کتاب: شکار کرنے،ذبح کیےجانے والے اور ان جانوروں کا بیان جن کا گوشت کھایا جاسکتا ہے
(
باب: سانڈے کے گو شت کا جواز
)
Muslim:
The Book of Hunting, Slaughter, and what may be Eaten
(Chapter: The permissibility of eating the Dabb (mastigure))
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1950.
ابو زبیر نے کہا: میں نے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے سانڈے کے متعلق سوال کیا، انھوں نے کہا: اسے مت کھاؤ۔ اور اس سے اظہار کراہت کیا اور بیان کیا کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے اسے حرام نہیں کیا۔ بلا شبہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے سے(بھی) کو نفع پہنچاتا ہے، یہ عام چرواہوں کی غذا ہے۔ (حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مزید کہا:) اگر یہ میرے پاس ہوتا تو میں اسے کھا لیتا۔
جہاں کھیتی باڑی کثرت سےنہ ہو،وہاں لوگوں کی غذائی ضروریات کاایک حصہ شکارسےپوراہوتاہے۔ یہ زیادہ ترصحرائی،برفانی اورساحلی علاقوں میں ہوتاہے۔ حضرت ابراہیمنےاللہ کےحکم پرحضرت اسماعیلاوران کی والدہ کواس کےگھرکےپاس بےآب وگیاہ علاقےمیں لابسایاتوبڑےہوکرحضرت اسماعیلکی گزراوقات تیرکمان سےشکارکیےہوئےجانوروں کےگوشت پرہوتی تھی جوزمزم کےپانی کےساتھ مل کرمکمل اورقوت بخش غذابن جاتی تھی۔
عربوں کےہاں شکارکےمتعددطریقے رائج تھے،زیادہ ترکمان سےشکارہوتاتھااوربعض لوگ سدھائےہوئےکتوں کےذریعےسےبھی شکارکرتےتھے۔سمندرکےکناروں پربسنےوالےمچھلی کےشکارکےعادی تھے۔
رسول اللہﷺنےشکارکےحوالےسےجوبےمثال احکام دیےان میں زیادہ زورپاکیزگی جانوروں پرشفقت اورعدل پرہے۔ سدھایاہواشکاری کتابسم اللہ پڑھ کوچھوڑاجائےتواس کاماراہواحلال جانورحلا ل ہے، شرط یہ ہےکہ اس نےاس جانورکوصرف آپ کےلیے شکارکیاہو۔ اگرشکارکیےہوئےجانورسےتھوڑسابھی اس نےخودکھالیاہےتووہ انسان کےلیے حلال نہیں کیونکہ یہ اس نےاپنےلیےشکارکیاہے۔ وہ خالصتاانسان کاذریعہ شکارنہ تھا۔اگرسدھائےہوئےکتےکےساتھ کوئی اورکتابھی شکارکرنےمیں شامل ہوگیاہےاورپتہ نہیں چلتاکہ صرف اورصرف سدھائےکتےنےشکارکیاہےتواآپ نہیں کھاسکتے،اگرکسی طرح کےکتےکاشکارزندہ مل گیاہےاوراسےذبح کرلیاگیاہےتوحلال ہے۔
اگربسم اللہ پڑھ کرتیرچلایاہےاوراس کےتیزحصےسےزخمی کرکےشکارکوماردیاہےتوحلا ل ہے۔ اگرتیزحصےکے بجائےکوئی اورحصہ شکارکولگاہےاوروہ زندہ آپ کےہاتھ میں نہیں لگاکہ آپ خوداسےذبح کرلیتےتوپھروہ حرام ہےکیونکہ وہ چوٹ سےمراہے۔ اگرتیرلگنےکےبعدوہ پانی میں جاگراہےیاسدھائےہوئےکتےنےاس کاشکارکیاہے اوروہ آپ کوپانی میں پڑاہواملاہےتواس کابات کاامکان موجودہےکہ وہ زخمی حالت میں گراہواورغرق ہوکرمراہو۔ ایساشکاربھی حلال نہیں ۔ اگرتیرکانوکیلاحصہ لگنےکےبعدشکارآپ کولمبےوقفےکےبعدملاہےتوجب ملےاسےکھایاجاسکتاہےبشرطیکہ اس میں تعفن پیدانہ ہواہو۔
اب اہم ترین مسئلہ یہ ہے کہ شکارکن جانوروں اورکن پرندوں کاکیاجاسکتاہے؟اس سلسلےمیں رسول اللہﷺنےخیبرکےموقع پربنیادی اصول بتایااوراس کااعلان بھی کروایا۔ اصول یہ ہےکہ کچلیوں والےگوشت خورجانوراورپنجوں سےشکارکرنےوالے(گوشت خور)پرندےحرام ہیں۔ اس حکم کےاعلان کےباوجودحجازکےلوگ عام طورپراس حدیث سےبےخبررہے۔ اتفاق یہ ہواکہ جن صحابہ نےیہ حکم سنااورآگے بیان کیا،جہاد کی ضرورتوں کی بناپروہ شام چلےگئے۔ امام زہری کہتےہیں کہ شام جانےسےپہلےہمیں اس حدیث کابالکل پتہ نہ تھا۔(حدیث:4998)اس سےیہ حقیقت بھی واضح ہوجاتی ہےکہ بعض علاقوں میں جاہلی دورسےشکارکیےجانےوالوں جانوروں میں سےضبع(لگڑبھگڑ)کیوں حلال سمجھاجاتارہاحالانکہ اس کی کچلیاں ہیں، اس لیے وہ درندہ ہےاورمردارخورہے۔ آبی جانورجوصرف پانی میں زندہ رہ سکتےہیں اورجن کی شبیہ خشکی پرحرام نہیں، وہ سب حلال ہیں۔ ان کوذبح کرنےکی بھی ضرورت نہیں۔ سمندرسےنکال لیےجائیں تووہ مرجاتےہیں، یامردہ حالت میں ملیں توحلال ہیں، چاہےبہت بڑےسائزکےہوں۔ ان میں وہیل مچھلی کی تمام اقسام بشمول عنبر،سب حلال ہیں۔ اس اصول کےتحت شارک بھی حلال ہے۔
گوشت عام ذبیحےکاہو،شکارکاہویاپانی کےجانورکااس کوسنبھالنےکےمتعددطریقےدنیامیں رائج رہے۔ ایک موثراورقدیم طریقہ پہلےگوشت کوآگ پرپانی کےساتھ یااس کےبغیرپکانااوراسی طرح اس کاپانی خشک کرلینااورپھودھوپ میں سکھالینابھی تھا۔ مچھلی بھی کئی طرح سےخشک کی جاتی تھی بلکہ اب بھی کی جاتی ہے۔ اس طرح محفوظ کیاہواگوشت جب تک درست رہےکھاناجائزہے۔
امام مسلم نےپالتوگدھوں کی حرمت کےبارےمیں متعدداحادیث بیان کی ہیں۔ گھوڑےکےگوشت کی حلت پرروایت لائےہیں۔ وسط ایشیاکےعلاقوں میں گھوڑاعام ترین جانورہےجس کادودھ اورگوشت استعمال ہوتاہے۔ جن لوگوں نےاس کومکروہ کہاہےان کی مرادیہ ہےکہ جوعادی نہ ہوں وہ اس کےگوشت اوردودھ سےکراہت کرتےہیں۔ اس طرح کےبعض اورجانوربھی ہیں۔ ان کی ایک مثال’’ضب‘‘ہےیہ بالشت ڈیڑھ کاایک گھاس کھانےوالاجانورہے۔ بعض لوگوں نے’’ضب‘‘کاترجمہ’’گوہ‘‘کیاہےجوبالکل غلط ہے۔گوہ کوعربی میں ’’ورل‘‘کہتےہیں۔ یہ ضب یاسانڈاسب صحرائی علاقوں میں کھایاجاتاتھا۔ رسول اللہﷺکےسامنےبھناہوا ضب پیش کیاگیاتوآپ نےیہ فرماتےہوئےاسےکھانےسےانکارکردیاکہ یہ جانورآپ کےعلاقےمیں نہیں ہوتا،اس لیے آپ اس سےکراہت محسوس کرتےہیں۔ لیکن آپ نےفرمایا’’میں اسےحرام نہیں کرتا‘‘آپ ہی کےدسترخوان پربیٹھےحضرت خالدبن ولیدنےاسےاپنےآگےکرکےکھالیا۔ حضرت عمرنےبھی اسی بات پرزوردیاکہ یہ صحرائی چرواہوں کی عام غذاہےاورحلال ہے۔ جواس کوکھانےکےعادی ہیں وہ آرام سےکھائیں۔
ضب کےحوالےسےرسول اللہﷺنےاپنی طبعی ناپسندیدگی کی یہ وجہ بھی بتائی کہ بنی اسرائیل کی ایک امت مسخ ہوکراسی قسم کےجانوروں میں تبدیل ہوگی تھی، اس لیے دل میں یہ خیال آتاہےکہ وہ مسخ ہوکر’’ضب‘‘ہی میں نہ تبدیل ہوئی ہو۔ ایسےہی جانوروں میں’’جراد‘ٹڈی(دل)ہیں۔ صحرائی باشندےاسےکھاتےتھے۔ سفرکےدروان میں صحابہ کرام نےبھی اسےکھایا،یہ حلال ہےلیکن بعض طبائع کواس سےگھن آتی ہے۔ امام مسلمنےخرگوش کی حلت کےحوالےسےبھی حدیث پیش کی ۔ یہ ذی ناب یاکچلیاں رکھنےوالاجانورنہیں، خالص گھاس اورسبزی کھانےوالاجانورہےاورحلال ہے۔ شکارکےطریقوں میں سےایک طریقہ پتھرمارکرشکارکرنابھی تھا۔ رسول اللہﷺنےاسےناپسندفرمایااوراس بات کاحکم دیاکہ شکارکےیادوسرےجانورکوتیزچھری کےساتھ احسن طریقےسےذبح کرناچاہیےتاکہ وہ اذیت میں نہ رہے۔ امام مسلم نےآخرمیں جانوروں پرشفقت کےحوالےسےیہ حدیث بھی بیان کی کہ کسی جانورکوباندھ کربھوکہ پیایامارماسخت گناہ ہے۔
ابو زبیر نے کہا: میں نے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے سانڈے کے متعلق سوال کیا، انھوں نے کہا: اسے مت کھاؤ۔ اور اس سے اظہار کراہت کیا اور بیان کیا کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے اسے حرام نہیں کیا۔ بلا شبہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے سے(بھی) کو نفع پہنچاتا ہے، یہ عام چرواہوں کی غذا ہے۔ (حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مزید کہا:) اگر یہ میرے پاس ہوتا تو میں اسے کھا لیتا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابو زبیر بیان کرتے ہیں، میں نے حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہما سے ضب کے بارے میں سوال کیا؟ تو انہوں نے جواب دیا، اسے نہ کھاؤ اور اس سے کراہت کا اظہار کیا اور بتایا، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حرام قرار نہیں دیا، اللہ عزوجل بہت سے لوگوں کو اس سے نفع پہنچائے گا، اکثر چرواہوں کی خوراک بس یہی ہے اور اگر یہ میرے پاس ہوتی، تو میں اسے کھاتا (مکہ اور مدینہ میں یہ نہیں تھی)۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Zubair reported: I asked Jabir about (the eating) of the lizard, whereupon he said: Don't eat that as he (the Holy Prophet) felt disgust. He (the narrator) said that Umar bin al-Khattab reminded: Allah's Apostle (ﷺ) did not declare it to be unlawful. Allah, the Exalted and Majestic, has (made it a source) of benefit for more than one (persons). It is a common diet of the shepherds. Had it been with me, I would have eaten that.