کتاب: جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہﷺ کے اختیار کردہ طریقے
(
باب: کافروں کے درختوں کو کاٹنا اور جلانا جائز ہے
)
Muslim:
The Book of Jihad and Expeditions
(Chapter: Permissibility of cutting down the trees of the Kuffar and burning them)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1746.
یحییٰ بن یحییٰ، محمد بن رمح اور قتیبہ بن سعید نے لیث سے حدیث بیان کی، انہوں نے نافع سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے بنونضیر کے کھجور کے درخت جلائے اور کاٹ ڈالے اور یہ بویرہ کا مقام تھا (جہاں یہ درخت واقع تھےقتیبہ اور ابن رمح نے اپنی حدیث میں یہ اضافہ کیا: اس پر اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی: ’’تم نے کھجور کا جو درخت کاٹ ڈالا یا اسے اپنی جڑوں پر کھڑا چھوڑ دیا تو وہ اللہ کی اجازت سے تھا اور اس لیے تاکہ وہ (اللہ) نافرمانوں کو رسوا کرے۔‘‘
یحییٰ بن یحییٰ، محمد بن رمح اور قتیبہ بن سعید نے لیث سے حدیث بیان کی، انہوں نے نافع سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے بنونضیر کے کھجور کے درخت جلائے اور کاٹ ڈالے اور یہ بویرہ کا مقام تھا (جہاں یہ درخت واقع تھےقتیبہ اور ابن رمح نے اپنی حدیث میں یہ اضافہ کیا: اس پر اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی: ’’تم نے کھجور کا جو درخت کاٹ ڈالا یا اسے اپنی جڑوں پر کھڑا چھوڑ دیا تو وہ اللہ کی اجازت سے تھا اور اس لیے تاکہ وہ (اللہ) نافرمانوں کو رسوا کرے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کے کھجوروں کے درخت جو بویرہ نامی نخلستان میں تھے، جلوائے اور کٹوا دئیے، قتیبہ اور ابن رمح کی روایت میں یہ اضافہ ہے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری، ’’جو کھجوریں تم نے کاٹیں یا ان کو ان کی جڑوں پر کھڑا رہنے دیا تو یہ اللہ کے حکم سے ہوا، تاکہ فاسقوں کو رسوا کرے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
یہودی قبائل جو مدینہ میں رہتے تھے وہ تین تھے، بنو قریظہ، بنو نضیر اور بنو قینقاع، ان قبائل کا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے معاہدہ تھا کہ وہ آپﷺ سے جنگ نہیں لڑیں گے اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن کا تعاون کریں گے، سب سے پہلے بنو قینقاع نے عہد شکنی کی اور ان کو عبداللہ بن ابی کی سفارش پر چھوڑ دیا گیا اور ان کو جنگ بدر کے بعد شوال میں، مدینہ سے نکال دیا گیا، ان کے بعد بنو نضیر جن کا لیڈر حی بن اخطب نے بدعہدی کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کرنے کی سازش تیار کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر حملہ کیا تو وہ قلعہ بند ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا محاصرہ کر لیا اور وہ قلعہ کی فصیل سے تیر اور پتھر برسانے لگے اور کھجور کے باغات ان کے لیے سپر کا کام دے رہے تھے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ان درختوں کو کاٹ کر جلا دیا جائے، اس سے معلوم ہوا، جنگی حکمت اور جنگی ضرورت و مصلحت کے تحت دشمن کے درختوں کو کاٹ کر جلانا اور کاٹنا جائز ہے، ائمہ اربعہ اور فقہائے اسلام کی اکثریت کا یہی نظریہ ہے، البتہ بلا ضرورت و مصلحت محض کھیل و تماشے کے طور پر یہ کام درست نہیں ہے، نہ بگاڑ و فساد کی نیت سے ان کو تباہ کیا جا سکتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It is narrated on the authority of 'Abdullah that the Messenger of Allah (ﷺ) ordered the date-palms of Banu Nadir to be burnt and cut. These palms were at Buwaira. Qutaibah and Ibn Rumh in their versions of the tradition have added: So Allah, the Glorious and Exalted, revealed the verse: "Whatever trees you have cut down or left standing on their trunks, it was with the permission of Allah so that He may disgrace the evil-doers" (lix. 5).