باب: باطل فیصلوں کو منسوخ اور دین میں نئے نکالے گے امور کو مسترد کرنا
)
Muslim:
The Book of Judicial Decisions
(Chapter: Rejection of wrong rulings and of newly-invented matters)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1718.
ابراہیم بن سعد بن ابراہیم بن عبدالرحمان بن عوف نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں میرے والد نے قاسم بن محمد سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے ہمارے اس امر (دین) میں کوئی ایسی نئی بات شروع کی جو اس میں نہیں تو وہ مردود ہے۔‘‘
اَقْضِيَہ،قضا کی جمع ہے۔ جب کسی حق کے بارے میں دو آدمیوں یا دو فریقوں کے درمیان اختلاف ہو تو شریعت کے حکم کے مطابق اصل حقدار کا تعین کر کے اس کے حق میں فیصلہ میں کرنا’’قضا‘‘ہے ۔فیصلہ کرنے والا قاضی کہلاتا ہے ان فیصلوں کا نفاذ حکومت کی طاقت سے ہوتا ہے کسی بھی حکومت کی اولین ذمہ داریوں میں سے فیصلوں کا نفاذ ہے ان کے بالمقابل فتویٰ کسی معاملے میں شریعت کا حکم واضح کرنے کا نام ہے اس کے پیچھے قوت نافذ نہیں ہوتی لیکن عموماً رائے اس کی حامی ہوتی ہے اس لیے فتووں کا اپنا وزن بھی ہوتا ہے اور فیصلہ کرنے والوں کے لیے رہنمائی بھی ۔فتویٰ ان امور میں بھی حاصل کیا جاتا ہے جو انسان نے رضا کا رانہ طور پر خود اپنے آپ پر نافذ کرنے ہوتے ہیں۔
اس حصے میں فیصلہ کرنے کے حوالے سے رسول اللہ ﷺ نے جو رہنمائی فرمائی ہے اس کو واضح کیا گیا ہے آج کل اسے Peocedural laws کہتے ہیں سب سے پہلے یہ بات واضح کی گئی ہے کہ حل طلب قضیے کے حوالے سے ثبوت اور گواہی پیش کرنا مدعی کی ذمہ داری ہے جبکہ قسم مدعا علیہ پر آتی ہے اگر ثبوت اور گواہی کو اچھی طرح کھنگالنے اور دوسرے فریق کا موقف سننے کے بعدحق و انصاف پر مبنی فیصلہ ممکن ہے تو فبہا اور اگر ممکن نہیں ،مدعی اپنی بات ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے تو مدعا علیہ پر قسم ہو گی اور اس کے مطابق فیصلہ ہو گا بعض اوقات نا کافی گواہی کی صورت میں مدعی سے بھی قسم کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور اس کی روشنی میں فیصلہ دیا جاتا ہے فیصلہ صحیح بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی ۔غلط فیصلہ فافذ بھی ہو جائے تو حق پھر بھی اسی کا رہتا ہے جو اصل حق دار تھاغلط فیصلے سے فائدہ اٹھانے والے حتمی فیصلے کے دن اس کی سزا پائیں گے اور حق اسی کو ملے جس کا تھا گھریلو ا اور خاندانی معاملات میں بھی فیصلہ کیا جا سکتا اور بعض اوقات دوسرے فریق کی موجودگی کے بغیر اصل معاملے کے حوالے سے شریعت کا حکم واضح کر دیا جاتا ہے ایسے فیصلوں پر عمل کا معاملہ انسان کے ضمیر پر منحصر ہوتا ہے بعض فیصلوں میں فریق صرف ایک ہی ہوتا ہے اور عمل درآمد بھی وہ خود ہی کرتا ہے ۔بطور مثال کثرت سے سوالات کرنے،قیل و قال میں مشغول ہونے اور جن حقوق کا مطالبہ نہیں کیا گیا،ان کی ادائیگی کے معاملات ہیں ان میں فیصلہ ایک ہی فریق کو سنایا گیا ہے جسے اسی فریق ہی نے نا فذ کرنا ہے آخری حصے میں فیصلہ کرنے والوں کے لیے رہنمائی ہے کہ وہ فیصلے کس طرح کریں گے اور یہ کہ فیصلوں کے حوالے سے ان کی ذمہ داری کیا ہے۔
ابراہیم بن سعد بن ابراہیم بن عبدالرحمان بن عوف نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں میرے والد نے قاسم بن محمد سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے ہمارے اس امر (دین) میں کوئی ایسی نئی بات شروع کی جو اس میں نہیں تو وہ مردود ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے ہمارے دین میں ایسی بات نکالی، جس کی اس میں دلیل نہیں ہے، وہ مردود ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
حافظ ابن حجر نے لکھا ہے، یہ حدیث اسلام کے اصول اور قواعد میں شمار ہوتی ہے، کیونکہ اس کا معنی یہ ہے، جو شخص دین میں ایسے کام کو گھڑے جس کی اصول دین میں کوئی دلیل نہ ہو، وہ قابل اعتبار نہیں ہے اور علامہ عینی لکھتے ہیں، جو اگر کتاب و سنت میں نہ پایا جائے، وہ دین میں گھڑ لینا بدعت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'A'isha reported Allah's Messenger (ﷺ) as saying: He who innovates things in our affairs for which there is no valid (reason) (commits sin) and these are to be rejected.