باب: جب ذوالحجہ کا(پہلا) عشرہ شروع ہوجائے تو جو شخص قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے،اس کے لیے بال اور ناخن کٹوانے کی ممانعت
)
Muslim:
The Book of Sacrifices
(Chapter: When the first ten days of Dhul-Hijjah begin, it is forbidden for the one who wants to offer a sacrifice to remove anything from his hair, nails or skin)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1977.
ابن ابی عمر مکی نے کہا: ہمیں سفیان نے عبدالرحمان بن حمید بن عبدالرحمان بن عوف سے حدیث سنائی: انھوں نے سعید بن مسیب سے سنا، وہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے حدیث روایت کررہے تھے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’جب عشرہ (ذوالحجہ) شروع ہو جائے اور تم میں سے کوئی شخص قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو وہ اپنے بالوں اور ناخنوں کو نہ کاٹے۔‘‘ سفیان سے کہا گیا کہ بعض راوی اس حدیث کو مرفوعاً (رسول اللہ ﷺ سے) بیان نہیں کرتے (حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا قول بتاتے ہیں)، انھوں نے کہا: لیکن میں اس کو مرفوعاً بیان کرتا ہوں۔
تشریح:
فائدہ:
سفیان کا مطلب تھا کہ مجھے صراحت کے ساتھ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حوالے سے مرفوعاً یہ حدیث پہنچی ہے اور اس روایت میں کوئی شک نہیں۔ ان کے علاوہ اور بھی متعدد راویوں نے اسے مرفوع بیان کیا ہے جس طرح اگلی روایات میں واضح ہو جائے گا۔
شکار اور ذبح کیے جانے والے عام جانوروں کے بعد امام مسلم نے قربانی کے احکام و مسائل بیان کیے ہیں جو بطور خاص اللہ کی رضا کے لیےذبح کی جاتی ہے ۔سب سے پہلے انہوں نے قربانی کے وقت کے بارے میں احادیث بیان کی ہیں کہ قربانی کا وقت نماز ،خطبے اور اجتماعی دعا کے بعد شروع ہوتا ہے۔اگر اس سے پہلے جانور ذبح کر دیا جائے تو وہ قربانی نہیں ، عام ذبیحہ ہے ۔اس کی مثال اس طرح ہے جیسے وضو سے پہلے نماز پڑھنے کی وہ اٹھک بیٹھک ہے ،تلاوت، تسبیح اور دعا بھی ہے مگر نماز نہیں ۔جن صحابہ نے لوگوں کو جلد گوشت تقسیم کرنے کی اچھی نیت سے نماز اور خطبے سے پہلے قربانیاں کر لیں تو انھیں دوبارہ قربانی کرنے کا حکم دیا گیا۔یہ فقر کا زمانہ تھا دوبارہ قربانی کرنا انتہائی مشکل تھا مشکلات کے حل کے لیے قربان کیے جانے والے جانوروں کی عمر وں میں کچھ سہولت اور رعایت دے دی گئی، لیکن قربانی دوبارہ کرنی پڑی۔پھر قربانی کے جانوورں کی کم از کم عمر کے بارے میں شریعت کے اصل حکم کا بیان ہے ، اس بعد پھر جن جانوروں کو اللہ کی رضا کے لیے ذبح کیا جا رہا ہے ان کو اچھے طریقے سے ذبح کرنے کی وضاحت ہے،پھر آلہ ذبح کا بیان ہے ۔اس میں وضاحت کی گئی ہے کہ ہڈی یا کسی جانور کے دانت سے ذبح نہیں کیا جا سکتا تیز دھار والی کسی چیز سے ذبح کیا جا سکتا ہے؟جس سے تیزی کے ساتھ اچھی طرح خون بہ جائے۔
قربانی کا گوشت کتنے دن تک کھایا جا سکتا ہے ؟اس حوالے سے احکام میں جو تدریج ملحوظ رکھی گئی ہے اس کو واضح کیا گیا ہے۔اس حوالے سے بھی یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ بعض صحابہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک کے بعد بھی حکم سے نا واقف رہ گئے تھے اور ابتدائی حکم کی پابندی کرتے رہے انسانی معاشرے میں یہ ایک فطری بات ہے ۔ ہر کسی کو ایک بات کا علم ہو جانا ممکن نہیں۔معتبر انھی کی بات ہے جنھیں علم ہے ۔قربانیوں کے ساتھ کسی مادہ جانور کے پہلوٹھی کے بچے کو بڑا ہونے کے بعد اللہ کی رضا کے لیے ذبح کرنے (العتیرہ) اور ریوڑ کے جانوروں کی ایک خاص تعداد کے بعد کسی ایک جانور کو اللہ کی راہ میں قربانی کرنے کا بیان بھی ہے ۔اس کے بعد قربانی کرنے والوں کے لیے ناخن اور بال نہ کٹوانے (حرام کی جیسی کچھ پابندیوں کو اپنانے) کا بیان ہے اور آخر میں اس بات کی وضاحت ہے کہ اللہ کے علاوہ کسی اور کی رضا کے لیے (یا اس کے نام پر)ذبح کرنے والا اللہ کی لعنت کا مستوجب ہے۔ العیاذ باللہ
ابن ابی عمر مکی نے کہا: ہمیں سفیان نے عبدالرحمان بن حمید بن عبدالرحمان بن عوف سے حدیث سنائی: انھوں نے سعید بن مسیب سے سنا، وہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے حدیث روایت کررہے تھے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’جب عشرہ (ذوالحجہ) شروع ہو جائے اور تم میں سے کوئی شخص قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو وہ اپنے بالوں اور ناخنوں کو نہ کاٹے۔‘‘ سفیان سے کہا گیا کہ بعض راوی اس حدیث کو مرفوعاً (رسول اللہ ﷺ سے) بیان نہیں کرتے (حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا قول بتاتے ہیں)، انھوں نے کہا: لیکن میں اس کو مرفوعاً بیان کرتا ہوں۔
حدیث حاشیہ:
فائدہ:
سفیان کا مطلب تھا کہ مجھے صراحت کے ساتھ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حوالے سے مرفوعاً یہ حدیث پہنچی ہے اور اس روایت میں کوئی شک نہیں۔ ان کے علاوہ اور بھی متعدد راویوں نے اسے مرفوع بیان کیا ہے جس طرح اگلی روایات میں واضح ہو جائے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب عشرہ ذی الحجہ شروع ہو جائے، تو تم میں سے جو شخص قربانی کرنا چاہے، وہ اپنے بالوں اور جسم کو نہ چھیڑے۔‘‘ سفیان سے پوچھا گیا، بعض راوی اس کو مرفوع بیان نہیں کرتے ہیں، انہوں نے کہا، لیکن میں مرفوع بیان کرتا ہوں۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
اس حدیث سے بعض ائمہ سعید بن المسیب، ربیعہ، احمد، اسحاق اور بعض شوافع نے عشرہ ذی الحجہ میں بالوں اور ناخنوں کے کاٹنے کو حرام قرار دیا ہے، امام شافعی کا مشہور قول یہ ہے کہ یہ نہی تنزیہی ہے، یعنی ادب و احترام سے تعلق رکھتی ہے، تاکہ حاجیوں کے ساتھ کچھ نہ کچھ مشابہت پیدا ہو جائے، امام مالک کا ایک قول ہے، کہ یہ مکروہ ہے، حرام نہیں ہے اور دوسرا قول ہے کہ مکروہ بھی نہیں ہے، حدیث کا ظاہری تقاضا یہی ہے کہ ان کاموں سے اجتناب کرنا چاہیے، جسم کے کسی حصہ سے بھی بال کسی طرح بھی زائل نہیں کرنا چاہیے اور نہ ناخنوں کو کسی طرح چھیڑنا چاہیے، امام ابن قدامہ لکھتے ہیں، مقتضي النهي التحريم وهذا يرد القياس ويبطله نہی کا تقاضا حرمت ہے اور حدیث کے مقابلہ میں قیاس اور رائے باطل ہے۔ (المغنی، ج 13، ص 363)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Umm Salamah reported Allah's Messenger (ﷺ) having said this: When any one of you intending to sacrifice the animal enters in the month (of Dhu'l-Hijja) he should not get his hair or nails touched (cut). It was said to Sufyan that some of the (scholars) did not deem this hadith to be Maffu'. He said: But I deem it as Marfu' (i. e. chain of narration traceable right up to the Holy Prophet).