باب: سب سے پہلے خلیفہ اور اس کے بعد جو سب سے پہلے ہو اس کی بیعت کے ساتھ وفاداری واجب ہے
)
Muslim:
The Book on Government
(Chapter: The obligation of fulfilling oaths of allegiance is owed to the first of two Caliphs)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1842.
شعبہ نے ہمیں فرات قزاز سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابوحازم سے روایت کی کہ میں پانچ سال حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کا ہم مجلس رہا، میں نے ان کو نبی ﷺ کی یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا: ’’بنو اسرائیل کے انبیاء ان کا اجتماعی نظام چلاتے تھے، جب ایک نبی فوت ہوتا تو دوسرا نبی اس کا جانشیں ہوتا اور (اب) بلاشبہ میرے بعد کوئی نبی نہیں، اب خلفاء ہوں گے اور کثرت سے ہوں گے۔‘‘ صحابہ نے عرض کی: آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’پہلے اور اس کے بعد پھر پہلے کی بیعت کے ساتھ وفا کرو، انہیں ان کا حق دو اور (تمہارے حقوق کی) جو ذمہ داری انہیں دی ہے اس کے متعلق اللہ خود ان سے سوال کرے گا۔‘‘
اللہ تعالیٰ نےاپنی افضل ترین مخلوق (انسان)کی تخلیق اس طرح فرمائی ہےکہ مختلف اعضاءمختلف خدمات سرانجام دیتےہیں۔ ان کوسب کوسمجھنے،ان سےخدمات حاصل کرنےاورپورےجسم کی بہبوداوراس کی حفاظت کےلیے فیصلےکرنےکاکام سرکےاندررکھےہوئےدماغ کےسپردہے۔ اسلام سےپہلےعرب کےمختلف قبائل اپنےاپنےطورپرفیصلےکرتےتھے۔ رسول اللہﷺ نےایک منظم معاشرہ تشکیل دےکرسارےمعاشرےکی حفاظت ونگہداشت ، اس کےافرادکی انفرادی اوراجتماعی ضروریات کی تکمیل ،ہررکن کی فلاح وغیرہ کی ذمہ داری سربراہ کےسپردکردی۔ امیر،ان تمام امورکاذمہ دارٹھہرایاگیا۔ امارت انہی ذمہ داریوں کی ادائیگی کانام ہے۔ بعض اوقات ان ذمہ داریوں کی ادائیگی کےبغیرہی کوئی شخص سربراہ کےمنصب پرقابض ہوجاتاہے،وہ حقیقی معنی میں امیرنہیں ہوتا۔ نظام امارت کےحوالےسےاہم ترین بات یہ ہےکہ امیرایساہوکہ لوگوں کی بڑی اکثریت اس کی اطاعت کرنےپرآمادہ ہو،بلکہ وہ ایسےلوگوں میں سےہوکہ عامۃ الناس ان کی اطاعت کےعادی ہوں۔ قرآن یک روسےمومنوں کی امارت مومنوں کےمشورےپرمنحصرہے(وَأَمْرُهُمْ شُورَى)’’اوران کاکام آپس میں مشورہ کرناہے۔‘‘(الشوریٰ 38:42)اورحدیث کی روسےامیران لوگوں میں سےمنتخب ہوناچاہیےجن کی اطاعت فطری ہو۔ رسول اللہﷺ نےشوریٰ کےذریعےسےاپناامیرمنتخب کرنےکی پوری ذمہ داری امت پرڈالی ،کسی کواپناجانشین مقررنہیں کیا۔ مختلف احادیث سےپتہ چلتاہےکہ آپﷺ کےبعدکیاہوگا،اس کےحوالےسےاللہ تعالیٰ نےبہت سی تفصیلات سےآپﷺ کوآگاہ کردیاتھا۔ آپ نےخبردینےکےانداز میں امت کی رہنمائی کرنےوالی قوم ،یعنی عرب قریش کےپیچھےچلتےہیں مسلمان بھی اورکافربھی،دونوں کےرہنماقریشی ہی ہیں، اس لیے ان حالات میں امام (رہنمااورحکمران)قریش ہی میں سےہوں گے۔ یہ خبربھی ہےاورہنمائی بھی۔ ’’الناس‘‘کالفظ عربی میں سیاق وسباق کےمطابق بہت وسیع(پوری انسانیت کے)معنی میں بھی استعمال ہوااورنسبتا محدودبلکہ مخصوص معنیٰ میں ان لوگوں کےلیے بھی جنہوں نےخاص تربیت حاصل کی ،ہم مقصدہوئے،بڑی ذمہ داریوں کےامین اوربڑی خوبیوں کےمالک ہوئے۔ قرآن میں یہ لفظ رسول اللہﷺ پرایمان لانےوالوں ،یعنی صحابہ کےلیے استعمال ہوا:( وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ)’’اورجب کہاگیاان سےکہ ایمان لاؤجیسےصحابہ ایمان لائے۔ ‘‘ (البقرۃ 13:2)یہ رسول اللہﷺ کےساتھی ،جاں نثار،آپ کےمشن کےامانت دار،آپ کی تربیت کانمونہ اورآدم کی اولادمیں سےبہترین امت تھے۔ مستقبل کےحوالےسےآپ کوجوکچھ دکھایاگیااس میں مثبت اورمنفی دونوں طرح واقعات تھے۔ ان کےساتھ ہی ،آپ کی تسلی کےلیے آپ کودکھایاگیاکہ ان مخصوص لوگوں میں سے جب تک دواشخاص بھی موجودہوں گےتوامارت کےنظام کابنیادی عنصر،یعنی’’سمع وطاعت‘‘کاسلسلہ محفوظ ہوگا۔ مشکلات کےباوجودحکمران انہی میں ہوں گےجن کی لوگ اطاعت کرتےہیں۔ اسی بات کوبارہ حکمرانوں کےحوالےسےبھی بیان کیاگیا۔ بعدمیں بتدریج انتظامی معاملات ،عملادوسروں کےہاتھ میں جانےشروع ہوگئے۔
خلافت راشدہ کےدوران میں ایک حکمران کےبعددوسرےکی جانشینی کاطریق کارحالات کےمطابق مختلف رہا،لیکن بنیادشوریٰ پررہی۔ کبھی اس شوریٰ میں جانےوالاامام شریک بھی ہوا۔ جس طرح ابوبکرکوشریک کیاگیااوریہ بھی ہواکہ جانےوالےنےشوریٰ میں شرکت کےبجائےساری ذمہ داری بعدوالوں پرڈال دی۔ اس کی مثال حضرت عمر کاطریقہ ہے۔ حضرت عثمان کےبعدحضرت علینےبھی اسی طریقےپرعمل کیااوریہی خودرسالت مآبﷺ کاطریقہ تھاکہ ایک امام کےبعداگلےکاانتخاب وہی لوگ باہمی مشاورت سےکریں جوموجودہوں۔
امارت کی صلاحیت کےساتھ ساتھ عدم صلاحیت کی وضاحت بھی ضروری ہے۔امام مسلم نےاس حوالےسےوہ احادیث بیان کیں جن میں یہ صراحت ہےکہ جوشخص عہدےکاطلبگارہووہی اصلااس صلاحیت سےمحرومم قرارپاتاہے۔ یہ بھی وضاحت ہےکہ یہ ذمہ داری ہے،اس کی خواہش کرناغلط ہے۔یہ ذمہ داری بغیرخواہش کےجس کےکندھےپرڈالی گئی ،اللہ کی طرف سےاس کی اعانت ہوگی اورجسےخواہش پرملی وہ تنہااس کواٹھائےگا۔ جب کسی پرذمہ داری پڑجائےاوروہ اس کاحق اداکرنےکی کوشش کرے،عدل سےکام لے،لوگوں کومشکلات سےبچائےاورانہیں اآسانیاں فراہم کرنےکی کوشش کرےتوآخرت میں بھی اس اجربہت بڑاہوگا۔
امیرچونکہ لوگوں کےاجتماعی اموال کاامین ہوتاہےاس لیے اس کی خیانت،بہت سنگین جرم ہےاوراس کےلیے سخت ترین عذاب کی وعیدہے۔ کھلی خیانت کےعلاوہ بہت سےدوسرےمعاملات بھی مخدوش ہیں۔ اس کی مثال لوگوں کی طرف سےملنےوالے’’ہدیے‘‘ہیں۔ رسول اللہﷺنےاس معاملےمیں انتہائی احتیاط کاحکم دیا۔ پھرامام مسلم نےایسی احادیث بیان کیں جن میں امیرکی اطاعت کی حدودمتعین کی گئی ہیں۔بنیادی اصول یہ ہےکہ اچھےکاموں میں اطاعت کی جائےاورگناہوں میں عدم اطاعت سےکام لیاجائےکیونکہ امیرکی اطاعت اللہ کی اطاعت کی وجہ سےاوراسی کےحکم پرہے۔ اللہ کی نافرمانی میں کسی اطاعت جائزنہیں۔
اس کےبعدامام کی ذمہ داریوں میں سےاہم ترین ذمہ داری ،یعنی مسلمانوں کےتحفظ دفاع اوراس غرض سےقتال وجہادکےحوالےسےامیرکےبنیادی اورمرکزی کردارکاتذکرہ ہے،پھرخلافت کےحوالےسےپیداہونےوالےجھگڑوں سےنپٹنےکےبارےمیں رہنمائی ہے، پھراس بات کابیان ہےکہ اگرحکمران مکمل طورپراللہ سےبغاوت نہیں کرتے،نمازقائم کرتےرہتےہوتونظام کی حفاظت کےعظیم مقصدکےلیےان کےظلم پربھی صبرکرنادانائی ہے، اس کےبعدملت کےاتحاد کےتحفظ کےبارےمیں رہنمائی ہے،اس طرح جوکوئی انتشارکاسبب بنےاس سےچھٹکاراحاصل کرناضروری ہے،پھرحکمرانوں کی رہنمائی کےلیے مختلف ابواب ہیں۔ اچھےاوربرےحکمرانوں کی صفات کیاہیں؟ اہم مراحل میں لوگوں کوساتھ رکھنےکےلیے ان کی مشاورت اورخصوصی مشن کےلیے ان کی بیعت کےحوالےسےرہنمائی مہیاکی گئی ہے۔ یہ بھی وضاحت کی گئی کہ رسول اللہﷺ نےکن مراحل میں کن امورپربیعت کی ۔ اس کتاب کےآخری آدھےحصےمیں مختلف ابواب کےتحت امیرکی اہم ترین ذمہ داری مسلمانوں کےتحفظ اوردفاع کی اہمیت اوراس کی کماحقہ تیاری کےحوالےسےاحادیث بیان کی گئی ہیں۔ کتاب الامارہ انتہائی جامع کتابوں میں سےایک ہے۔
شعبہ نے ہمیں فرات قزاز سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابوحازم سے روایت کی کہ میں پانچ سال حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کا ہم مجلس رہا، میں نے ان کو نبی ﷺ کی یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا: ’’بنو اسرائیل کے انبیاء ان کا اجتماعی نظام چلاتے تھے، جب ایک نبی فوت ہوتا تو دوسرا نبی اس کا جانشیں ہوتا اور (اب) بلاشبہ میرے بعد کوئی نبی نہیں، اب خلفاء ہوں گے اور کثرت سے ہوں گے۔‘‘ صحابہ نے عرض کی: آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’پہلے اور اس کے بعد پھر پہلے کی بیعت کے ساتھ وفا کرو، انہیں ان کا حق دو اور (تمہارے حقوق کی) جو ذمہ داری انہیں دی ہے اس کے متعلق اللہ خود ان سے سوال کرے گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابو حازم بیان کرتے ہیں، میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت میں پانچ سال رہا، میں نے ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث سنی، آپﷺ نے فرمایا: ’’بنو اسرائیل کے معاملات کی نگہداشت انبیاء کرتے تھے، جب ایک نبی فوت ہو جاتا تو دوسرا نبی اس کا خلیفہ بنتا اور صورت حال یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور خلفاء ہوں گے اور بکثرت ہوں گے‘‘ صحابہ کرام نے پوچھا، تو آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’سب سے پہلے کی بیعت کو پورا کرو اور ان کو ان کا حق دو (ان کی معروف میں اطاعت کرو) اور اللہ تعالیٰ نے ان کو جن لوگوں کا نگران بنایا ہے، ان کے متعلق وہ خود ان سے پوچھے گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
تَسُوسُهُمُ الأَنبِيَاء: ان کے معاملات کی نگہداشت اور نگرانی انبیاء کرتے تھے اور ان کے مفادات کے محافظ بھی تھے۔
فوائد ومسائل
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے، انسانوں کے دینی معاملات کی طرح، ان کے دنیوی معاملات کے نگران اور محافظ بھی انبیاء ہوتے تھے، دین اور دنیا میں امتیاز نہ تھا، لیکن چونکہ آپ سے پہلے انبیاء کا سلسلہ جاری تھا، اس لیے ایک نبی کی وفات کے بعد لوگوں کے دینی اور دنیوی امور کی دیکھ بھال اور نگرانی کے لیے اس کی جگہ دوسرا نبی آ جاتا تھا، لیکن آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آ سکتا، کیونکہ آپ پر نبوت ختم ہو گئی ہے، اس لیے آپ کے بعد خلفاء کا سلسلہ شروع ہوا، جب ایک خلیفہ کے بعد (کیونکہ وہ فوت ہو گیا ہے) دوسرے کی بیعت کر لی جائے، تو اس کے بعد کسی اور خلیفہ کی بیعت نہیں کی جا سکتی، جس سے معلوم ہوتا ہے، مسلمانوں کا ایک ہی خلیفہ ہونا چاہیے اور پھر معروف میں اس کی اطاعت کرنی چاہیے، اگر وہ کسی ایسی بات کا حکم دے، جو رعایا کی طبیعت کے خلاف ہے، یا کسی کی ذاتی رائے کے خلاف ہے، تو اپنی طبیعت اور رائے کو نظر انداز کرنا ضروری ہے، جبکہ حاکم کی بات شریعت کے خلاف نہ ہو اور اگر حاکم رعایا کے حقوق ادا نہیں کرتا، تو اللہ تعالیٰ خود اس سے باز پرس کرے گا، رعایا کو اس کے خلاف محاذ قائم نہیں کرنا چاہیے، لیکن آج ہماری بدقسمتی ہے کہ ہر ایک حقوق کا مطالبہ کرتا ہے، اپنے فرائض کی ادائیگی پر تیار نہیں ہے، اس لیے مختلف طبقات میں طبقاتی جنگ میں جاری رہتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It has been narrated by Abu Hurairah (RA) that the Holy Prophet (ﷺ) (may pceace be upon him) said: Banu Isra'il were ruled over by the Prophets. When one Prophet (ﷺ) died, another succeeded him; but after me there is no prophet and there will be caliphs and they will be quite large in number. His Companions said: What do you order us to do (in case we come to have more than one Caliph)? He said: The one to whom allegiance is sworn first has a supremacy over the others. Concede to them their due rights (i. e. obey them). God (Himself) will question them about the subjects whom He had entrusted to them.