شکار اور ذبح کیے جانے والے عام جانوروں کے بعد امام مسلم نے قربانی کے احکام و مسائل بیان کیے ہیں جو بطور خاص اللہ کی رضا کے لیےذبح کی جاتی ہے ۔سب سے پہلے انہوں نے قربانی کے وقت کے بارے میں احادیث بیان کی ہیں کہ قربانی کا وقت نماز ،خطبے اور اجتماعی دعا کے بعد شروع ہوتا ہے۔اگر اس سے پہلے جانور ذبح کر دیا جائے تو وہ قربانی نہیں ، عام ذبیحہ ہے ۔اس کی مثال اس طرح ہے جیسے وضو سے پہلے نماز پڑھنے کی وہ اٹھک بیٹھک ہے ،تلاوت، تسبیح اور دعا بھی ہے مگر نماز نہیں ۔جن صحابہ نے لوگوں کو جلد گوشت تقسیم کرنے کی اچھی نیت سے نماز اور خطبے سے پہلے قربانیاں کر لیں تو انھیں دوبارہ قربانی کرنے کا حکم دیا گیا۔یہ فقر کا زمانہ تھا دوبارہ قربانی کرنا انتہائی مشکل تھا مشکلات کے حل کے لیے قربان کیے جانے والے جانوروں کی عمر وں میں کچھ سہولت اور رعایت دے دی گئی، لیکن قربانی دوبارہ کرنی پڑی۔پھر قربانی کے جانوورں کی کم از کم عمر کے بارے میں شریعت کے اصل حکم کا بیان ہے ، اس بعد پھر جن جانوروں کو اللہ کی رضا کے لیے ذبح کیا جا رہا ہے ان کو اچھے طریقے سے ذبح کرنے کی وضاحت ہے،پھر آلہ ذبح کا بیان ہے ۔اس میں وضاحت کی گئی ہے کہ ہڈی یا کسی جانور کے دانت سے ذبح نہیں کیا جا سکتا تیز دھار والی کسی چیز سے ذبح کیا جا سکتا ہے؟جس سے تیزی کے ساتھ اچھی طرح خون بہ جائے۔
قربانی کا گوشت کتنے دن تک کھایا جا سکتا ہے ؟اس حوالے سے احکام میں جو تدریج ملحوظ رکھی گئی ہے اس کو واضح کیا گیا ہے۔اس حوالے سے بھی یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ بعض صحابہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک کے بعد بھی حکم سے نا واقف رہ گئے تھے اور ابتدائی حکم کی پابندی کرتے رہے انسانی معاشرے میں یہ ایک فطری بات ہے ۔ ہر کسی کو ایک بات کا علم ہو جانا ممکن نہیں۔معتبر انھی کی بات ہے جنھیں علم ہے ۔قربانیوں کے ساتھ کسی مادہ جانور کے پہلوٹھی کے بچے کو بڑا ہونے کے بعد اللہ کی رضا کے لیے ذبح کرنے (العتیرہ) اور ریوڑ کے جانوروں کی ایک خاص تعداد کے بعد کسی ایک جانور کو اللہ کی راہ میں قربانی کرنے کا بیان بھی ہے ۔اس کے بعد قربانی کرنے والوں کے لیے ناخن اور بال نہ کٹوانے (حرام کی جیسی کچھ پابندیوں کو اپنانے) کا بیان ہے اور آخر میں اس بات کی وضاحت ہے کہ اللہ کے علاوہ کسی اور کی رضا کے لیے (یا اس کے نام پر)ذبح کرنے والا اللہ کی لعنت کا مستوجب ہے۔ العیاذ باللہ