کتاب: جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہﷺ کے اختیار کردہ طریقے
(
باب: بد عہدی کی حرمت
)
Muslim:
The Book of Jihad and Expeditions
(Chapter: The prohibition of betrayal)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1735.
عبیداللہ نے نافع سے،انہوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’قیامت کے دن اللہ جب پہلے آنے والوں اور بعد میں آنے والوں کو جمع کرے گا تو بدعہدی کرنے والے ہر شخص کے لیے ایک جھنڈا بلند کیا جائے گا اور کہا جائے گا: یہ فلاں بن فلاں کی بدعہدی (کا نشان) ہے۔‘‘
عبیداللہ نے نافع سے،انہوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’قیامت کے دن اللہ جب پہلے آنے والوں اور بعد میں آنے والوں کو جمع کرے گا تو بدعہدی کرنے والے ہر شخص کے لیے ایک جھنڈا بلند کیا جائے گا اور کہا جائے گا: یہ فلاں بن فلاں کی بدعہدی (کا نشان) ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
امام صاحب مختلف اساتذہ کی سندوں سے، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کی روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کہ جب اللہ تعالیٰ قیامت کو پہلے، پچھلے تمام انسانوں کو جمع کرے گا تو ہر عہد شکن کے لیے ایک جھنڈا بلند کیا جائے گا اور کہا جائے گا، یہ فلاں بن فلاں کی عہد شکنی ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
(1) غَادِر:عہد شکن، بے وفا۔ (2) راية: بڑا جھنڈا، جو سپہ سالار کے پاس ہوتا ہے۔
فوائد ومسائل
عربوں کا یہ دستور تھا کہ وہ عہد شکنی کی تشہیر کے لیے، بازاروں میں سیاہ جھنڈے گاڑتے تھے تاکہ تمام لوگ اس کی مذمت اور برائی بیان کریں، اس لیے ان کی عادت و عرف کو ملحوظ رکھتے ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عہد شکن کے ساتھ قیامت کے دن بھی یہی سلوک ہو گا کہ تمام انسانوں میں اس کی عہد شکنی کی تشہیر کی جائے گی، خصوصا امیر لشکر یا امیر المؤمنین، حکمران کی عہد شکنی کی حرمت زیادہ شدید ہے، کیونکہ اس کی عہد شکنی کا نقصان، سب سے زیادہ ہوتا ہے اور اسے عہد شکنی کی ضرورت بھی نہیں ہوتی، بلکہ وہ ایفائے عہد پر زیادہ قادر ہوتا ہے، اس لیے اس کو اپنے عہدہ اور منصب یا ذمہ داری کو پوری دیانت و امانت کے ساتھ پورا کرنا چاہیے اور رعایا کے حقوق اور مفادات کا تحفظ کرنا چاہیے، اس طرح عوام اور رعایا کو بھی، امیر کے ساتھ وفا کرنا چاہیے اور بلاوجہ اس کے خلاف شورش برپا کرنے اور بغاوت و سرکشی اختیار کرنے سے باز رہنا چاہیے، کیونکہ دونوں اپنی اپنی حیثیت کے مطابق اپنی اپنی ذمہ داریوں کے پورا کرنے کے سلسلہ میں اللہ کے ہاں جواب دہ ہیں، اس لیے اس حدیث کے راوی حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے جب اہل مدینہ نے یزید کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تو انہوں نے اپنی اولاد اور خدم و حشم کو جمع کر کے فرمایا تھا کہ تم میں سے جو بھی ان لوگوں کے ساتھ تھا، اس کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، کیونکہ ہم یزید کی بیعت کر چکے ہیں اور اس سے بڑھ کر کوئی عہد شکنی نہیں ہے کہ جس کی بیعت کی ہے اس کے خلاف جنگ لڑی جائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It has been narrated on the authority of Ibn 'Umar that the Messenger of Allah (ﷺ) said: When Allah will gather together, on the Day of Judgment, all the earlier and later generations of mankind, a flag will be raised (to mark off) every person guilty of breach of faith, and it will be announced that this is the perfidy of so and so, son of so and so (to attract the attention of people to his guilt).