کتاب: جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہﷺ کے اختیار کردہ طریقے
(
باب: غزوہ احزاب
)
Muslim:
The Book of Jihad and Expeditions
(Chapter: The Battle of Al-Ahzab (The Confederates))
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1788.
ابراہیم تیمی کے والد (یزید بن شریک) سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس تھے، ایک آدمی نے کہا: اگر میں رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک کو پا لیتا تو آپﷺ کی معیت میں جہاد کرتا اور خوب لڑتا، حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: کیا تم ایسا کرتے؟ میں نے غزوہ احزاب کی رات ہم سب کو دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے، ہمیں تیز ہوا اور سردی نے اپنی گرفت میں لے رکھا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا کوئی ایسا مرد ہے جو مجھے (اس) قوم (کے اندر) کی خبر لا دے؟ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کو میرے ساتھ رکھے!‘‘ ہم خاموش رہے اور ہم میں سے کسی نے آپﷺ کو کوئی جواب نہ دیا، آپ ﷺ نے پھر فرمایا: ’’کوئی شخص ہے جو میرے پاس ان لوگوں کی خبر لے آئے؟ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کو میرے ساتھ رکھے!‘‘ ہم خاموش رہے اور ہم میں سے کسی نے کوئی جواب نہ دیا۔ آپ ﷺ نے پھر فرمایا: ’’ہے کوئی شخص جو ان لوگوں کی خبر لا دے؟ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کو میری رفاقت عطا فرمائے!‘‘ ہم خاموش رہے، ہم میں سے کسی نے کوئی جواب نہ دیا، آپﷺ نے فرمایا: ’’حذیفہ! کھڑے ہو جاؤ اور تم مجھے ان کی خبر لا کے دو۔‘‘ جب آپ نے میرا نام لے کر بلایا تو میں نے اُٹھنے کے سوا کئی چارہ نہ پایا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جاؤ ان لوگوں کی خبریں مجھے لا دو اور انہیں میرے خلاف بھڑکا نہ دینا۔‘‘ (کوئی ایسی بات یا حرکت نہ کرنا کہ تم پکڑے جاؤ، اور وہ میرے خلاف بھڑک اٹھیں) جب میں آپﷺ کے پاس سے گیا تو میری حالت یہ ہو گئی جیسے میں حمام میں چل رہا ہوں، (پسینے میں نہایا ہوا تھا) یہاں تک کہ میں ان کے پاس پہنچا، میں نے دیکھا کہ ابوسفیان اپنی پشت آگ سے سینک رہا ہے، میں نے تیر کو کمان کی وسط میں رکھا اور اس کو نشانہ بنا دینا چاہا، پھر مجھے رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان یاد آ گیا کہ ’’انہیں میرے خلاف بھڑکا نہ دینا‘‘ (کہ جنگ اور تیز ہو جائے) اگر میں اس وقت تیر چلا دیتا تو وہ نشانہ بن جاتا، میں لوٹا تو (مجھے ایسے لگ رہا تھا) جیسے میں حمام میں چل رہا ہوں، پھر جب میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے آپﷺ کو ان لوگوں کی (ساری) خبر بتائی اور میں فارغ ہوا تو مجھے ٹھنڈ لگنے لگی، رسول اللہ ﷺ نے مجھے (اپنی اس) عبا کا بچا ہوا حصہ اوڑھا دیا جو آپ (کے جسم اطہر) پر تھی، آپﷺ اس میں نماز پڑھ رہے تھے۔ میں (اس کو اوڈھ کر) صبح تک سوتا رہا، جب صبح ہوئی تو آپﷺ نے فرمایا: ’’اے خوب سونے والے! اُٹھ جاو۔‘‘
ابراہیم تیمی کے والد (یزید بن شریک) سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس تھے، ایک آدمی نے کہا: اگر میں رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک کو پا لیتا تو آپﷺ کی معیت میں جہاد کرتا اور خوب لڑتا، حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: کیا تم ایسا کرتے؟ میں نے غزوہ احزاب کی رات ہم سب کو دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے، ہمیں تیز ہوا اور سردی نے اپنی گرفت میں لے رکھا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا کوئی ایسا مرد ہے جو مجھے (اس) قوم (کے اندر) کی خبر لا دے؟ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کو میرے ساتھ رکھے!‘‘ ہم خاموش رہے اور ہم میں سے کسی نے آپﷺ کو کوئی جواب نہ دیا، آپ ﷺ نے پھر فرمایا: ’’کوئی شخص ہے جو میرے پاس ان لوگوں کی خبر لے آئے؟ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کو میرے ساتھ رکھے!‘‘ ہم خاموش رہے اور ہم میں سے کسی نے کوئی جواب نہ دیا۔ آپ ﷺ نے پھر فرمایا: ’’ہے کوئی شخص جو ان لوگوں کی خبر لا دے؟ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کو میری رفاقت عطا فرمائے!‘‘ ہم خاموش رہے، ہم میں سے کسی نے کوئی جواب نہ دیا، آپﷺ نے فرمایا: ’’حذیفہ! کھڑے ہو جاؤ اور تم مجھے ان کی خبر لا کے دو۔‘‘ جب آپ نے میرا نام لے کر بلایا تو میں نے اُٹھنے کے سوا کئی چارہ نہ پایا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جاؤ ان لوگوں کی خبریں مجھے لا دو اور انہیں میرے خلاف بھڑکا نہ دینا۔‘‘ (کوئی ایسی بات یا حرکت نہ کرنا کہ تم پکڑے جاؤ، اور وہ میرے خلاف بھڑک اٹھیں) جب میں آپﷺ کے پاس سے گیا تو میری حالت یہ ہو گئی جیسے میں حمام میں چل رہا ہوں، (پسینے میں نہایا ہوا تھا) یہاں تک کہ میں ان کے پاس پہنچا، میں نے دیکھا کہ ابوسفیان اپنی پشت آگ سے سینک رہا ہے، میں نے تیر کو کمان کی وسط میں رکھا اور اس کو نشانہ بنا دینا چاہا، پھر مجھے رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان یاد آ گیا کہ ’’انہیں میرے خلاف بھڑکا نہ دینا‘‘ (کہ جنگ اور تیز ہو جائے) اگر میں اس وقت تیر چلا دیتا تو وہ نشانہ بن جاتا، میں لوٹا تو (مجھے ایسے لگ رہا تھا) جیسے میں حمام میں چل رہا ہوں، پھر جب میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے آپﷺ کو ان لوگوں کی (ساری) خبر بتائی اور میں فارغ ہوا تو مجھے ٹھنڈ لگنے لگی، رسول اللہ ﷺ نے مجھے (اپنی اس) عبا کا بچا ہوا حصہ اوڑھا دیا جو آپ (کے جسم اطہر) پر تھی، آپﷺ اس میں نماز پڑھ رہے تھے۔ میں (اس کو اوڈھ کر) صبح تک سوتا رہا، جب صبح ہوئی تو آپﷺ نے فرمایا: ’’اے خوب سونے والے! اُٹھ جاو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابراہیم تیمی اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس تھے تو ایک آدمی نے کہا، اگر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پا لیتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں جنگ میں شریک ہوتا اور خوب جوہر دکھاتا تو حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا تو یہ کام کرتا؟ واقعہ یہ ہے، ہم نے اپنے آپ کو احزاب کی رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس حال میں دیکھا کہ سخت ہوا اور سردی سے ہم دوچار تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا کوئی آدمی ہے جو مجھے دشمن کے حالات معلوم کر کے بتائے، اللہ قیامت کے دن اسے میری رفاقت نصیب کرے گا؟‘‘ تو ہم سب خاموش ہو گئے، ہم میں سے کسی نے آپﷺ کو جواب نہ دیا، آپﷺ نے پھر فرمایا: ’’کیا کوئی آدمی ہے، جو ہمیں دشمن کے بارے میں معلومات فراہم کرے، اللہ اسے قیامت کے دن میرا ساتھ عنایت فرمائے گا؟‘‘ تو ہم خاموش ہو گئے اور ہم میں سے کسی نے آپ کو جواب نہ دیا، پھر آپ نے تیسری بات فرمایا، ’’کیا کوئی مرد ہے، جو ہمارے پاس ان لوگوں کے حالات معلوم کر کے لائے، اللہ اسے قیامت کے دن میری معیت نصیب کرے گا؟‘‘ تو ہم خاموش ہو گئے اور ہم میں سے کسی نے آپ کو جواب نہ دیا تو آپﷺ نے فرمایا: ’’اے حذیفہ، ہمیں ان لوگوں کے بارے میں معلومات پہنچاؤ۔‘‘ تو میرے لیے جانے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا نام لے کر کہا کہ میں اٹھوں، آپﷺ نے فرمایا: ’’جاؤ، میرے پاس ان کے بارے میں معلومات حاصل کر کے آؤ اور انہیں میرے خلاف نہ بھڑکانا۔‘‘ تو جب میں آپ کے پاس سے چل پڑا تو مجھے یوں محسوس ہوا کہ میں حمام میں چل رہا ہوں حتی کہ میں ان کے پاس پہنچ گیا تو میں نے ابو سفیان کو دیکھا کہ وہ آگ سے اپنی پشت تاپ رہا ہے تو میں نے کمان کے درمیان تیر رکھ لیا اور اس کو نشانہ بنانا چاہا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان یاد آگیا، ’’انہیں میرے خلاف نہ بھڑکانا۔‘‘ اگر میں اس پر تیر پھینکتا تو وہ نشانہ پر لگتا تو میں واپس لوٹا اور مجھے یوں لگ رہا تھا، جیسے میں حمام میں چل رہا ہوں تو جب میں آپ کے پاس پہنچا اور آپ کو ان لوگوں کے حالات سے آگاہ کر کے فارغ ہوا تو مجھے سردی لگنے لگی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس چادر (کمبلی) کا زائد حصہ پہنایا، (مجھ پر ڈال دیا) جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی تو میں صبح تک سویا رہا تو جب صبح ہو گئی تو آپ نے فرمایا: ’’اٹھ، اے سوتڑ۔‘‘
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
(1) أَنْتَ كُنْتَ تَفْعَلُ ذَالِكَ: یہ استفہام انکاری ہے کہ تو سمجھتا ہے، میں اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوتا تو آپ کی خوب مدد کرتا اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے زیادہ جوہر دکھاتا جو ناممکن بات ہے۔ (2) قُرٌّ: شدید سردی۔ (3) فَلَم يُجِبْهُ أَحَدٌ: یعنی انتہائی جانثار اور فدا کار صحابہ، جنگ خندق کے حالات سے اس قدر تھک اور ہار گئے کہ اس عظیم بشارت کو بار بار سن کر بھی جانے کے لیے تیار نہ ہوئے، حالانکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت و حمایت میں ہر قسم کے خطرات اور مصائب میں کود جانے کے لیے ہر وقت تیار رہتے تھے تو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا مدد کرتا۔ (4) لَاتَزْعَرْهُمْ عَلَيَّ: انہیں میرے خلاف نہ بھڑکانا کہ تم کچھ چھیڑ خانی کرو اور وہ تمہارے پیچھے لگ جائیں۔ (5) كَأَنَّمَا أَمْشِي فِي الْحَمَّام: لوگ سردی میں ٹھٹھر رہے تھے، لیکن میں تیز ہوا اور سردی کی ٹھنڈک سے محفوظ گرمی میں چل رہا تھا اور یہ آپ کے حکم کے امتثال اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا نتیجہ تھا کہ جب تک وہ آپ کے کام میں مصروف رہے، انہیں سردی محسوس نہیں ہوئی اور جب اس کام سے فارغ ہو گئے تو انہیں سردی لگنے لگی۔ نومان: سوتڑ، بہت سونے والا، یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دل لگی کرتے ہوئے فرمائی۔
فوائد ومسائل
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق، مشرکین مکہ کے درمیان جا گھسے اور جنود اللہ نے ان کا برا حشر کر رکھا تھا، ان کی ہانڈیاں الٹ دیں، خیمے اکھاڑ دیئے، آگ بے قرار ہو رہی تھی تو ابو سفیان نے اٹھ کر کہا، اے قریش کی جماعت، ہر انسان اپنے اردگرد دیکھ لے؟ اپنے ساتھی کو پہچان لے (کہ کہیں مسلمانوں کا جاسوس موجود نہ ہو) حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، میں نے اپنے ساتھ والے کا ہاتھ پکڑ لیا اور پوچھا تو کون ہے؟اس نے کہا، میں فلاں بن فلاں ہوں، (اپنا نام بتایا) پھر ابو سفیان نے کہا، اے قریش کے لوگو: اللہ کی قسم: اب یہاں رہنا تمہارے لیے ممکن نہیں ہے، گھوڑے اور اونٹ ہلاک ہو رہےہیں، بنو قریظہ نے ہمارے ساتھ بد عہدی کی ہے اور ان کی طرف سے ناپسندیدہ باتیں ہم تک پہنچ رہی ہیں اور تیز ہوانے ہمارا جو حشر کیا ہے، وہ تمہارے سامنے ہے، کوچ کرو، میں تو چل رہا ہوں، پھر وہ اپنے اونٹ کے پاس گیا، جو بندھا ہواتھا، اس پر بیٹھ کر اس کو ایڑھ لگائی تو وہ تین پاؤں پر اچھل پڑا، اللہ کی قسم: اس نے کھڑے اونٹ کا زانو بند کھولا اور اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تلقین نہ ہوتی کہ میرے پاس واپس آنے تک کوئی حرکت نہ کرنا تو میں اسے قتل کر ڈالتا، پھر میں واپس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ گیا اور آپﷺ کھڑے نمازپڑھ رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ازواج مطہرات میں سے کسی کی چادر تھی، غزوہ خندق شوال 5ھ میں پیش آیا اور مشرکین نے تقریباً ایک ماہ تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کا محاصرہ جاری رکھا، جس کا آغاز شوال سے ہوا اور خاتمہ ذی قعدہ میں۔ تفصیلات کے لیے، الرحیق المختوم دیکھئے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It has been narrated by Ibrahim al-Taimi on the authority of his father who said: We were sitting in the company of Hudhaifa. A man said: If I were in the time of the Messenger of Allah (ﷺ) , I would have fought by his side and would have striven hard for his causes. Hudhaifa said: You might have done that, (but you should not make a flourish of your enthusiasm). I was with the Messenger of Allah (ﷺ) on the night of the Battle of Abzab and we were gripped by a violent wind and severe cold. The Messenger of Allah (ﷺ) (may peace be him) said: Hark, the man who (goes reconnoitring and) brings me the news of the enemy shall be ranked with me on the Day of Judgment by Allah (the Glorious and Exalted). We all kept quiet and none of us responded to him. (Again) he said: Hark, a man who (goes reconnoitring and) brings me the news of the enemy shall be ranked with me on the Day of Judgment by Allah (the Glorious and Exalted). We kept quiet and none of us responded to him. He again said: Hark, a man who (goes reconnoitring and) brings me the news of the enemy shall be ranked with me on the Day of Judgtuent by Allah (the Glorious and Exalted) Then he said: Get up Hudhaifa, bring me the news of the enemy. When he called me by name I had no alternative but to get up. He said: Go and bring me information about the enemy, and do nothing that may provoke them against me. When I left him, I felt warm as if I were walking in a heated bath until I reached them. I saw Abu Sufyan (RA) warming his back against fire I put an arrow in the middle of the bow intending to shoot at him, when I recalled the words of the Messenger of Allah (ﷺ) "Do not provoke them against me." Had I shot at him, I would have hit him. But I returned and (felt warm as if) I were walking in a heated bath (hammam). Presenting myself before him, I gave him information about the enemy. When I had done so, I began to feel cold, so the Messenger of Allah (ﷺ) wrapped me in a blanket that he had in excess to his own requirement and with which he used to cover himself while saying his prayers. So I continued to sleep until it was morning. When it was morning he said: Get up, O heavy sleeper.