Muslim:
The Book of Judicial Decisions
(Chapter: The best of witnesses)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1719.
حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’کیا تمہیں بہترین گواہ کے بارے میں نہ بتاؤں؟ وہی جو شہادت طلب کیے جانے سے پہلے اپنی گواہی پیش کر دے۔‘‘
اَقْضِيَہ،قضا کی جمع ہے۔ جب کسی حق کے بارے میں دو آدمیوں یا دو فریقوں کے درمیان اختلاف ہو تو شریعت کے حکم کے مطابق اصل حقدار کا تعین کر کے اس کے حق میں فیصلہ میں کرنا’’قضا‘‘ہے ۔فیصلہ کرنے والا قاضی کہلاتا ہے ان فیصلوں کا نفاذ حکومت کی طاقت سے ہوتا ہے کسی بھی حکومت کی اولین ذمہ داریوں میں سے فیصلوں کا نفاذ ہے ان کے بالمقابل فتویٰ کسی معاملے میں شریعت کا حکم واضح کرنے کا نام ہے اس کے پیچھے قوت نافذ نہیں ہوتی لیکن عموماً رائے اس کی حامی ہوتی ہے اس لیے فتووں کا اپنا وزن بھی ہوتا ہے اور فیصلہ کرنے والوں کے لیے رہنمائی بھی ۔فتویٰ ان امور میں بھی حاصل کیا جاتا ہے جو انسان نے رضا کا رانہ طور پر خود اپنے آپ پر نافذ کرنے ہوتے ہیں۔
اس حصے میں فیصلہ کرنے کے حوالے سے رسول اللہ ﷺ نے جو رہنمائی فرمائی ہے اس کو واضح کیا گیا ہے آج کل اسے Peocedural laws کہتے ہیں سب سے پہلے یہ بات واضح کی گئی ہے کہ حل طلب قضیے کے حوالے سے ثبوت اور گواہی پیش کرنا مدعی کی ذمہ داری ہے جبکہ قسم مدعا علیہ پر آتی ہے اگر ثبوت اور گواہی کو اچھی طرح کھنگالنے اور دوسرے فریق کا موقف سننے کے بعدحق و انصاف پر مبنی فیصلہ ممکن ہے تو فبہا اور اگر ممکن نہیں ،مدعی اپنی بات ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے تو مدعا علیہ پر قسم ہو گی اور اس کے مطابق فیصلہ ہو گا بعض اوقات نا کافی گواہی کی صورت میں مدعی سے بھی قسم کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور اس کی روشنی میں فیصلہ دیا جاتا ہے فیصلہ صحیح بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی ۔غلط فیصلہ فافذ بھی ہو جائے تو حق پھر بھی اسی کا رہتا ہے جو اصل حق دار تھاغلط فیصلے سے فائدہ اٹھانے والے حتمی فیصلے کے دن اس کی سزا پائیں گے اور حق اسی کو ملے جس کا تھا گھریلو ا اور خاندانی معاملات میں بھی فیصلہ کیا جا سکتا اور بعض اوقات دوسرے فریق کی موجودگی کے بغیر اصل معاملے کے حوالے سے شریعت کا حکم واضح کر دیا جاتا ہے ایسے فیصلوں پر عمل کا معاملہ انسان کے ضمیر پر منحصر ہوتا ہے بعض فیصلوں میں فریق صرف ایک ہی ہوتا ہے اور عمل درآمد بھی وہ خود ہی کرتا ہے ۔بطور مثال کثرت سے سوالات کرنے،قیل و قال میں مشغول ہونے اور جن حقوق کا مطالبہ نہیں کیا گیا،ان کی ادائیگی کے معاملات ہیں ان میں فیصلہ ایک ہی فریق کو سنایا گیا ہے جسے اسی فریق ہی نے نا فذ کرنا ہے آخری حصے میں فیصلہ کرنے والوں کے لیے رہنمائی ہے کہ وہ فیصلے کس طرح کریں گے اور یہ کہ فیصلوں کے حوالے سے ان کی ذمہ داری کیا ہے۔
حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’کیا تمہیں بہترین گواہ کے بارے میں نہ بتاؤں؟ وہی جو شہادت طلب کیے جانے سے پہلے اپنی گواہی پیش کر دے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا میں تمہیں بہترین گواہ نہ بتلاؤں وہ جو اپنی گواہی اس کی درخواست سے پہلے ہی دے دیتا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کوئی انسان، کسی دوسرے کے حق کا گواہ ہے لیکن دوسرے کو اس بات کا علم نہیں ہے تو وہ اس کو جا کر اپنی گواہی سے آگاہ کر دے کہ میں تیرے حق میں گواہی دے سکتا ہوں اور بقول بعض اس کا معنی یہ ہے کہ انسان کے پاس جو شہادت ہے، وہ اس شہادت کو کسی طالب کی طلب کے بغیر اپنے طور پر محض اجر و ثواب کی خاطر دے گویا وہ خود بھی مدعی ہے اور شاہد بھی، اس کو شہادت حسبہ کہا جاتا ہے اور اس کا تعلق خالص حقوق اللہ سے ہے، جیسے زنا یا شراب کی حد، آزادی، وصیت و وقف وغیرہ کے سلسلہ میں گواہی دینا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Zaid bin Khalid al-Juhani reported Allah's Apostle (ﷺ) as saying: Should I not tell you of the best witnesses? He is the one who produces his evidence before he is asked for it.