Muslim:
The Book of Sacrifices
(Chapter: The time for sacrifice)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1961.
مطرف نے عامر(شعبی) سے، انھوں نے حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، کہا: میرے ماموں حضرت ابو بردہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نماز سے پہلے قربانی کردی، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ گوشت کی ایک (عام) بکری ہے (قربانی کی نہیں۔)‘‘ انھوں (حضرت ابو بردہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نے عرض کی: اللہ کے رسول ﷺ! میرے پاس بکری کا ایک چھ ماہ کا بچہ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم اس کی قربانی کردو اور یہ تمہارے سوا کسی اور کے لئے جائز نہیں ہے۔‘‘ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص نے نماز سے پہلے ذبح کیا اس نے اپنے (کھانے کے) لئے ذبح کیا ہے اور جس نے نماز کے بعد ذبح کیا تو اس کی قر بانی مکمل ہوگئی اوراس نے مسلمانوں کے طریقے کو پا لیا ہے۔‘‘
شکار اور ذبح کیے جانے والے عام جانوروں کے بعد امام مسلم نے قربانی کے احکام و مسائل بیان کیے ہیں جو بطور خاص اللہ کی رضا کے لیےذبح کی جاتی ہے ۔سب سے پہلے انہوں نے قربانی کے وقت کے بارے میں احادیث بیان کی ہیں کہ قربانی کا وقت نماز ،خطبے اور اجتماعی دعا کے بعد شروع ہوتا ہے۔اگر اس سے پہلے جانور ذبح کر دیا جائے تو وہ قربانی نہیں ، عام ذبیحہ ہے ۔اس کی مثال اس طرح ہے جیسے وضو سے پہلے نماز پڑھنے کی وہ اٹھک بیٹھک ہے ،تلاوت، تسبیح اور دعا بھی ہے مگر نماز نہیں ۔جن صحابہ نے لوگوں کو جلد گوشت تقسیم کرنے کی اچھی نیت سے نماز اور خطبے سے پہلے قربانیاں کر لیں تو انھیں دوبارہ قربانی کرنے کا حکم دیا گیا۔یہ فقر کا زمانہ تھا دوبارہ قربانی کرنا انتہائی مشکل تھا مشکلات کے حل کے لیے قربان کیے جانے والے جانوروں کی عمر وں میں کچھ سہولت اور رعایت دے دی گئی، لیکن قربانی دوبارہ کرنی پڑی۔پھر قربانی کے جانوورں کی کم از کم عمر کے بارے میں شریعت کے اصل حکم کا بیان ہے ، اس بعد پھر جن جانوروں کو اللہ کی رضا کے لیے ذبح کیا جا رہا ہے ان کو اچھے طریقے سے ذبح کرنے کی وضاحت ہے،پھر آلہ ذبح کا بیان ہے ۔اس میں وضاحت کی گئی ہے کہ ہڈی یا کسی جانور کے دانت سے ذبح نہیں کیا جا سکتا تیز دھار والی کسی چیز سے ذبح کیا جا سکتا ہے؟جس سے تیزی کے ساتھ اچھی طرح خون بہ جائے۔
قربانی کا گوشت کتنے دن تک کھایا جا سکتا ہے ؟اس حوالے سے احکام میں جو تدریج ملحوظ رکھی گئی ہے اس کو واضح کیا گیا ہے۔اس حوالے سے بھی یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ بعض صحابہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک کے بعد بھی حکم سے نا واقف رہ گئے تھے اور ابتدائی حکم کی پابندی کرتے رہے انسانی معاشرے میں یہ ایک فطری بات ہے ۔ ہر کسی کو ایک بات کا علم ہو جانا ممکن نہیں۔معتبر انھی کی بات ہے جنھیں علم ہے ۔قربانیوں کے ساتھ کسی مادہ جانور کے پہلوٹھی کے بچے کو بڑا ہونے کے بعد اللہ کی رضا کے لیے ذبح کرنے (العتیرہ) اور ریوڑ کے جانوروں کی ایک خاص تعداد کے بعد کسی ایک جانور کو اللہ کی راہ میں قربانی کرنے کا بیان بھی ہے ۔اس کے بعد قربانی کرنے والوں کے لیے ناخن اور بال نہ کٹوانے (حرام کی جیسی کچھ پابندیوں کو اپنانے) کا بیان ہے اور آخر میں اس بات کی وضاحت ہے کہ اللہ کے علاوہ کسی اور کی رضا کے لیے (یا اس کے نام پر)ذبح کرنے والا اللہ کی لعنت کا مستوجب ہے۔ العیاذ باللہ
مطرف نے عامر(شعبی) سے، انھوں نے حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، کہا: میرے ماموں حضرت ابو بردہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نماز سے پہلے قربانی کردی، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ گوشت کی ایک (عام) بکری ہے (قربانی کی نہیں۔)‘‘ انھوں (حضرت ابو بردہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نے عرض کی: اللہ کے رسول ﷺ! میرے پاس بکری کا ایک چھ ماہ کا بچہ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم اس کی قربانی کردو اور یہ تمہارے سوا کسی اور کے لئے جائز نہیں ہے۔‘‘ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص نے نماز سے پہلے ذبح کیا اس نے اپنے (کھانے کے) لئے ذبح کیا ہے اور جس نے نماز کے بعد ذبح کیا تو اس کی قر بانی مکمل ہوگئی اوراس نے مسلمانوں کے طریقے کو پا لیا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت براء رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، میرے ماموں ابو بردہ رضی اللہ تعالی عنہ نے نماز سے پہلے قربانی کر دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ گوشت کی بکری ہے۔‘‘ اس نے عرض کی، اے اللہ کے رسولﷺ! میرے ہاں جذعہ بکری ہے، آپﷺ نے فرمایا: ’’تم اس کو قربانی کر لو، تیرے سوا کسی کے لیے ٹھیک نہیں ہو گی۔‘‘ پھر آپﷺ نے فرمایا: ’’جس نے نماز سے پہلے قربانی کر لی، اس نے تو بس اپنے کھانے کے لیے ذبح کی ہے اور جس نے نماز کے بعد ذبح کی، تو اس کی قربانی مکمل ہو گئی اور اس نے مسلمانوں والا طریقہ اختیار کیا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
(1) تِلكَ شَاةُ لَحم: یہ گوشت کے لیے بکری ہے، یعنی یہ قربانی نہیں ہے، لیکن اس کو کھا سکتے ہو۔ (2) جذعة: پانچ چھ ماہ کا جانور یا بکری اور بقول امام شافعی ایک سال کی بکری۔ جذعة: بکری جو دوسرے سال میں داخل ہو، گائے جو تیسرے میں داخل ہو، اونٹ جو پانچویں سال میں داخل ہو، بھیڑ بقول جمہور جو پورے سال کی ہو لیکن بقول بعض چھ ماہ آٹھ ماہ اور دس ماہ۔ (منة المنھم ج 3، ص319)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Al-Bara' reported: My maternal uncle Abu Burda sacrificed his animal before ('Id) prayer. Thereupon Allah's Messenger (ﷺ) said: That is a goat (slaughtered for the sake of) flesh (and not as a sacrifice on the day of Adha). He said: I have a lamb of six months. Thereupon he said: Offer it as a sacrifice, but it will not justify for anyone except you, and then said: He who sacrificed (the animal) before ('Id) prayer, he in fact slaughtered it for his own self, and he who slaughtered after prayer, his ritual of sacrifice became complete and he in fact observed the religious practice of the Muslims.