باب: قاضی کے لیے غصے کی حالت میں فیصلہ کرنے کی نا پسندیدگی
)
Muslim:
The Book of Judicial Decisions
(Chapter: It is disliked for a judge to pass a judgement when he is angry)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1717.
ابوعوانہ نے ہمیں عبدالملک بن عمیر سے حدیث بیان کی، انہوں نے عبدالرحمان بن ابی بکرہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: میرے والد نے سجستان کے قاضی عبیداللہ بن ابی بکرہ کو خط لکھوایا ۔۔ اور میں نے لکھا ۔۔ کہ جب تم غصے کی حالت میں ہو، تو دو آدمیوں کے مابین فیصلہ نہ کرنا کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’کوئی شخص جب وہ غصے کی حالت میں ہو دو (انسانوں/فریقوں) کے مابین فیصلہ نہ کرے۔‘‘
اَقْضِيَہ،قضا کی جمع ہے۔ جب کسی حق کے بارے میں دو آدمیوں یا دو فریقوں کے درمیان اختلاف ہو تو شریعت کے حکم کے مطابق اصل حقدار کا تعین کر کے اس کے حق میں فیصلہ میں کرنا’’قضا‘‘ہے ۔فیصلہ کرنے والا قاضی کہلاتا ہے ان فیصلوں کا نفاذ حکومت کی طاقت سے ہوتا ہے کسی بھی حکومت کی اولین ذمہ داریوں میں سے فیصلوں کا نفاذ ہے ان کے بالمقابل فتویٰ کسی معاملے میں شریعت کا حکم واضح کرنے کا نام ہے اس کے پیچھے قوت نافذ نہیں ہوتی لیکن عموماً رائے اس کی حامی ہوتی ہے اس لیے فتووں کا اپنا وزن بھی ہوتا ہے اور فیصلہ کرنے والوں کے لیے رہنمائی بھی ۔فتویٰ ان امور میں بھی حاصل کیا جاتا ہے جو انسان نے رضا کا رانہ طور پر خود اپنے آپ پر نافذ کرنے ہوتے ہیں۔
اس حصے میں فیصلہ کرنے کے حوالے سے رسول اللہ ﷺ نے جو رہنمائی فرمائی ہے اس کو واضح کیا گیا ہے آج کل اسے Peocedural laws کہتے ہیں سب سے پہلے یہ بات واضح کی گئی ہے کہ حل طلب قضیے کے حوالے سے ثبوت اور گواہی پیش کرنا مدعی کی ذمہ داری ہے جبکہ قسم مدعا علیہ پر آتی ہے اگر ثبوت اور گواہی کو اچھی طرح کھنگالنے اور دوسرے فریق کا موقف سننے کے بعدحق و انصاف پر مبنی فیصلہ ممکن ہے تو فبہا اور اگر ممکن نہیں ،مدعی اپنی بات ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے تو مدعا علیہ پر قسم ہو گی اور اس کے مطابق فیصلہ ہو گا بعض اوقات نا کافی گواہی کی صورت میں مدعی سے بھی قسم کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور اس کی روشنی میں فیصلہ دیا جاتا ہے فیصلہ صحیح بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی ۔غلط فیصلہ فافذ بھی ہو جائے تو حق پھر بھی اسی کا رہتا ہے جو اصل حق دار تھاغلط فیصلے سے فائدہ اٹھانے والے حتمی فیصلے کے دن اس کی سزا پائیں گے اور حق اسی کو ملے جس کا تھا گھریلو ا اور خاندانی معاملات میں بھی فیصلہ کیا جا سکتا اور بعض اوقات دوسرے فریق کی موجودگی کے بغیر اصل معاملے کے حوالے سے شریعت کا حکم واضح کر دیا جاتا ہے ایسے فیصلوں پر عمل کا معاملہ انسان کے ضمیر پر منحصر ہوتا ہے بعض فیصلوں میں فریق صرف ایک ہی ہوتا ہے اور عمل درآمد بھی وہ خود ہی کرتا ہے ۔بطور مثال کثرت سے سوالات کرنے،قیل و قال میں مشغول ہونے اور جن حقوق کا مطالبہ نہیں کیا گیا،ان کی ادائیگی کے معاملات ہیں ان میں فیصلہ ایک ہی فریق کو سنایا گیا ہے جسے اسی فریق ہی نے نا فذ کرنا ہے آخری حصے میں فیصلہ کرنے والوں کے لیے رہنمائی ہے کہ وہ فیصلے کس طرح کریں گے اور یہ کہ فیصلوں کے حوالے سے ان کی ذمہ داری کیا ہے۔
ابوعوانہ نے ہمیں عبدالملک بن عمیر سے حدیث بیان کی، انہوں نے عبدالرحمان بن ابی بکرہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: میرے والد نے سجستان کے قاضی عبیداللہ بن ابی بکرہ کو خط لکھوایا ۔۔ اور میں نے لکھا ۔۔ کہ جب تم غصے کی حالت میں ہو، تو دو آدمیوں کے مابین فیصلہ نہ کرنا کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’کوئی شخص جب وہ غصے کی حالت میں ہو دو (انسانوں/فریقوں) کے مابین فیصلہ نہ کرے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے بیٹے عبدالرحمٰن سے سجستان کے قاضی عبیداللہ بن ابی بکرہ کو لکھوایا کہ دو فریقوں کے درمیان فیصلہ غصہ کی حالت میں نہ کرنا، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے: ’’تم میں سے کوئی دو فریقوں کے درمیان، غصہ کی حالت میں فیصلہ نہ کرے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں، اس سے مراد یہ ہے کہ قاضی کو اس حالت میں فیصلہ نہیں کرنا چاہیے، جس میں وہ صحیح غوروفکر نہ کر سکے اور اس کا مزاج اعتدال پر قائم نہ رہ سکے، مثلاً اس کو بہت زیادہ بھوک ستا رہی ہو یا پیٹ انتہائی بھرا ہو، پیاس کا غلبہ ہو، بہت زیادہ غم و حزن ہو یا بہت زیادہ خوش ہو یا اس کا دل و دماغ کسی اور مسئلہ میں الجھا ہوا ہو اور حالت غضب کی تخصیص، بقول حافظ ابن حجر اس لیے کی ہے کہ وہ نفس پر غلبہ پا لیتا ہے، جس کی وجہ سے اس کا مقابلہ مشکل ہو جاتا ہے، اس لیے وہ حق سے تجاوز کر سکتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abdul Rahman bin Abu Bakra (RA) reported: My father dictated (and I wrote for him) to Ubaidullah bin Abu Bakr (RA) while he was the Judge of Sijistan: Do not Judge between two persons when you are angry, for I have heard Allah's Messenger (ﷺ) as saying: None of you should Judge between two persons when he is angry.