باب: گھوڑ سواری میں مقابلہ اور گھوڑوں کودبلا کر کے جفاکش بنانا
)
Muslim:
The Book on Government
(Chapter: Horse Races and Training Horses for Racing)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1870.
امام مالک نے نافع سے، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسے گھوڑوں کی حفیاء کے مقام سے مسابقت (دوڑ) کروائی جنہیں (عربی طریقے سے) فالتو چربی زائل کر کے سبک اندام بنایا گیا تھا۔ ان کی دوڑ ثنیۃ الوداع تک تھی اور جن کو سبک اندام نہ بنایا گیا تھا ان کی دوڑ ثنیہ سے مسجد بنی زُریق تک کرائی۔ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما ان میں شامل تھے جنہوں نے گھوڑے دوڑائے۔
تشریح:
فوائدومسائل:
1۔ حفیاء زیریں طرف سے مدینہ منورہ سے چھ یا سات میل کے فاصلے پر ایک مقام کا نام ہے۔ 2۔ گھوڑوں کی تضمیر (دبلا کر کے سَبک اندام بنانے) کا طریقہ یہ تھا کہ پہلے ان کو خوب کھلایا جاتا، پھر تدریج خوراک گھٹائی جاتی، اندر باندھا جاتا، ان کے جسم پر کپڑے وغیرہ ڈالے جاتے اور اس طرح پسینے کے ذریعے سے ان کی چربی بگھلا کر انھیں جفاکش اور تیر رفتار بنایا جاتا تھا۔
اللہ تعالیٰ نےاپنی افضل ترین مخلوق (انسان)کی تخلیق اس طرح فرمائی ہےکہ مختلف اعضاءمختلف خدمات سرانجام دیتےہیں۔ ان کوسب کوسمجھنے،ان سےخدمات حاصل کرنےاورپورےجسم کی بہبوداوراس کی حفاظت کےلیے فیصلےکرنےکاکام سرکےاندررکھےہوئےدماغ کےسپردہے۔ اسلام سےپہلےعرب کےمختلف قبائل اپنےاپنےطورپرفیصلےکرتےتھے۔ رسول اللہﷺ نےایک منظم معاشرہ تشکیل دےکرسارےمعاشرےکی حفاظت ونگہداشت ، اس کےافرادکی انفرادی اوراجتماعی ضروریات کی تکمیل ،ہررکن کی فلاح وغیرہ کی ذمہ داری سربراہ کےسپردکردی۔ امیر،ان تمام امورکاذمہ دارٹھہرایاگیا۔ امارت انہی ذمہ داریوں کی ادائیگی کانام ہے۔ بعض اوقات ان ذمہ داریوں کی ادائیگی کےبغیرہی کوئی شخص سربراہ کےمنصب پرقابض ہوجاتاہے،وہ حقیقی معنی میں امیرنہیں ہوتا۔ نظام امارت کےحوالےسےاہم ترین بات یہ ہےکہ امیرایساہوکہ لوگوں کی بڑی اکثریت اس کی اطاعت کرنےپرآمادہ ہو،بلکہ وہ ایسےلوگوں میں سےہوکہ عامۃ الناس ان کی اطاعت کےعادی ہوں۔ قرآن یک روسےمومنوں کی امارت مومنوں کےمشورےپرمنحصرہے(وَأَمْرُهُمْ شُورَى)’’اوران کاکام آپس میں مشورہ کرناہے۔‘‘(الشوریٰ 38:42)اورحدیث کی روسےامیران لوگوں میں سےمنتخب ہوناچاہیےجن کی اطاعت فطری ہو۔ رسول اللہﷺ نےشوریٰ کےذریعےسےاپناامیرمنتخب کرنےکی پوری ذمہ داری امت پرڈالی ،کسی کواپناجانشین مقررنہیں کیا۔ مختلف احادیث سےپتہ چلتاہےکہ آپﷺ کےبعدکیاہوگا،اس کےحوالےسےاللہ تعالیٰ نےبہت سی تفصیلات سےآپﷺ کوآگاہ کردیاتھا۔ آپ نےخبردینےکےانداز میں امت کی رہنمائی کرنےوالی قوم ،یعنی عرب قریش کےپیچھےچلتےہیں مسلمان بھی اورکافربھی،دونوں کےرہنماقریشی ہی ہیں، اس لیے ان حالات میں امام (رہنمااورحکمران)قریش ہی میں سےہوں گے۔ یہ خبربھی ہےاورہنمائی بھی۔ ’’الناس‘‘کالفظ عربی میں سیاق وسباق کےمطابق بہت وسیع(پوری انسانیت کے)معنی میں بھی استعمال ہوااورنسبتا محدودبلکہ مخصوص معنیٰ میں ان لوگوں کےلیے بھی جنہوں نےخاص تربیت حاصل کی ،ہم مقصدہوئے،بڑی ذمہ داریوں کےامین اوربڑی خوبیوں کےمالک ہوئے۔ قرآن میں یہ لفظ رسول اللہﷺ پرایمان لانےوالوں ،یعنی صحابہ کےلیے استعمال ہوا:( وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ)’’اورجب کہاگیاان سےکہ ایمان لاؤجیسےصحابہ ایمان لائے۔ ‘‘ (البقرۃ 13:2)یہ رسول اللہﷺ کےساتھی ،جاں نثار،آپ کےمشن کےامانت دار،آپ کی تربیت کانمونہ اورآدم کی اولادمیں سےبہترین امت تھے۔ مستقبل کےحوالےسےآپ کوجوکچھ دکھایاگیااس میں مثبت اورمنفی دونوں طرح واقعات تھے۔ ان کےساتھ ہی ،آپ کی تسلی کےلیے آپ کودکھایاگیاکہ ان مخصوص لوگوں میں سے جب تک دواشخاص بھی موجودہوں گےتوامارت کےنظام کابنیادی عنصر،یعنی’’سمع وطاعت‘‘کاسلسلہ محفوظ ہوگا۔ مشکلات کےباوجودحکمران انہی میں ہوں گےجن کی لوگ اطاعت کرتےہیں۔ اسی بات کوبارہ حکمرانوں کےحوالےسےبھی بیان کیاگیا۔ بعدمیں بتدریج انتظامی معاملات ،عملادوسروں کےہاتھ میں جانےشروع ہوگئے۔
خلافت راشدہ کےدوران میں ایک حکمران کےبعددوسرےکی جانشینی کاطریق کارحالات کےمطابق مختلف رہا،لیکن بنیادشوریٰ پررہی۔ کبھی اس شوریٰ میں جانےوالاامام شریک بھی ہوا۔ جس طرح ابوبکرکوشریک کیاگیااوریہ بھی ہواکہ جانےوالےنےشوریٰ میں شرکت کےبجائےساری ذمہ داری بعدوالوں پرڈال دی۔ اس کی مثال حضرت عمر کاطریقہ ہے۔ حضرت عثمان کےبعدحضرت علینےبھی اسی طریقےپرعمل کیااوریہی خودرسالت مآبﷺ کاطریقہ تھاکہ ایک امام کےبعداگلےکاانتخاب وہی لوگ باہمی مشاورت سےکریں جوموجودہوں۔
امارت کی صلاحیت کےساتھ ساتھ عدم صلاحیت کی وضاحت بھی ضروری ہے۔امام مسلم نےاس حوالےسےوہ احادیث بیان کیں جن میں یہ صراحت ہےکہ جوشخص عہدےکاطلبگارہووہی اصلااس صلاحیت سےمحرومم قرارپاتاہے۔ یہ بھی وضاحت ہےکہ یہ ذمہ داری ہے،اس کی خواہش کرناغلط ہے۔یہ ذمہ داری بغیرخواہش کےجس کےکندھےپرڈالی گئی ،اللہ کی طرف سےاس کی اعانت ہوگی اورجسےخواہش پرملی وہ تنہااس کواٹھائےگا۔ جب کسی پرذمہ داری پڑجائےاوروہ اس کاحق اداکرنےکی کوشش کرے،عدل سےکام لے،لوگوں کومشکلات سےبچائےاورانہیں اآسانیاں فراہم کرنےکی کوشش کرےتوآخرت میں بھی اس اجربہت بڑاہوگا۔
امیرچونکہ لوگوں کےاجتماعی اموال کاامین ہوتاہےاس لیے اس کی خیانت،بہت سنگین جرم ہےاوراس کےلیے سخت ترین عذاب کی وعیدہے۔ کھلی خیانت کےعلاوہ بہت سےدوسرےمعاملات بھی مخدوش ہیں۔ اس کی مثال لوگوں کی طرف سےملنےوالے’’ہدیے‘‘ہیں۔ رسول اللہﷺنےاس معاملےمیں انتہائی احتیاط کاحکم دیا۔ پھرامام مسلم نےایسی احادیث بیان کیں جن میں امیرکی اطاعت کی حدودمتعین کی گئی ہیں۔بنیادی اصول یہ ہےکہ اچھےکاموں میں اطاعت کی جائےاورگناہوں میں عدم اطاعت سےکام لیاجائےکیونکہ امیرکی اطاعت اللہ کی اطاعت کی وجہ سےاوراسی کےحکم پرہے۔ اللہ کی نافرمانی میں کسی اطاعت جائزنہیں۔
اس کےبعدامام کی ذمہ داریوں میں سےاہم ترین ذمہ داری ،یعنی مسلمانوں کےتحفظ دفاع اوراس غرض سےقتال وجہادکےحوالےسےامیرکےبنیادی اورمرکزی کردارکاتذکرہ ہے،پھرخلافت کےحوالےسےپیداہونےوالےجھگڑوں سےنپٹنےکےبارےمیں رہنمائی ہے، پھراس بات کابیان ہےکہ اگرحکمران مکمل طورپراللہ سےبغاوت نہیں کرتے،نمازقائم کرتےرہتےہوتونظام کی حفاظت کےعظیم مقصدکےلیےان کےظلم پربھی صبرکرنادانائی ہے، اس کےبعدملت کےاتحاد کےتحفظ کےبارےمیں رہنمائی ہے،اس طرح جوکوئی انتشارکاسبب بنےاس سےچھٹکاراحاصل کرناضروری ہے،پھرحکمرانوں کی رہنمائی کےلیے مختلف ابواب ہیں۔ اچھےاوربرےحکمرانوں کی صفات کیاہیں؟ اہم مراحل میں لوگوں کوساتھ رکھنےکےلیے ان کی مشاورت اورخصوصی مشن کےلیے ان کی بیعت کےحوالےسےرہنمائی مہیاکی گئی ہے۔ یہ بھی وضاحت کی گئی کہ رسول اللہﷺ نےکن مراحل میں کن امورپربیعت کی ۔ اس کتاب کےآخری آدھےحصےمیں مختلف ابواب کےتحت امیرکی اہم ترین ذمہ داری مسلمانوں کےتحفظ اوردفاع کی اہمیت اوراس کی کماحقہ تیاری کےحوالےسےاحادیث بیان کی گئی ہیں۔ کتاب الامارہ انتہائی جامع کتابوں میں سےایک ہے۔
امام مالک نے نافع سے، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسے گھوڑوں کی حفیاء کے مقام سے مسابقت (دوڑ) کروائی جنہیں (عربی طریقے سے) فالتو چربی زائل کر کے سبک اندام بنایا گیا تھا۔ ان کی دوڑ ثنیۃ الوداع تک تھی اور جن کو سبک اندام نہ بنایا گیا تھا ان کی دوڑ ثنیہ سے مسجد بنی زُریق تک کرائی۔ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما ان میں شامل تھے جنہوں نے گھوڑے دوڑائے۔
حدیث حاشیہ:
فوائدومسائل:
1۔ حفیاء زیریں طرف سے مدینہ منورہ سے چھ یا سات میل کے فاصلے پر ایک مقام کا نام ہے۔ 2۔ گھوڑوں کی تضمیر (دبلا کر کے سَبک اندام بنانے) کا طریقہ یہ تھا کہ پہلے ان کو خوب کھلایا جاتا، پھر تدریج خوراک گھٹائی جاتی، اندر باندھا جاتا، ان کے جسم پر کپڑے وغیرہ ڈالے جاتے اور اس طرح پسینے کے ذریعے سے ان کی چربی بگھلا کر انھیں جفاکش اور تیر رفتار بنایا جاتا تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تضمیر شدہ گھوڑوں کا حفیاء سے ثنیۃ الوداع تک دوڑ کا مقابلہ کروایا اور غیر تضمیر شدہ کا، ثنیہ سے مسجد زریق تک مقابلہ کروایا، ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما نے بھی اس دوڑ میں حصہ لیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
اضمرت: تضمیر یہ ہے کہ گھوڑے کو پہلے خوب کھلا پلا کر موٹا تازہ کرتے ہیں، پھر آہستہ آہستہ چارہ کم کرتے رہتے ہیں اور اس کو جھل پہنا کر ایک کوٹھڑی میں بند کر دیتے ہیں، تاکہ اس کو خوب پسینہ آ کر خشک ہو،اس کا گوشت کم ہو، تاکہ وہ زیادہ تیز دوڑ سکے۔
فوائد ومسائل
بلا معاوضہ یا بلا شرط گھوڑوں کو مقابلہ میں دوڑانا بالاتفاق جائز ہے، اس طرح اگر کسی ایک پارٹی یا حکومت کی طرف سے اول آنے والے یا تمام شرکاء کے لیے کوئی انعام مقرر ہو تو پھر بھی بالاتفاق جائز ہے، اس طرح اگر رقم ایک طرف سے مقرر ہو، تو پھر بھی بالاتفاق جائز ہے، لیکن اگر جانبین سے شرط ہو تو یہ جوا ہے، جو بالاتفاق ناجائز ہے، اس طرح اگر دو گھوڑے دوڑانے والے، اپنی اپنی طرف سے رقم مقرر کر لیں اور تیسرے گھوڑے کو جو آگے نکل جانے کا احتمال رکھتا ہو، آگے یا پیچھے رہنا یقینی نہ ہو، شریک کر لیں تو پھر بھی مالکیہ کے سوا باقی ائمہ کے نزدیک جائز ہے، لیکن مالکیہ کے نزدیک اس صورت میں بھی جائز نہیں ہے، (المغني، ج 12، ص 413)۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It has been narrated on the authority of Ibn 'Umar that the Messenger of Allah (ﷺ) had a race of the horses which had been especially prepared for the purpose from Hafya' to Thaniyyat al-Wada' (the latter being the winning post), and of those which had not been trained from Thaniyya to the mosque of Banu Zuraiq, and Ibn 'Umar (RA) was among those who took part in this race.