کتاب: کسی کو ملنے والی ایسی چیز جس کے مالک کا پتہ نہ ہو
(
باب: زائد از ضرورت مال سے کسی کی دلداری کرنا مستحب ہے
)
Muslim:
The Book of Lost Property
(Chapter: It is recommended to mix provisions if they are few, and to share them out)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1728.
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم نبی ﷺ کے ساتھ سفر میں تھے، اس اثنا میں ایک آدمی اپنی سواری پر آپﷺ کے پاس آیا، کہا: پھر وہ اپنی نگاہ دائیں بائیں دوڑانے لگا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس کے پاس ضرورت سے زائد سواری ہو، وہ اس کے ذریعے سے ایسے شخص کے ساتھ نیکی کرے جس کے پاس سواری نہیں ہے اور جس کے پاس زائد از ضرورت زادِ راہ ہے وہ اس کے ذریعے سے ایسے شخص کی خیرخواہی کرے جس کے پاس زاد راہ نہیں ہے۔‘‘ کہا: آپ نے مال کی بہت سی اقسام کا ذکر کیا جس طرح کیا، حتی کہ ہم نے خیال کیا کہ زائد مال پر ہم میں سے کسی کا کوئی حق نہیں ہے۔
لُقَظَہ سے مراد وہ چیز،سواری کا جانور وغیرہ ہے جو گر جائے ا غفلت کی بنا پر کہیں رہ جائے یا سواری ہے تو کہیں چلی جائے ، کام کی جو چیزیں دریا، سمندر وغیرہ نے کناروں پر لا پھینکتے ہیں ،یا کوئی قیمتی چیز جو کسی پرندے کےآشیانے میں مل جائے اس کی چونچ یا پنجے وغیرہ سے گر جائے، سب اسی میں شامل ہے۔
پچھلے ابواب میں مالی حقوق کے حوالے سے پیدا ہونے والے جھگڑوں کے بارے میں احکام تھے اس حصے میں ان چیزوں کا ذکر ہے جن کا کوئی دعوے دار موجودنہیں ،لیکن ان پر کسی نا معلوم انسان کا حق ہے۔
اس حصے کی حدیث میں وضاحت ہے کہ کون سی چیزیں سنبھالی جا سکتی ہے اور کون سی چیزیں سنبھالنے کی اجازت نہیں سنبھالنے والے پر فرض عائد ہوتا ہے کہ اس کے اصل مالک کو تلاش کرنے کے لیے سال بھر اس کی تشہیر کرے ،پھر وہ اس چیز کو خرچ کر سکتا ہے مگر اس کی حیثیت امانت کی ہو گی۔ اصل مالک کے آنے اور معقول طریقے پر اس کا حقِ ملکیت ثابت ہو جانے کی صورت میں وہی اصل حقدار ہوگاوہ چیز یا اس کی قیمت اس کو ادا کر دینی ضروری ہوگی آخری حصے میں کسی انسان کے اس حق کی وضاحت ہے جو کسی دوسرے کے مال میں ہو سکتا ہے،مثلا:مہمان کا حق،اور تنگی کی صورت میں جو کسی کے پاس موجود ہے اس پر باقی لوگوں کا حق۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم نبی ﷺ کے ساتھ سفر میں تھے، اس اثنا میں ایک آدمی اپنی سواری پر آپﷺ کے پاس آیا، کہا: پھر وہ اپنی نگاہ دائیں بائیں دوڑانے لگا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس کے پاس ضرورت سے زائد سواری ہو، وہ اس کے ذریعے سے ایسے شخص کے ساتھ نیکی کرے جس کے پاس سواری نہیں ہے اور جس کے پاس زائد از ضرورت زادِ راہ ہے وہ اس کے ذریعے سے ایسے شخص کی خیرخواہی کرے جس کے پاس زاد راہ نہیں ہے۔‘‘ کہا: آپ نے مال کی بہت سی اقسام کا ذکر کیا جس طرح کیا، حتی کہ ہم نے خیال کیا کہ زائد مال پر ہم میں سے کسی کا کوئی حق نہیں ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر پر تھے، اس دوران اچانک ایک آدمی اپنی سواری پر آیا اور اپنی نظر دائیں بائیں دوڑانے لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس کے پاس ضرورت سے زائد سواری کا اونٹ ہو تو وہ اس کے ذریعہ اس کی خیرخواہی کرے، جس کے پاس سواری نہیں ہے اور جس کے پاس ضرورت سے زائد توشہ ہو، وہ اس کے ساتھ اس سے حسن سلوک کرے، جس کے پاس زادراہ نہیں ہے۔" حضرت ابو سعید ؓ بیان کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال کی بہت سی اقسام کا ذکر کیا حتی کہ ہم نے یہ سمجھا، ہم میں سے کسی کا فالتو چیز پر حق نہیں ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
(1) فَضل:ضرورت سے زائد، فالتو۔ (2) فليَعُد به:ضرورت مند پر اس کے ساتھ احسان کرے،ہمدردی اور خیرخواہی کا اظہار کرے۔
فوائد ومسائل
ایک انسان اونٹنی پر آیا جو تھکی ہاری ہوئی تھی، اس لیے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آ کر دائیں بائیں دیکھنے لگا اور اونٹنی بھی دائیں بائیں پھیری تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے لیے سواری کا انتظام فرما دیں، اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو فالتو چیز سے ہمدردی اور خیرخواہی کرنے کی تلقین کی اور بعض حضرات نے یہ معنی کیا ہے کہ وہ فخر و مباہات کے اظہار کے لیے اونٹنی دائیں بائیں گھمانے لگا تاکہ یہ بات جتلا سکے، میرے پاس بہت سی سواریاں ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو سنانے کے لیے ساتھیوں کو خیرخواہی اور ہمدردی کرنے کی تلقین کی تاکہ وہ ضرورت سے زائد سواریوں کے ذریعہ ضرورت مندوں پر احسان کرے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Sa'id al-Khudri reported: While we were with the Apostle of Allah (ﷺ) on a journey, a person came upon his mount and began to stare on the right and on the left, (it was at this moment) that Allah's Messenger (ﷺ) said: He who has an extra mount should give that to one who has no mount for him, and he who has surplus of provisions should give them to him who has no provisions, and he made mention of so many kinds of wealth until we were of the opinion that none of us has any right over the surplus.