کتاب: شکار کرنے،ذبح کیےجانے والے اور ان جانوروں کا بیان جن کا گوشت کھایا جاسکتا ہے
(
باب: سانڈے کے گو شت کا جواز
)
Muslim:
The Book of Hunting, Slaughter, and what may be Eaten
(Chapter: The permissibility of eating the Dabb (mastigure))
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1951.
داؤد نے ابونضرہ سے، انھوں نے حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، کہا: ایک شخص نے عرض کی: اللہ کے رسول ﷺ! ہم سانڈوں سے بھری ہوئی سرزمین میں رہتے ہیں، آپ ﷺ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ یا کہا :آپ ﷺ ہمیں کیا فتویٰ دیتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: "مجھے بتایا گیا کہ بنو اسرائیل کی ایک امت (بڑی جماعت) مسخ کر (کے رینگنے والے جانوروں میں تبدیل کر) دی گئی تھی۔" (اس کے بعد) آپ نے نہ اجازت دی اور نہ منع فرمایا۔ حضرت ابوسعید (خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نے کہا: پھر بعد کا عہد آیا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: اللہ عزوجل اس کے ذریعے سے ایک سے زیادہ لوگوں کو نفع پہنچاتا ہے۔ یہ عام چرواہوں کی غذا ہے، اگر یہ میرے پاس ہوتا تو میں اسے کھاتا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کو نامرغوب محسوس کیا تھا۔ (اسے حرام قرار نہیں دیا تھا۔)
تشریح:
فائدہ:
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول ﷺ کے فرمان کا صحیح مفہوم سمجھا اور اسی کی وضاحت کی۔
جہاں کھیتی باڑی کثرت سےنہ ہو،وہاں لوگوں کی غذائی ضروریات کاایک حصہ شکارسےپوراہوتاہے۔ یہ زیادہ ترصحرائی،برفانی اورساحلی علاقوں میں ہوتاہے۔ حضرت ابراہیمنےاللہ کےحکم پرحضرت اسماعیلاوران کی والدہ کواس کےگھرکےپاس بےآب وگیاہ علاقےمیں لابسایاتوبڑےہوکرحضرت اسماعیلکی گزراوقات تیرکمان سےشکارکیےہوئےجانوروں کےگوشت پرہوتی تھی جوزمزم کےپانی کےساتھ مل کرمکمل اورقوت بخش غذابن جاتی تھی۔
عربوں کےہاں شکارکےمتعددطریقے رائج تھے،زیادہ ترکمان سےشکارہوتاتھااوربعض لوگ سدھائےہوئےکتوں کےذریعےسےبھی شکارکرتےتھے۔سمندرکےکناروں پربسنےوالےمچھلی کےشکارکےعادی تھے۔
رسول اللہﷺنےشکارکےحوالےسےجوبےمثال احکام دیےان میں زیادہ زورپاکیزگی جانوروں پرشفقت اورعدل پرہے۔ سدھایاہواشکاری کتابسم اللہ پڑھ کوچھوڑاجائےتواس کاماراہواحلال جانورحلا ل ہے، شرط یہ ہےکہ اس نےاس جانورکوصرف آپ کےلیے شکارکیاہو۔ اگرشکارکیےہوئےجانورسےتھوڑسابھی اس نےخودکھالیاہےتووہ انسان کےلیے حلال نہیں کیونکہ یہ اس نےاپنےلیےشکارکیاہے۔ وہ خالصتاانسان کاذریعہ شکارنہ تھا۔اگرسدھائےہوئےکتےکےساتھ کوئی اورکتابھی شکارکرنےمیں شامل ہوگیاہےاورپتہ نہیں چلتاکہ صرف اورصرف سدھائےکتےنےشکارکیاہےتواآپ نہیں کھاسکتے،اگرکسی طرح کےکتےکاشکارزندہ مل گیاہےاوراسےذبح کرلیاگیاہےتوحلال ہے۔
اگربسم اللہ پڑھ کرتیرچلایاہےاوراس کےتیزحصےسےزخمی کرکےشکارکوماردیاہےتوحلا ل ہے۔ اگرتیزحصےکے بجائےکوئی اورحصہ شکارکولگاہےاوروہ زندہ آپ کےہاتھ میں نہیں لگاکہ آپ خوداسےذبح کرلیتےتوپھروہ حرام ہےکیونکہ وہ چوٹ سےمراہے۔ اگرتیرلگنےکےبعدوہ پانی میں جاگراہےیاسدھائےہوئےکتےنےاس کاشکارکیاہے اوروہ آپ کوپانی میں پڑاہواملاہےتواس کابات کاامکان موجودہےکہ وہ زخمی حالت میں گراہواورغرق ہوکرمراہو۔ ایساشکاربھی حلال نہیں ۔ اگرتیرکانوکیلاحصہ لگنےکےبعدشکارآپ کولمبےوقفےکےبعدملاہےتوجب ملےاسےکھایاجاسکتاہےبشرطیکہ اس میں تعفن پیدانہ ہواہو۔
اب اہم ترین مسئلہ یہ ہے کہ شکارکن جانوروں اورکن پرندوں کاکیاجاسکتاہے؟اس سلسلےمیں رسول اللہﷺنےخیبرکےموقع پربنیادی اصول بتایااوراس کااعلان بھی کروایا۔ اصول یہ ہےکہ کچلیوں والےگوشت خورجانوراورپنجوں سےشکارکرنےوالے(گوشت خور)پرندےحرام ہیں۔ اس حکم کےاعلان کےباوجودحجازکےلوگ عام طورپراس حدیث سےبےخبررہے۔ اتفاق یہ ہواکہ جن صحابہ نےیہ حکم سنااورآگے بیان کیا،جہاد کی ضرورتوں کی بناپروہ شام چلےگئے۔ امام زہری کہتےہیں کہ شام جانےسےپہلےہمیں اس حدیث کابالکل پتہ نہ تھا۔(حدیث:4998)اس سےیہ حقیقت بھی واضح ہوجاتی ہےکہ بعض علاقوں میں جاہلی دورسےشکارکیےجانےوالوں جانوروں میں سےضبع(لگڑبھگڑ)کیوں حلال سمجھاجاتارہاحالانکہ اس کی کچلیاں ہیں، اس لیے وہ درندہ ہےاورمردارخورہے۔ آبی جانورجوصرف پانی میں زندہ رہ سکتےہیں اورجن کی شبیہ خشکی پرحرام نہیں، وہ سب حلال ہیں۔ ان کوذبح کرنےکی بھی ضرورت نہیں۔ سمندرسےنکال لیےجائیں تووہ مرجاتےہیں، یامردہ حالت میں ملیں توحلال ہیں، چاہےبہت بڑےسائزکےہوں۔ ان میں وہیل مچھلی کی تمام اقسام بشمول عنبر،سب حلال ہیں۔ اس اصول کےتحت شارک بھی حلال ہے۔
گوشت عام ذبیحےکاہو،شکارکاہویاپانی کےجانورکااس کوسنبھالنےکےمتعددطریقےدنیامیں رائج رہے۔ ایک موثراورقدیم طریقہ پہلےگوشت کوآگ پرپانی کےساتھ یااس کےبغیرپکانااوراسی طرح اس کاپانی خشک کرلینااورپھودھوپ میں سکھالینابھی تھا۔ مچھلی بھی کئی طرح سےخشک کی جاتی تھی بلکہ اب بھی کی جاتی ہے۔ اس طرح محفوظ کیاہواگوشت جب تک درست رہےکھاناجائزہے۔
امام مسلم نےپالتوگدھوں کی حرمت کےبارےمیں متعدداحادیث بیان کی ہیں۔ گھوڑےکےگوشت کی حلت پرروایت لائےہیں۔ وسط ایشیاکےعلاقوں میں گھوڑاعام ترین جانورہےجس کادودھ اورگوشت استعمال ہوتاہے۔ جن لوگوں نےاس کومکروہ کہاہےان کی مرادیہ ہےکہ جوعادی نہ ہوں وہ اس کےگوشت اوردودھ سےکراہت کرتےہیں۔ اس طرح کےبعض اورجانوربھی ہیں۔ ان کی ایک مثال’’ضب‘‘ہےیہ بالشت ڈیڑھ کاایک گھاس کھانےوالاجانورہے۔ بعض لوگوں نے’’ضب‘‘کاترجمہ’’گوہ‘‘کیاہےجوبالکل غلط ہے۔گوہ کوعربی میں ’’ورل‘‘کہتےہیں۔ یہ ضب یاسانڈاسب صحرائی علاقوں میں کھایاجاتاتھا۔ رسول اللہﷺکےسامنےبھناہوا ضب پیش کیاگیاتوآپ نےیہ فرماتےہوئےاسےکھانےسےانکارکردیاکہ یہ جانورآپ کےعلاقےمیں نہیں ہوتا،اس لیے آپ اس سےکراہت محسوس کرتےہیں۔ لیکن آپ نےفرمایا’’میں اسےحرام نہیں کرتا‘‘آپ ہی کےدسترخوان پربیٹھےحضرت خالدبن ولیدنےاسےاپنےآگےکرکےکھالیا۔ حضرت عمرنےبھی اسی بات پرزوردیاکہ یہ صحرائی چرواہوں کی عام غذاہےاورحلال ہے۔ جواس کوکھانےکےعادی ہیں وہ آرام سےکھائیں۔
ضب کےحوالےسےرسول اللہﷺنےاپنی طبعی ناپسندیدگی کی یہ وجہ بھی بتائی کہ بنی اسرائیل کی ایک امت مسخ ہوکراسی قسم کےجانوروں میں تبدیل ہوگی تھی، اس لیے دل میں یہ خیال آتاہےکہ وہ مسخ ہوکر’’ضب‘‘ہی میں نہ تبدیل ہوئی ہو۔ ایسےہی جانوروں میں’’جراد‘ٹڈی(دل)ہیں۔ صحرائی باشندےاسےکھاتےتھے۔ سفرکےدروان میں صحابہ کرام نےبھی اسےکھایا،یہ حلال ہےلیکن بعض طبائع کواس سےگھن آتی ہے۔ امام مسلمنےخرگوش کی حلت کےحوالےسےبھی حدیث پیش کی ۔ یہ ذی ناب یاکچلیاں رکھنےوالاجانورنہیں، خالص گھاس اورسبزی کھانےوالاجانورہےاورحلال ہے۔ شکارکےطریقوں میں سےایک طریقہ پتھرمارکرشکارکرنابھی تھا۔ رسول اللہﷺنےاسےناپسندفرمایااوراس بات کاحکم دیاکہ شکارکےیادوسرےجانورکوتیزچھری کےساتھ احسن طریقےسےذبح کرناچاہیےتاکہ وہ اذیت میں نہ رہے۔ امام مسلم نےآخرمیں جانوروں پرشفقت کےحوالےسےیہ حدیث بھی بیان کی کہ کسی جانورکوباندھ کربھوکہ پیایامارماسخت گناہ ہے۔
داؤد نے ابونضرہ سے، انھوں نے حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، کہا: ایک شخص نے عرض کی: اللہ کے رسول ﷺ! ہم سانڈوں سے بھری ہوئی سرزمین میں رہتے ہیں، آپ ﷺ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ یا کہا :آپ ﷺ ہمیں کیا فتویٰ دیتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: "مجھے بتایا گیا کہ بنو اسرائیل کی ایک امت (بڑی جماعت) مسخ کر (کے رینگنے والے جانوروں میں تبدیل کر) دی گئی تھی۔" (اس کے بعد) آپ نے نہ اجازت دی اور نہ منع فرمایا۔ حضرت ابوسعید (خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نے کہا: پھر بعد کا عہد آیا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: اللہ عزوجل اس کے ذریعے سے ایک سے زیادہ لوگوں کو نفع پہنچاتا ہے۔ یہ عام چرواہوں کی غذا ہے، اگر یہ میرے پاس ہوتا تو میں اسے کھاتا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کو نامرغوب محسوس کیا تھا۔ (اسے حرام قرار نہیں دیا تھا۔)
حدیث حاشیہ:
فائدہ:
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول ﷺ کے فرمان کا صحیح مفہوم سمجھا اور اسی کی وضاحت کی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، ایک شخص نے کہا، اے اللہ کے رسول! ہم ایسے علاقہ میں رہتے ہیں، جہاں ضب بہت ہیں، تو آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ یا آپ ہمیں کیا فتویٰ دیتے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: "مجھے بتایا گیا ہے کہ بنو اسرائیل کی ایک جماعت مسخ کر دی گئی (شاید یہ وہ ہو)۔" اس لیے آپ نے نہ حکم دیا اور نہ روکا، ابو سعید رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، اس واقعہ کے بعد، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، اللہ عزوجل اس سے بہت سے لوگوں کو نفع پہنچاتا ہے اور ان عام چرواہوں کی خوراک یہی ہے اور اگر میرے پاس ہوتی تو میں اسے کھاتا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اس سے کراہت محسوس کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Sa'id reported that a person said: Messenger of Allah, we live in a land abounding in lizards, so what do you command or what verdict you give (about eating of it)? Thereupon he said: It was mentioned to me that a people from among Bani Isra'il were distorted (so there is a likelihood that those people might have been distorted in the shape of lizards). So he neither commanded (us to eat that) nor forbade (us). Abu Sa'id said: After some time Umar said: Allah, the Exalted and Majestic, has made it (a source of) benefit for more than one (person), for it is the common diet of shepherds. Had it been with me, I would have eaten that. Allah's Messenger (ﷺ) disliked it.