Muslim:
The Book of Drinks
(Chapter: The permissibility of Nabidh so long as it has not become strong and has not become intoxicating)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2007.
محمد بن سہل تیمی اور ابوبکر بن اسحٰق نے کہا: ہمیں ابن ابی مریم نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں ابوغسان محمد بن مطرف نے بتایا کہ مجھے ابوحازم نے حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت بیان کی، کہا: رسول اللہ ﷺ کے سامنے عرب کی ایک عورت کا ذکر کیا گیا۔ (اس کے والد نعمان بن ابی الجون کندی نے پیش کش کی) آپ% نے ابواسید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا: کہ اس (عورت کولانے کے لیے اس) کی طرف سواری وغیرہ بھیجیں، تو انھوں (حضرت ابو اسید رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے بھیج دی، وہ عورت آئی، بنوساعدہ کے قلعہ نما مکانات میں ٹھہری، رسول اللہ ﷺ گھر سے روانہ ہو کر اس کے پاس تشریف لے گئے، جب آپ اس کے پاس گئے، تو وہ عورت سر جھکائے ہوئے تھی، رسول اللہ ﷺ نے جب اس سے بات کی تو وہ کہنے لگی: میں آپ سے اللہ کی پناہ میں آتی ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں نے تمھیں خود سے پناہ دے دی۔‘‘ لوگوں نے اس سے کہا: کیا تم جا نتی ہو یہ کو ن ہیں؟ اس نے کہا: نہیں، انھوں نے کہا: یہ رسول اللہ ﷺ تھے اور تمھیں نکا ح کا پیغا م دینے تمھارے پاس آئے تھے۔ اس نے کہا: میں اس سے کم تر نصیب والی تھی۔ سہل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: اس دن رسول اللہ ﷺ تشریف لائے، آپ خود اور آپ کے ساتھی بنوساعدہ کے چھت والے چبوترے پر تشریف فرما ہوئے، پھر آپ نے سہل سے کہا: ’’ہمیں پانی پلاؤ‘‘ کہا: میں نے ان کے لیے وہی پیالہ (نما برتن) نکالا اور اس میں آپﷺ کو پلایا۔ ابوحازم نے کہا: سہل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہمارے لیے بھی وہی پیالہ نکالا اور ہم نے بھی اس میں سے پیا، پھر عمر بن عبد العزیز نے حضرت سہل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے وہ پیالہ بطور ہبہ مانگ لیا۔ حضرت سہل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہ پیالہ ان کو ہبہ کر دیا۔ ابوبکر بن اسحاق کی روایت میں ہے: آپ ﷺ نے فرمایا: ’’سہل! ہمیں (کچھ) پلاؤ۔‘‘
کتاب الاشربہ اپنےمعانی کےاعتبارسےایک وسیع المطالب کتاب ہے۔ مشروبات میں حلال وحرام مشروبات کی تفصیل،شراب کےنقصانات ،وہ حالات جن میں شراب کوحتمی طورپرحرام قراردیاگیا،صحابہ کاجذبہ اطاعت مختلف چیزوں سےبننےوالی شرابوں کی مشرکہ صفت اورمضرت،اس سےمکمل اجتناب کےلیے مشروب سازی اوربرتنوں تک کےحوالےسےاحتیاطی احکام،حلال مشروبات کےحوالےسےصحت کےلیے ضروری احتیاطی تدابیر،پینےاور کھانےدونوں کےمعاشرتی اورروحانی آداب،حلت وحرمت کےحوالےسےاوہام پرمبنی تصورات،شخصی ناپسندیدگی اورحرمت،کھانےپینےمیں موسات اوربرکت،اس کتاب میں ان تمام موضوعات کےحوالےسےرہنمائی کےلیے ارشادات نبویہ پیش کیےگئےہیں۔
کتاب کاآغازاس افسوسناک واقعےسےکیاگیاہےجوحضرت حمزہکی شراب نوشی کی بناپرحضرت علیاورخود رسالت مآبﷺکوپیش آیا۔ حضرت حمزہ شراب نوشی کی ایک مجلس میں شریک ہوئے،گانےوالی نے شراب کےنتیجےمیں پیداہونےوالی خودفریبی اوراپنی عظمت وسخاوت کےانتہائی مبالغہ آمیزاحساس کومزیداجاگرکیا اورباہربیٹھیں حضرت علیکی دواونٹنیوں کے،جوان کی کل متاع تھیں،کباب کھلانےکی تان اڑائی۔شراب اپنےپینےوالوں کےاحساس عظمت کواتنابڑھادیتی ہےکہ عقل ودانش کی جملہ قیودٹوٹ جاتی ہیں۔ حضرت حمزہ نےگانےوالی کےالفاظ کےعین مطابق اپنی تلواراٹھائی اوران اونٹنیوں کی کوہانیں کاٹیں، پیٹ چاک کیے،کلیجےنکالے اورکباب بنانےوالوں کےحوالےکردیے۔ حضرت علیشدیدصدمےکےعالم میں رسول اللہﷺکےپاس آئے، ان کی بات سن کرآپ ﷺچل کرحمزہکےپاس توپتہ چلاکہ حضرت حمزہشراب کےنشےمیں پہچان اورتمیزتک کھوچکےہیں۔ شراب کی حرمت کےتدریجی مراحل کاآغازہوچکاتھا۔ یہ واقعہ پورےمدینہ والوں کی آنکھیں کھول دینےاورشراب کےشدیدنقصان کوپوری طرح واضح کرنےکےلیے کافی تھا۔ اس کےنتیجےمیں شراب کی حتمی حرمت کااعلان کردیاگیا۔ یہ ایمان لانےوالوں کےلیے ایک سخت امتحان تھا۔ یہ رسول اللہﷺکی بےمثال تربیت اوراس کےنتیجےمیں حاصل ہونےوالی ایمان کی مضبوطی تھی کہ شراب کی حرمت کےاعلان کےساتھ ہی شراب چھوڑدی گئی،مٹکےتوڑدیےگئےاورشراب کوگلیوں میں بہادیاگیا۔ یہ اہل ایمان کی عظیم الشان کامیابی تھی۔
اللہ کی رہنمائی کابنیادی مقصدیہ ہےکہ انسان اپنےخالق اورحقیقی مالک کوپہچانے،اپنےبرےبھلےمیں تمیزکرے،اس کےازلی دشمن شیطان نےاس کوتباہ کرنےکےلیےجوفریب کےجال پھیلارکھےہیں ان کےدھوکےمیں نہ آئے، اپنی حقیقی کامیابی کےمقصدسےغافل نہ ہو۔ شراب اس سےپہچان اورتمیزچھین کراسےاپنےسب سےبڑےدشمن کا شکاربننےکےلیے تیارکردیتی ہے۔ یہ شیطان کاسب سےخوفناک پھنداہےجس کےذریعےسےانسان کی تباہی یقینی ہوجاتی ہے،اس لیے شراب چاہےجس چیزکی بنی ہوئی ہواورجس نام سےہواس کوپوری سختی سےحرام کردیاگیااور اس سےاجتناب کویقینی بنانےکےلیے ان ذرائع کوبھی مسدودکیاگیاجوانسان کواس تک لےجاسکتےہیں۔
اس زمانےمیں حجازکےعلاقےمیں شراب’’نخلہ‘‘(کھجورکےدرخت)اور’’کرمہ‘‘(انگورکی بیل)کےپھلوں سے بنتی تھی۔ شراب بنانےکےلیے نیم پختہ کھجوراورتازہ کھجورکویانیم پختہ کھجوراورخشک کھجورکویاکھجوراورکشمش کوملاکرپانی میں اس کارس نکالاجاتاتھا، پھراسےرکھاجاتاحتی کہ اس میں تخمیرکاعمل ہوتااوروہ شراب بن جاتی۔ مختلف قسم کےکچے،پکےتازہ اورخشک پھلوں کارس ملانےسےاس میں تندی آجاتی اورجلدتخمیرکاعمل شروع ہوجاتا۔ یمن میں شہدکےشربت سےشراب بنائی جاتی تھی جسے’’بتع‘‘کہتےتھے۔ جوسےبھی شراب بنائی جاتی تھی،اسے’’مزر‘‘کہتے تھے۔ رسول اللہﷺنےاس سےقطع نظرکہ وہ کسی چیزسےبنی ہوئی ہیں،تمام شرابوں کوحرام قراردیابلکہ صریح الفاظ میں ہرقسم کی نشہ آورچیزکی حرمت کااعلان فرمایادیا۔ قاعدہ کلیہ یہ بیان فرمایا(كُلَّ مُسْكِرٍ خَمْرٌ وَكُلَّ مُسْكِرٍحَرَامٌ)’’ہرنشہ آورچیزخمر(شراب)ہےاورہرنشہ آورچیزحرام ہے۔‘‘(حدیث:5218)
کھجورکوپانی میں ملاکراس کابنایاہواشربت’’نبیذ‘‘عربوں کوبہت مرغوب تھالیکن اس شربت پرتھوڑاساوقت گزرجاتا توعمل تخمیرسےیہ نشہ آوربن جاتا۔ اگراسےمسامداربرتنوں میں بنایاجاتاتواستعمال کےبعد،دھونےکےباوجودان برتنوں کےمساموں میں اس کےاجزاءرہ جاتےاوران کاخمیربن جاتا۔ ان برتنوں میں دوبارہ رس ڈالنےکےبعدتخمیر کاعمل عمل فوراشروع ہوجاتااورنبیذنشہ آورہونےلگتی۔ رسول اللہﷺنےاللہ نےحکم سےاپنی امت کواس غلاظت سےمکمل طورپرمحفوظ رکھنےکےلیے یہ حکم دیاکہ ایک ہی قسم کےکچےاورپکےبرتنوں کااستعمال ممنوع قراردیاجن میں شراب بنائی جاتی تھی۔ اگرشراب نہ بنائی گئی ہوتوبھی مسامداربرتنوں میں مشروب بنانےکی ممانعت فرمادی۔ ان برتنوں میں سوکھےکدوکوکھوکھلاکرکےبنائےہوئےبرتن،لکڑی کےبرتن،روغن قارملےہوئےبرتن اورمٹی کےگھڑےوغیرہ شامل تھے۔ مشکیزوں میں نبیذبنانےکی اجازت دی کیونکہ ان میں تخمیرکاعمل جلدشروع نہیں ہوتا۔ برتنوں کےحوالےسےیہ پابندی کچھ عرصہ برقراررہی،جب یقین ہوگیاکہ شراب بنانےوالےپرانے برتن ختم ہوگئےیاان کےاندرسے’’خمیر‘‘کےاجزاءمکمل طورپرزائل ہوگئےتوان کےعام استعمال کی اجازت مرحمت فرمادی۔ یہ تاکیدی حکم باقی رہاکہ کسی حلال مشروب(نبیذ،پھلوں کےرس وغیرہ)کواسی وقت تک استعمال کرناجائزہےجب تک ان میں تخمیرکاعمل شروع ہونےکاامکان ہی پیدانہ ہواہو۔ اورمسامداربرتنوں ،مثلا:روغن قارملےہوئےبرتنوں میں نبیذبنانےکی پابندی بھی برقراررہی۔ (حدیث:5210)
اسلام نےمضرصحت نشہ آورمشروبات کی ممانعت کےساتھ صحت بخش مشروبات خصوصادودھ پینےکی حوصلہ افزائی بھی کی ہے۔ صحت کےحوالےسےیہ ہدایت بھی دی کہ کھانےپینےکی تمام اشیاءکی ہرصورت میں ڈھک کررکھاجائے۔ کھانےپینےکی اشیاءاللہ تعالیٰ کی قدرت،رحمت اورلطف وکرم کاخاص کرشمہ ہیں۔ اللہ نےانہیں اس طرح پیدافرمایاہےکہ یہ انسان کےجسم کوصحت اورتوانائی بخشتی ہیں اوراس کےساتھ مزےسےبھرپورہیں۔ یہ انسان کےکام ودہن کولذت بخشتی ہیں اورپھرکےحکم سےاس کےجسم کاحصہ بن جاتی ہیں۔ رسول اللہﷺ نےاپنی امت کواس بات کی تعلیم دی ہےکہ اگریہ اللہ کےحکم کےمطابق،انہیں اس کی نعمت سمجھتےہوئے،پاکیزگی کااہتمام کرتےہوئےاورا س کانام لےکراستعمال کریں تواللہ تعالیٰ ان میں برکت شامل کردیتاہے۔ اس عظیم روحانی پہلوپرصحیح مسلم کےکتاب الاشربۃ میں تفصیل سےروشنی ڈالی گئی ہے۔ بےبرکتی کےاسباب واضح کیےگئےہیں۔ پاکیزگی کےحوالےسےدایاں ہاتھ استعمال کرنے،برتن میں سانس نہ لینے،برتنوں کوگندانہ کرنے،اطمینان اورآرام سےبیٹھ کرکھانےپینےاورپانی وغیرہ پیتےہوئےبارباربرتن سےمنہ ہٹاکرسانس لینےاورکانام لےکرکھانےپینےکی تعلیم دی گئی ہے۔ ا س بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہےکہ کھانےکی ادنیٰ ترین مقداربھی ضائع نہیں کرنی چاہیے،کھانےکابرتن اچھی طرح صاف کرناچاہیےاورانگلیاں چاٹ لینی چاہئیں ،اس میں برکت ہے۔ مغرب زدہ متکبرین انگلیاں چاٹنےکوبراسمجھتےرہے۔ اب جدیدسائنس نےہی،جسےیہ لوگ علم کی انتہاسمجھتےہیں،ان کی سوچ کی غلطی واضح کرتےہوئےیہ شہادت پیش کردی ہےکہ انگلیوں سےکھاناکھاتےہوئےان کی سطح پرایسامادہ پیداہوجاتاہےجوکھانےکےاندرمضرصحت جراثیم کوختم کردیتاہے۔ انگلیاں چاٹ لیناانتہائی صحت بخش طریقہ ہے۔ اس بات کی بھی تعلیم دی گئی کہ صاف دھلےہوئےدائیں ہاتھ سےکھاناچاہیے۔ اوراپنےآگےسےکھاناچاہیے۔ انگوٹھےکےساتھ دوانگلیاں استعمال کرنی چاہئیں ۔کھجوروغیرہ کھاکراس کی گٹھلیاں دوبارہ اسی برتن میں نہیں ڈالنی چاہئیں کسی کھانےمیں عیب جوئی نہیں کرنی چاہیےاورحلال چیزوں میں بھی نفیس ترین اوربوسےپاک اشیاءکوترجیح دینی چاہیے۔
اس سےآگےبڑھ کریہ واضح کیاگیاہےکہ مذکورہ بالاتمام ہدایات کی پابندی کےساتھ اگراللہ کی رضاکےلیے کھانےمیں مواسات،زیادہ سےزیادہ لوگوں کوشریک کرنے،خودپردوسروں کوترجیح دینےکاارادہ اوراس پرعمل کیاجائےتوکھانےمیں ایسی برکت پیداہوجاتی ہےکہ انسانی عقل حیران رہ جاتی ہے۔ رسول اللہﷺتومواسات سےبڑھ کرامت کےتمام افرادکےلیے مجسم محبت خیرخواہی اورلطف وکرم کاسرچشمہ تھے۔ آپ کی برکت سےدوچارلوگوں کاکھانایاپیناتوسیکڑوں بلکہ ہزاروں افرادکوسیرکردیتاتھا،پھربھی بچارہتاتھا،عام مسلمان بھی جب دوسرےبھائیوں کواپنےساتھ شریک کریں توایک آدمی کاکھاناکم ازکم دوکواوردوآدمیوں کاکھاناچارکوبہ آسانی کفایت کرےگا۔ مواسات کاجذبہ اوراخلاص جس قدربڑھتاجائےگا، برکت میں اسی قدراضافہ ہوجائےگا۔
حضرت ابوبکرصدیقاس بات پرسخت پریشان ہوئےاورانہیں غصہ آیاکہ ان کی ناگریزغیرحاضری کےدوران میں ان کےمہمان بہت دیرتک بھوکےرہے۔ اس میں اگرچہ مہمانوں کےاپنےاصرارہی کادخل تھالیکن حضرت ابوبکرکی پریشانی اورغصہ اللہ کی رضاکےلیےتھا۔ اپنےمہمانوں کی شدیدخیرخواہی کاجذبہ بھی اللہ کی رضاکےلیے تھا۔ یہ صرف اورصرف اللہ کےلیے خیرخواہی اوراللہ کےلیے غصےکامظاہرہ تھا۔ اس بناپراللہ نےان کےتھوڑےسےکھانےمیں اتنی برکت ڈال دی کہ مہمانوں اورگھروالوں کےعلاوہ وہ اللہ کی راہ میں جہادکےلیے جانےوالوں کےبھی کام آیا۔
محمد بن سہل تیمی اور ابوبکر بن اسحٰق نے کہا: ہمیں ابن ابی مریم نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں ابوغسان محمد بن مطرف نے بتایا کہ مجھے ابوحازم نے حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت بیان کی، کہا: رسول اللہ ﷺ کے سامنے عرب کی ایک عورت کا ذکر کیا گیا۔ (اس کے والد نعمان بن ابی الجون کندی نے پیش کش کی) آپ% نے ابواسید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا: کہ اس (عورت کولانے کے لیے اس) کی طرف سواری وغیرہ بھیجیں، تو انھوں (حضرت ابو اسید رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے بھیج دی، وہ عورت آئی، بنوساعدہ کے قلعہ نما مکانات میں ٹھہری، رسول اللہ ﷺ گھر سے روانہ ہو کر اس کے پاس تشریف لے گئے، جب آپ اس کے پاس گئے، تو وہ عورت سر جھکائے ہوئے تھی، رسول اللہ ﷺ نے جب اس سے بات کی تو وہ کہنے لگی: میں آپ سے اللہ کی پناہ میں آتی ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں نے تمھیں خود سے پناہ دے دی۔‘‘ لوگوں نے اس سے کہا: کیا تم جا نتی ہو یہ کو ن ہیں؟ اس نے کہا: نہیں، انھوں نے کہا: یہ رسول اللہ ﷺ تھے اور تمھیں نکا ح کا پیغا م دینے تمھارے پاس آئے تھے۔ اس نے کہا: میں اس سے کم تر نصیب والی تھی۔ سہل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: اس دن رسول اللہ ﷺ تشریف لائے، آپ خود اور آپ کے ساتھی بنوساعدہ کے چھت والے چبوترے پر تشریف فرما ہوئے، پھر آپ نے سہل سے کہا: ’’ہمیں پانی پلاؤ‘‘ کہا: میں نے ان کے لیے وہی پیالہ (نما برتن) نکالا اور اس میں آپﷺ کو پلایا۔ ابوحازم نے کہا: سہل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہمارے لیے بھی وہی پیالہ نکالا اور ہم نے بھی اس میں سے پیا، پھر عمر بن عبد العزیز نے حضرت سہل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے وہ پیالہ بطور ہبہ مانگ لیا۔ حضرت سہل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہ پیالہ ان کو ہبہ کر دیا۔ ابوبکر بن اسحاق کی روایت میں ہے: آپ ﷺ نے فرمایا: ’’سہل! ہمیں (کچھ) پلاؤ۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک عرب عورت کا ذکر کیا گیا، (کہ آپ اس سے شادی کر لیں) تو آپ نے ابواسید کو حکم دیا، اس کو پیغام بھیجیں، تو انہوں نے اسے پیغام بھیجا، وہ آ گئی اور بنوساعدہ کی گڑھی میں ٹھہری، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکل کر اس کے پاس پہنچ گئے، تو وہ ایک عورت تھی جو سر جھکائے ہوئے بیٹھی تھی، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے گفتگو کا آغاز فرمایا، وہ کہنے لگی: میں آپ سے اللہ کی پناہ میں آتی ہوں، آپﷺ نے فرمایا: ’’میں نے تجھے اپنے سے پناہ دی۔‘‘ لوگوں نے پوچھا، تجھے معلوم ہے یہ کون ہیں؟ اس نے کہا: نہیں، لوگوں نے بتایا، یہ اللہ کے رسول ہیں، تجھے منگنی کا پیغام دینا چاہتے ہیں، اس نے کہا: میں یہ مقام حاصل کرنے میں انتہائی بدبخت رہی۔ حضرت سہل کہتے ہیں: اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آ کر اپنے ساتھیوں کے ساتھ بنوساعدہ کے سقیفہ (چھت) میں بیٹھ گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سہل سے فرمایا: ’’ہمیں پانی پلاؤ۔‘‘ حضرت سہل رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں تو میں نے ان کے لیے یہ پیالہ نکالا اور انہیں اس میں پانی پلایا، ابو حازم بیان کرتے ہیں: حضرت سہل وہ پیالہ ہمارے پاس لائے اور ہم نے اس میں پانی پیا، پھر اس کے بعد حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ان سے کہا: یہ پیالہ مجھے ہبہ کر دو، تو انہوں نے اسے انہیں ہبہ کر دیا۔ ابوبکر بن اسحاق کی روایت میں ہے، آپﷺ نے فرمایا: ’’ہمیں پلائیے، اے سہل!‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
یہ عورت امیمہ بنت نعمان بن شراحیل تھی، جو انتہائی خوبرو تھی اور اپنے چچا زاد خاوند کی موت دیکھ چکی تھی، اس کے باپ نعمان بن شراحیل نے خود پیشکش کی تھی کہ آپ میری بیٹی سے جو ’’أجمل أيم فی العرب" عرب کی سب سے زیادہ خوبصورت بیوہ ہے، شادی کر لیں، کیونکہ وہ خود بھی اس کی خواہشمند ہے، آپ نے اس کی پیشکش قبول کر لی اور اس کے کہنے پر حضرت ابواسید رضی اللہ عنہ کو اس کے لانے کا انتظام کرنے کا حکم دیا، وہ خود ہی اس کے لیے تیار ہوگئے اور اسے لے آئے، چونکہ وہ انتہائی خوبصورت تھی، اس لیے ناز و نخرے کی بنا پر اس کا دماغ بہت اونچا تھا۔ بخاری شریف کی روایت کے مطابق جب آپ نے اسے اپنے پاس آنے کے لیے کہا تو اس نے اپنی بددماغی سے کہا، کیا کبھی رانی بھی عام آدمی کے پاس آئی ہے تو آپ نے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ فرماتے ہوئے اس کو تسلی و تشفی دینے کے لیے، اس پر شفقت کا ہاتھ رکھنا چاہا تو اس نے یہ کلمات کہہ ڈالے اور اس حدیث میں جو یہ الفاظ ہیں، وہ آپ کو منگنی کا پیغام دینے آئے تھے تو اس کا مقصد یہ ہے کہ اس کا باپ آپ سے شادی کی خواہش کا اظہار کر چکا تھا، وہی اسے بتانا چاہتے تھے، کیونکہ دوسری روایات سے ثابت ہوتا ہے، آپ اس کے باپ کے کہنے پر اس سے شادی کر چکے تھے، اس لیے آپﷺ نے اس سے خلوت کی اور اس پر شفقت کا ہاتھ رکھنا چاہا، لیکن جب اس نے آپ سے اللہ کی پناہ چاہی تو آپ نے اسے طلاق دے دی اور حضرت اسید رضی اللہ عنہ کو فرمایا: ’’اسے رازقی کپڑوں کو جوڑا دے کر اس کے گھر والوں کے پاس پہنچا دو۔‘‘ اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی استعمال شدہ اشیاء سے تبرک حاصل کیا جا سکتا ہے، جس چیز کو آپ نے چھوا ہو، جس کپڑے کو آپ نے پہنا ہو، جس برتن سے آپ نے پانی پیا ہو، اس پر اجماع ہے، لیکن اس پر دوسرے حقیقی یا فرضی اولیاء اور صلحاء کو قیاس کرنا درست نہیں ہے، اگر ایسا ہوتا تو صحابہ کرام کم از کم شیخین کی متروکہ اشیاء سے تبرک حاصل کرتے یا تابعین صحابہ کرام کے آثار سے تبرک حاصل کرتے، اس قیاس نے شرک و بدعت کا دروازہ کھولا ہے اور لوگ اشیاء کے مزارات پر طرح طرح کے شرکیہ اور بدعی کام کرتے نظر آتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Sahl bin Sa'd reported: An Arab woman was mentioned before Allah's Messenger (ﷺ) . He commanded Abu Usaid to send a message to her and he (accordingly) sent a message to her. She came and stayed in the fortresses of Banu Sa'idah. Allah's Messenger (ﷺ) went out until he came to her while she was (at that time) sitting with her head downcast. When Allah's Messenger (ﷺ) talked to her, she said: I seek refuge with Allah from you. Thereupon he said: I (have decided to) keep you away from me. They (the people near her) said: Do you know who he is? She said: No. They said: He is the Messenger of Allah (ﷺ) . He came to you in order to give you the proposal of marriage. She said: Then I am the most unfortunate woman because of this (i. e. my defiance). Sahl said: Allah's Messenger (ﷺ) then set forth on that day until he sat in the Saqifa of Banu Sa'idah along with his Companions. He then said to Sahl (RA) : Serve us drink. He (Sahl) said: I brought out for them this bowl (containing drink) and served them this. Abu Hazim said: Sahl brought out this cup for us and we also drank from that. Then 'Umar bin 'Abdul ' Aziz (RA) asked him to give that (cup) as a gift to him and he gave (it to) him as a gift. In the narration of Abu Bakr (RA) bin Ishaq (the words) are: "Sahl, serve us drink."