لُقَظَہ سے مراد وہ چیز،سواری کا جانور وغیرہ ہے جو گر جائے ا غفلت کی بنا پر کہیں رہ جائے یا سواری ہے تو کہیں چلی جائے ، کام کی جو چیزیں دریا، سمندر وغیرہ نے کناروں پر لا پھینکتے ہیں ،یا کوئی قیمتی چیز جو کسی پرندے کےآشیانے میں مل جائے اس کی چونچ یا پنجے وغیرہ سے گر جائے، سب اسی میں شامل ہے۔
پچھلے ابواب میں مالی حقوق کے حوالے سے پیدا ہونے والے جھگڑوں کے بارے میں احکام تھے اس حصے میں ان چیزوں کا ذکر ہے جن کا کوئی دعوے دار موجودنہیں ،لیکن ان پر کسی نا معلوم انسان کا حق ہے۔
اس حصے کی حدیث میں وضاحت ہے کہ کون سی چیزیں سنبھالی جا سکتی ہے اور کون سی چیزیں سنبھالنے کی اجازت نہیں سنبھالنے والے پر فرض عائد ہوتا ہے کہ اس کے اصل مالک کو تلاش کرنے کے لیے سال بھر اس کی تشہیر کرے ،پھر وہ اس چیز کو خرچ کر سکتا ہے مگر اس کی حیثیت امانت کی ہو گی۔ اصل مالک کے آنے اور معقول طریقے پر اس کا حقِ ملکیت ثابت ہو جانے کی صورت میں وہی اصل حقدار ہوگاوہ چیز یا اس کی قیمت اس کو ادا کر دینی ضروری ہوگی آخری حصے میں کسی انسان کے اس حق کی وضاحت ہے جو کسی دوسرے کے مال میں ہو سکتا ہے،مثلا:مہمان کا حق،اور تنگی کی صورت میں جو کسی کے پاس موجود ہے اس پر باقی لوگوں کا حق۔
حضرت عبدالرحمان بن عثمان تیمی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حاجیوں کی گری پڑی چیز اٹھانے سے منع فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت عبدالرحمٰن بن عثمان تیمی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حاجیوں کی گری پڑی چیز اٹھانے سے منع فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حاجیوں کی گری پڑی چیز نہیں اٹھانی چاہیے، تاکہ وہ خود اٹھا سکیں، کیونکہ عام طور پر حاجی وہ اشیاء ساتھ لے جاتے ہیں جن کی انہیں ضرورت ہوتی ہے، اس لیے ان کو اپنی گمشدہ چیز کا جلد ہی احساس ہو جاتا ہے اور آج کل تو حرم میں اس کے لیے ایک محکمہ بنا دیا گیا ہے جس کے پاس گمشدہ چیز جمع کرائی جا سکتی ہے اور لوگ اس کی طرف مراجعت بھی کرتے ہیں، لیکن اگر ایسی جگہ ملے، جہاں اگر نہ اٹھائی جائے تو اس کے ضائع ہونے کا احتمال ہوتا ہے تو پھر اس کی تشہیر کی نیت سے اٹھا لینا چاہیے، ملکیت کی نیت سے نہیں کہ معلوم نہیں اس کا مالک کس ملک کا ہو گا اور اب پھر کبھی حج کے لیے آ بھی سکے گا یا نہیں اور تشہیر کے بعد اس کا میرے پاس آنا ممکن ہو گا یا نہیں، بلکہ تشہیر ہی کی نیت سے اٹھائے، امام شافعی کی رائے کے مطابق تو اس کی تشہیر ہمیشہ کرنا ہو گی، اس سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا، امام احمد کا ایک قول بھی یہی ہے، لیکن مشہور قول کی رو سے ان کے نزدیک، حل اور حرم (مکہ، غیر مکہ) میں کوئی فرق نہیں ہے، امام ابو حنیفہ اور امام مالک کا موقف یہی ہے، حضرت ابن عمر، حضرت ابن عباس، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم سے یہی منقول ہے، تفصیل کے لیے دیکھئے، (المغني ج 8، ص 315-316) بہرحال بہتر یہی ہے کہ اٹھا کر گمشدگی کا اعلان اور حفاظت کرنے والے محکمہ کے سپرد کر دے اور جہاز میں ملے تو فوراً تشہیر کر دے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Abdul Rahman bin 'Uthman al-Taimi reported that Allah's Messenger (ﷺ) forbade taking into custody the stray thing of the pilgrims.