہ پر پانچواں حصہ ادا کرنا ہو گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
(1)العَجمَاءُ: أَعجَمکا مونث ہے، چوپایہ، حیوان۔ (2) جَراحٌ:زخمی کرنا۔ (3) جَرحٌ،جُرحٌ: زخم، مقصد حیوان کا نقصان پہنچانا وہ زخم کی صورت میں ہو یا کسی اور طرح۔ (4) جُبَارٌ:رائیگاں ہے، اس پر معاوضہ یا تاوان نہیں ہے، الركاز: جاہلیت کا دفینہ۔
فوائد ومسائل
(1) حیوان سے پہنچنے والا نقصان رائیگاں ہے، حیوان اگر کسی کا نقصان کرتا ہے، شخصی طور پر اس کو زخمی کرتا ہے یا اس کا مالی نقصان کرتا ہے، اس کی دو صورتیں ہیں (1) وہ حیوان گھر سے یا مالک سے بھاگ آیا ہے، اس کے ساتھ کوئی نہیں ہے، اس صورت میں اگر وہ کسی قسم کا نقصان کرتا ہے تو احناف کے نزدیک اس پر کسی قسم کا تاوان نہیں ہے، دن کا وقت ہو یا رات کا لیکن فقہائے حجاز امام مالک، امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک، اگر وہ کسی کی کھیتی کا نقصان کرتا ہے تو اگر رات کا وقت ہے تو مالک پر تاوان پڑے گا، اگر دن کا وقت ہے تو پھر تاوان نہیں ہے اور امام لیث کے نزدیک مالک کے ذمہ ہر حالت میں تاوان ہے۔ (المغني، ج 12، ص 541)۔ صحیح بات یہ ہے، اگر اس میں مالک کی کوتاہی کا دخل ہے تو تاوان ہے، وگرنہ کسی حالت میں تاوان نہیں ہے۔ (2) اگر مالک حیوان کے ساتھ ہے یا کوئی اس کے ساتھ ہے تو پھر اگر وہ کسی چیز کو روندتا ہے، وہ مال ہو، شخص ہو یا کھیتی تو سوار اس کا ذمہ دار ہے، امام ابو حنیفہ، امام شافعی اور امام احمد کا یہی نظریہ ہے، لیکن امام مالک کے نزدیک اس پر تاوان نہیں ہے، اگر حیوان، عام راستہ پر جا رہا ہے اور اس کے ساتھ انسان موجود ہے اور جانور اپنے کسی عضو مثلا ٹانگ، ہاتھ، سر، منہ سے کسی کو نقصان پہنچاتا ہے تو امام ابو حنیفہ کے نزدیک وہ ضامن ہے، اگر حیوان دولتی (ٹانگ) مارتا ہے یا دم مارتا ہے تو ضامن نہیں ہے، لیکن امام شافعی کے نزدیک ہر حالت میں، حیوان کے ساتھ والا ضامن ہے، حیوان کسی عضو سے بھی نقصان پہنچائے اور آج کل کی گاڑیوں کا ڈرائیور، ہر حالت میں ضامن ہے، اگر وہ غفلت اور بے پرواہی سے کام لیتا ہے، لیکن اگر اس کی کوتاہی یا غفلت و بے پرواہی کا دخل نہیں ہے، اچانک کوئی انسان یا حیوان آگے آ گیا ہے، وہ اس کی کوشش کے باوجود، نیچے آ گیا ہے تو وہ ذمہ دار نہیں ہے۔ البئر جُبار: کنویں کا نقصان رائیگاں ہے، اگر کنویں کے مالک کا اس نقصان میں دخل نہیں ہے کہ اس نے کنواں اپنی زمین میں کھودا ہے یا بے آباد جگہ میں کھودا ہے اور اس میں کوئی انسان یا حیوان گر جاتا ہے تو مالک اس کا ذمہ دار نہیں ہے، لیکن اگر وہ راستہ میں کنواں کھودتا ہے یا کسی دوسرے کی جگہ میں کنواں کھودتا ہے، یعنی اس کی زیادتی کا دخل ہے تو پھر وہ ذمہ دار ہے، جمہور کا یہی موقف ہے، احناف کا بھی یہی موقف ہے، اس طرح اگر کسی نے کنواں کھودنے کا کسی کو ٹھیکہ دیا یا اس کے لیے مزدور رکھا اور اس سے کھودنے والے کو نقصان پہنچا تو مالک ذمہ دار نہیں ہے۔المعدن جبار: کوئی انسان اپنی زمین میں یا بے آباد جگہ میں کان کھودتا ہے اور کوئی شخص اس میں گر کر مر جاتا ہے یا زخمی ہو جاتا ہے تو اس کا مالک ذمہ دار نہیں ہے یا مالک، کان کھودنے کے لیے مزدور رکھتا ہے اور ان کو تمام ضروری سازوسامان مہیا کر دیتا ہے یا یہ مزدور کی اپنی ذمہ داری ہے پھر کان سے مزدور کو کوئی نقصان پہنچتا ہے یا اس پر گر جاتی ہے تو مالک پر تاوان نہیں ہے، ہاں تبرعا اس کو مزدور کا علاج معالجہ کروانا چاہیے۔ في الركاز الخمس: جاہلیت کا دفینہ مل جانے کی صورت میں اس کا پانچواں حصہ بیت المال کو دیا جائے گا اور کان (معدن) سے حاصل ہونے والی چیز پر چونکہ، مالک کو محنت و مشقت اٹھانی پڑتی ہے اور مزدوری ادا کرنی ہوتی ہے، اس لیے وہ رکاز کے حکم میں نہیں ہے، ائمہ حجاز، مالک، شافعی اور احمد کا یہی موقف ہے، لیکن احناف کے نزدیک رکاز کا اطلاق معدن (کان) پر بھی ہوتا ہے، اس لیے اس کا حکم بھی جاہلیت کے دفینہ والا ہے، امام ثوری، اوزاعی اور ابو عبید بن سلام کا بھی یہی موقف ہے اور لغتکی رو سے اس کی گنجائش موجود ہے، لیکن شرعی طور پر یہ رکاز نہیں ہے، لغوی معنی پر شرعی معنی کو ترجیح حاصل ہے۔ ہاں اس پر امام بخاری والا اعتراض صحیح ہے کہ ایک طرف تو معدن کو عام ائمہ کے برخلاف رکاز میں داخل کیا ہے اور دوسری طرف خمس کو ادائیگی سے بچنے کے لیے حیلے نکالے جاتے ہیں اور اس کو پورے مال پر قبضہ کرنے کا موقعہ دیا جاتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hurairah (RA) reported Allah's Messenger (ﷺ) as saying: No requital is payable for a wound caused by an animal, for (falling into) a well and a mine, and one-fifth (is the share of the government) in the buried treasure (treasure-trove).