Muslim:
The Book on Government
(Chapter: The virtue of Martyrdom in the cause of Allah)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1877.
ابو خالد احمر نے ہمیں شعبہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے قتادہ اور حُمید سے، انہوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے، انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی، فرمایا: ’’کوئی بھی ذی روح جو فوت ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کے لیے بھلائی موجود ہو، یہ بات پسند نہیں کرتا کہ وہ دنیا میں واپس جائے یا دنیا اور جو کچھ بھی دنیا میں ہے، اس کو مل جائے، سوائے شہید کے، صرف وہ شہادت کی جو فضیلت دیکھتا ہے اس کی وجہ سے اس بات کی تمنا کرتا ہے کہ وہ دنیا میں واپس جائے اور اللہ کی راہ میں (دوبارہ) شہید کیا جائے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نےاپنی افضل ترین مخلوق (انسان)کی تخلیق اس طرح فرمائی ہےکہ مختلف اعضاءمختلف خدمات سرانجام دیتےہیں۔ ان کوسب کوسمجھنے،ان سےخدمات حاصل کرنےاورپورےجسم کی بہبوداوراس کی حفاظت کےلیے فیصلےکرنےکاکام سرکےاندررکھےہوئےدماغ کےسپردہے۔ اسلام سےپہلےعرب کےمختلف قبائل اپنےاپنےطورپرفیصلےکرتےتھے۔ رسول اللہﷺ نےایک منظم معاشرہ تشکیل دےکرسارےمعاشرےکی حفاظت ونگہداشت ، اس کےافرادکی انفرادی اوراجتماعی ضروریات کی تکمیل ،ہررکن کی فلاح وغیرہ کی ذمہ داری سربراہ کےسپردکردی۔ امیر،ان تمام امورکاذمہ دارٹھہرایاگیا۔ امارت انہی ذمہ داریوں کی ادائیگی کانام ہے۔ بعض اوقات ان ذمہ داریوں کی ادائیگی کےبغیرہی کوئی شخص سربراہ کےمنصب پرقابض ہوجاتاہے،وہ حقیقی معنی میں امیرنہیں ہوتا۔ نظام امارت کےحوالےسےاہم ترین بات یہ ہےکہ امیرایساہوکہ لوگوں کی بڑی اکثریت اس کی اطاعت کرنےپرآمادہ ہو،بلکہ وہ ایسےلوگوں میں سےہوکہ عامۃ الناس ان کی اطاعت کےعادی ہوں۔ قرآن یک روسےمومنوں کی امارت مومنوں کےمشورےپرمنحصرہے(وَأَمْرُهُمْ شُورَى)’’اوران کاکام آپس میں مشورہ کرناہے۔‘‘(الشوریٰ 38:42)اورحدیث کی روسےامیران لوگوں میں سےمنتخب ہوناچاہیےجن کی اطاعت فطری ہو۔ رسول اللہﷺ نےشوریٰ کےذریعےسےاپناامیرمنتخب کرنےکی پوری ذمہ داری امت پرڈالی ،کسی کواپناجانشین مقررنہیں کیا۔ مختلف احادیث سےپتہ چلتاہےکہ آپﷺ کےبعدکیاہوگا،اس کےحوالےسےاللہ تعالیٰ نےبہت سی تفصیلات سےآپﷺ کوآگاہ کردیاتھا۔ آپ نےخبردینےکےانداز میں امت کی رہنمائی کرنےوالی قوم ،یعنی عرب قریش کےپیچھےچلتےہیں مسلمان بھی اورکافربھی،دونوں کےرہنماقریشی ہی ہیں، اس لیے ان حالات میں امام (رہنمااورحکمران)قریش ہی میں سےہوں گے۔ یہ خبربھی ہےاورہنمائی بھی۔ ’’الناس‘‘کالفظ عربی میں سیاق وسباق کےمطابق بہت وسیع(پوری انسانیت کے)معنی میں بھی استعمال ہوااورنسبتا محدودبلکہ مخصوص معنیٰ میں ان لوگوں کےلیے بھی جنہوں نےخاص تربیت حاصل کی ،ہم مقصدہوئے،بڑی ذمہ داریوں کےامین اوربڑی خوبیوں کےمالک ہوئے۔ قرآن میں یہ لفظ رسول اللہﷺ پرایمان لانےوالوں ،یعنی صحابہ کےلیے استعمال ہوا:( وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ)’’اورجب کہاگیاان سےکہ ایمان لاؤجیسےصحابہ ایمان لائے۔ ‘‘ (البقرۃ 13:2)یہ رسول اللہﷺ کےساتھی ،جاں نثار،آپ کےمشن کےامانت دار،آپ کی تربیت کانمونہ اورآدم کی اولادمیں سےبہترین امت تھے۔ مستقبل کےحوالےسےآپ کوجوکچھ دکھایاگیااس میں مثبت اورمنفی دونوں طرح واقعات تھے۔ ان کےساتھ ہی ،آپ کی تسلی کےلیے آپ کودکھایاگیاکہ ان مخصوص لوگوں میں سے جب تک دواشخاص بھی موجودہوں گےتوامارت کےنظام کابنیادی عنصر،یعنی’’سمع وطاعت‘‘کاسلسلہ محفوظ ہوگا۔ مشکلات کےباوجودحکمران انہی میں ہوں گےجن کی لوگ اطاعت کرتےہیں۔ اسی بات کوبارہ حکمرانوں کےحوالےسےبھی بیان کیاگیا۔ بعدمیں بتدریج انتظامی معاملات ،عملادوسروں کےہاتھ میں جانےشروع ہوگئے۔
خلافت راشدہ کےدوران میں ایک حکمران کےبعددوسرےکی جانشینی کاطریق کارحالات کےمطابق مختلف رہا،لیکن بنیادشوریٰ پررہی۔ کبھی اس شوریٰ میں جانےوالاامام شریک بھی ہوا۔ جس طرح ابوبکرکوشریک کیاگیااوریہ بھی ہواکہ جانےوالےنےشوریٰ میں شرکت کےبجائےساری ذمہ داری بعدوالوں پرڈال دی۔ اس کی مثال حضرت عمر کاطریقہ ہے۔ حضرت عثمان کےبعدحضرت علینےبھی اسی طریقےپرعمل کیااوریہی خودرسالت مآبﷺ کاطریقہ تھاکہ ایک امام کےبعداگلےکاانتخاب وہی لوگ باہمی مشاورت سےکریں جوموجودہوں۔
امارت کی صلاحیت کےساتھ ساتھ عدم صلاحیت کی وضاحت بھی ضروری ہے۔امام مسلم نےاس حوالےسےوہ احادیث بیان کیں جن میں یہ صراحت ہےکہ جوشخص عہدےکاطلبگارہووہی اصلااس صلاحیت سےمحرومم قرارپاتاہے۔ یہ بھی وضاحت ہےکہ یہ ذمہ داری ہے،اس کی خواہش کرناغلط ہے۔یہ ذمہ داری بغیرخواہش کےجس کےکندھےپرڈالی گئی ،اللہ کی طرف سےاس کی اعانت ہوگی اورجسےخواہش پرملی وہ تنہااس کواٹھائےگا۔ جب کسی پرذمہ داری پڑجائےاوروہ اس کاحق اداکرنےکی کوشش کرے،عدل سےکام لے،لوگوں کومشکلات سےبچائےاورانہیں اآسانیاں فراہم کرنےکی کوشش کرےتوآخرت میں بھی اس اجربہت بڑاہوگا۔
امیرچونکہ لوگوں کےاجتماعی اموال کاامین ہوتاہےاس لیے اس کی خیانت،بہت سنگین جرم ہےاوراس کےلیے سخت ترین عذاب کی وعیدہے۔ کھلی خیانت کےعلاوہ بہت سےدوسرےمعاملات بھی مخدوش ہیں۔ اس کی مثال لوگوں کی طرف سےملنےوالے’’ہدیے‘‘ہیں۔ رسول اللہﷺنےاس معاملےمیں انتہائی احتیاط کاحکم دیا۔ پھرامام مسلم نےایسی احادیث بیان کیں جن میں امیرکی اطاعت کی حدودمتعین کی گئی ہیں۔بنیادی اصول یہ ہےکہ اچھےکاموں میں اطاعت کی جائےاورگناہوں میں عدم اطاعت سےکام لیاجائےکیونکہ امیرکی اطاعت اللہ کی اطاعت کی وجہ سےاوراسی کےحکم پرہے۔ اللہ کی نافرمانی میں کسی اطاعت جائزنہیں۔
اس کےبعدامام کی ذمہ داریوں میں سےاہم ترین ذمہ داری ،یعنی مسلمانوں کےتحفظ دفاع اوراس غرض سےقتال وجہادکےحوالےسےامیرکےبنیادی اورمرکزی کردارکاتذکرہ ہے،پھرخلافت کےحوالےسےپیداہونےوالےجھگڑوں سےنپٹنےکےبارےمیں رہنمائی ہے، پھراس بات کابیان ہےکہ اگرحکمران مکمل طورپراللہ سےبغاوت نہیں کرتے،نمازقائم کرتےرہتےہوتونظام کی حفاظت کےعظیم مقصدکےلیےان کےظلم پربھی صبرکرنادانائی ہے، اس کےبعدملت کےاتحاد کےتحفظ کےبارےمیں رہنمائی ہے،اس طرح جوکوئی انتشارکاسبب بنےاس سےچھٹکاراحاصل کرناضروری ہے،پھرحکمرانوں کی رہنمائی کےلیے مختلف ابواب ہیں۔ اچھےاوربرےحکمرانوں کی صفات کیاہیں؟ اہم مراحل میں لوگوں کوساتھ رکھنےکےلیے ان کی مشاورت اورخصوصی مشن کےلیے ان کی بیعت کےحوالےسےرہنمائی مہیاکی گئی ہے۔ یہ بھی وضاحت کی گئی کہ رسول اللہﷺ نےکن مراحل میں کن امورپربیعت کی ۔ اس کتاب کےآخری آدھےحصےمیں مختلف ابواب کےتحت امیرکی اہم ترین ذمہ داری مسلمانوں کےتحفظ اوردفاع کی اہمیت اوراس کی کماحقہ تیاری کےحوالےسےاحادیث بیان کی گئی ہیں۔ کتاب الامارہ انتہائی جامع کتابوں میں سےایک ہے۔
ابو خالد احمر نے ہمیں شعبہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے قتادہ اور حُمید سے، انہوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے، انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی، فرمایا: ’’کوئی بھی ذی روح جو فوت ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کے لیے بھلائی موجود ہو، یہ بات پسند نہیں کرتا کہ وہ دنیا میں واپس جائے یا دنیا اور جو کچھ بھی دنیا میں ہے، اس کو مل جائے، سوائے شہید کے، صرف وہ شہادت کی جو فضیلت دیکھتا ہے اس کی وجہ سے اس بات کی تمنا کرتا ہے کہ وہ دنیا میں واپس جائے اور اللہ کی راہ میں (دوبارہ) شہید کیا جائے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کوئی انسان نہیں ہے، جو فوت ہوا اور اس کے ہاں اچھا مقام ہو کہ اسے دنیا میں واپس آنا پسند ہو، اگرچہ اسے دنیا و مافیھا مل جائے مگر شہید، تو وہ آرزو کرتا ہے کہ دنیا میں لوٹ آئے اور اسے دوبارہ شہادت ملے کیونکہ اسے شہادت کی فضیلت نظر آ رہی ہوتی ہے۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
شہید کو اس لیے یہ مقام ملا ہے کہ اس کی روح جنت میں حاضر ہوتی ہے، جبکہ عام مسلمانوں کی ارواح وہاں قیامت کو پہنچیں گی، اللہ اور اس کے فرشتے ان کے جنتی ہونے کی گواہی دیتے ہیں اور وہ روح نکلتے ہی اپنی عزت اور اجر و ثواب کا مشاہدہ کر لیتے ہیں، موت کے وقت فرشتے ان کے پاس حاضر ہوتے ہیں اور ان کی روح لے جاتے ہیں، ان کی ظاہری حالت ان کے ایمان اور خاتمہ بالخیر کی گواہ ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It has been narrated on the authority of Anas bin Malik (RA) that the Messenger of Allah (ﷺ) said:" Nobody who dies and has something good for him with Allah will (ever like to) return to this world even though he were offered the whole world and all that is in its (as an inducement), except the martyr who desires to return and be killed in the world for the (great) merit of martyrdom that he has seen.