باب: دودھ،پانی یاکوئی اورمشروب تقسیم کرتے ہوئے ابتداء کرنے والے کی دائیں طرف سے شروع کرنا مستحب ہے
)
Muslim:
The Book of Drinks
(Chapter: It is recommended to pass water and milk etc., to the right of the one who drinks first)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2030.
امام مالک بن انس نے ابوحازم سے، انھوں نے حضرت سہل بن ساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس پینے کی کوئی چیز آئی تو آپ ﷺ نے اس سے پیا۔ آپ ﷺ کے دائیں طرف ایک لڑکا تھا اور بائیں طرف بڑے لوگ تھے، آپ ﷺ نے لڑکے سے فرمایا: ’’تو مجھ کو بڑے لوگوں کو پہلے دینے کی اجازت دیتا ہے؟‘‘ وہ بولا کہ نہیں، اللہ کی قسم! میں اپنا حصہ کسی دوسرے کو نہیں دینا چاہتا۔ یہ سن کر آپ ﷺ نے اس لڑکے کے ہاتھ میں دے دیا۔
کتاب الاشربہ اپنےمعانی کےاعتبارسےایک وسیع المطالب کتاب ہے۔ مشروبات میں حلال وحرام مشروبات کی تفصیل،شراب کےنقصانات ،وہ حالات جن میں شراب کوحتمی طورپرحرام قراردیاگیا،صحابہ کاجذبہ اطاعت مختلف چیزوں سےبننےوالی شرابوں کی مشرکہ صفت اورمضرت،اس سےمکمل اجتناب کےلیے مشروب سازی اوربرتنوں تک کےحوالےسےاحتیاطی احکام،حلال مشروبات کےحوالےسےصحت کےلیے ضروری احتیاطی تدابیر،پینےاور کھانےدونوں کےمعاشرتی اورروحانی آداب،حلت وحرمت کےحوالےسےاوہام پرمبنی تصورات،شخصی ناپسندیدگی اورحرمت،کھانےپینےمیں موسات اوربرکت،اس کتاب میں ان تمام موضوعات کےحوالےسےرہنمائی کےلیے ارشادات نبویہ پیش کیےگئےہیں۔
کتاب کاآغازاس افسوسناک واقعےسےکیاگیاہےجوحضرت حمزہکی شراب نوشی کی بناپرحضرت علیاورخود رسالت مآبﷺکوپیش آیا۔ حضرت حمزہ شراب نوشی کی ایک مجلس میں شریک ہوئے،گانےوالی نے شراب کےنتیجےمیں پیداہونےوالی خودفریبی اوراپنی عظمت وسخاوت کےانتہائی مبالغہ آمیزاحساس کومزیداجاگرکیا اورباہربیٹھیں حضرت علیکی دواونٹنیوں کے،جوان کی کل متاع تھیں،کباب کھلانےکی تان اڑائی۔شراب اپنےپینےوالوں کےاحساس عظمت کواتنابڑھادیتی ہےکہ عقل ودانش کی جملہ قیودٹوٹ جاتی ہیں۔ حضرت حمزہ نےگانےوالی کےالفاظ کےعین مطابق اپنی تلواراٹھائی اوران اونٹنیوں کی کوہانیں کاٹیں، پیٹ چاک کیے،کلیجےنکالے اورکباب بنانےوالوں کےحوالےکردیے۔ حضرت علیشدیدصدمےکےعالم میں رسول اللہﷺکےپاس آئے، ان کی بات سن کرآپ ﷺچل کرحمزہکےپاس توپتہ چلاکہ حضرت حمزہشراب کےنشےمیں پہچان اورتمیزتک کھوچکےہیں۔ شراب کی حرمت کےتدریجی مراحل کاآغازہوچکاتھا۔ یہ واقعہ پورےمدینہ والوں کی آنکھیں کھول دینےاورشراب کےشدیدنقصان کوپوری طرح واضح کرنےکےلیے کافی تھا۔ اس کےنتیجےمیں شراب کی حتمی حرمت کااعلان کردیاگیا۔ یہ ایمان لانےوالوں کےلیے ایک سخت امتحان تھا۔ یہ رسول اللہﷺکی بےمثال تربیت اوراس کےنتیجےمیں حاصل ہونےوالی ایمان کی مضبوطی تھی کہ شراب کی حرمت کےاعلان کےساتھ ہی شراب چھوڑدی گئی،مٹکےتوڑدیےگئےاورشراب کوگلیوں میں بہادیاگیا۔ یہ اہل ایمان کی عظیم الشان کامیابی تھی۔
اللہ کی رہنمائی کابنیادی مقصدیہ ہےکہ انسان اپنےخالق اورحقیقی مالک کوپہچانے،اپنےبرےبھلےمیں تمیزکرے،اس کےازلی دشمن شیطان نےاس کوتباہ کرنےکےلیےجوفریب کےجال پھیلارکھےہیں ان کےدھوکےمیں نہ آئے، اپنی حقیقی کامیابی کےمقصدسےغافل نہ ہو۔ شراب اس سےپہچان اورتمیزچھین کراسےاپنےسب سےبڑےدشمن کا شکاربننےکےلیے تیارکردیتی ہے۔ یہ شیطان کاسب سےخوفناک پھنداہےجس کےذریعےسےانسان کی تباہی یقینی ہوجاتی ہے،اس لیے شراب چاہےجس چیزکی بنی ہوئی ہواورجس نام سےہواس کوپوری سختی سےحرام کردیاگیااور اس سےاجتناب کویقینی بنانےکےلیے ان ذرائع کوبھی مسدودکیاگیاجوانسان کواس تک لےجاسکتےہیں۔
اس زمانےمیں حجازکےعلاقےمیں شراب’’نخلہ‘‘(کھجورکےدرخت)اور’’کرمہ‘‘(انگورکی بیل)کےپھلوں سے بنتی تھی۔ شراب بنانےکےلیے نیم پختہ کھجوراورتازہ کھجورکویانیم پختہ کھجوراورخشک کھجورکویاکھجوراورکشمش کوملاکرپانی میں اس کارس نکالاجاتاتھا، پھراسےرکھاجاتاحتی کہ اس میں تخمیرکاعمل ہوتااوروہ شراب بن جاتی۔ مختلف قسم کےکچے،پکےتازہ اورخشک پھلوں کارس ملانےسےاس میں تندی آجاتی اورجلدتخمیرکاعمل شروع ہوجاتا۔ یمن میں شہدکےشربت سےشراب بنائی جاتی تھی جسے’’بتع‘‘کہتےتھے۔ جوسےبھی شراب بنائی جاتی تھی،اسے’’مزر‘‘کہتے تھے۔ رسول اللہﷺنےاس سےقطع نظرکہ وہ کسی چیزسےبنی ہوئی ہیں،تمام شرابوں کوحرام قراردیابلکہ صریح الفاظ میں ہرقسم کی نشہ آورچیزکی حرمت کااعلان فرمایادیا۔ قاعدہ کلیہ یہ بیان فرمایا(كُلَّ مُسْكِرٍ خَمْرٌ وَكُلَّ مُسْكِرٍحَرَامٌ)’’ہرنشہ آورچیزخمر(شراب)ہےاورہرنشہ آورچیزحرام ہے۔‘‘(حدیث:5218)
کھجورکوپانی میں ملاکراس کابنایاہواشربت’’نبیذ‘‘عربوں کوبہت مرغوب تھالیکن اس شربت پرتھوڑاساوقت گزرجاتا توعمل تخمیرسےیہ نشہ آوربن جاتا۔ اگراسےمسامداربرتنوں میں بنایاجاتاتواستعمال کےبعد،دھونےکےباوجودان برتنوں کےمساموں میں اس کےاجزاءرہ جاتےاوران کاخمیربن جاتا۔ ان برتنوں میں دوبارہ رس ڈالنےکےبعدتخمیر کاعمل عمل فوراشروع ہوجاتااورنبیذنشہ آورہونےلگتی۔ رسول اللہﷺنےاللہ نےحکم سےاپنی امت کواس غلاظت سےمکمل طورپرمحفوظ رکھنےکےلیے یہ حکم دیاکہ ایک ہی قسم کےکچےاورپکےبرتنوں کااستعمال ممنوع قراردیاجن میں شراب بنائی جاتی تھی۔ اگرشراب نہ بنائی گئی ہوتوبھی مسامداربرتنوں میں مشروب بنانےکی ممانعت فرمادی۔ ان برتنوں میں سوکھےکدوکوکھوکھلاکرکےبنائےہوئےبرتن،لکڑی کےبرتن،روغن قارملےہوئےبرتن اورمٹی کےگھڑےوغیرہ شامل تھے۔ مشکیزوں میں نبیذبنانےکی اجازت دی کیونکہ ان میں تخمیرکاعمل جلدشروع نہیں ہوتا۔ برتنوں کےحوالےسےیہ پابندی کچھ عرصہ برقراررہی،جب یقین ہوگیاکہ شراب بنانےوالےپرانے برتن ختم ہوگئےیاان کےاندرسے’’خمیر‘‘کےاجزاءمکمل طورپرزائل ہوگئےتوان کےعام استعمال کی اجازت مرحمت فرمادی۔ یہ تاکیدی حکم باقی رہاکہ کسی حلال مشروب(نبیذ،پھلوں کےرس وغیرہ)کواسی وقت تک استعمال کرناجائزہےجب تک ان میں تخمیرکاعمل شروع ہونےکاامکان ہی پیدانہ ہواہو۔ اورمسامداربرتنوں ،مثلا:روغن قارملےہوئےبرتنوں میں نبیذبنانےکی پابندی بھی برقراررہی۔ (حدیث:5210)
اسلام نےمضرصحت نشہ آورمشروبات کی ممانعت کےساتھ صحت بخش مشروبات خصوصادودھ پینےکی حوصلہ افزائی بھی کی ہے۔ صحت کےحوالےسےیہ ہدایت بھی دی کہ کھانےپینےکی تمام اشیاءکی ہرصورت میں ڈھک کررکھاجائے۔ کھانےپینےکی اشیاءاللہ تعالیٰ کی قدرت،رحمت اورلطف وکرم کاخاص کرشمہ ہیں۔ اللہ نےانہیں اس طرح پیدافرمایاہےکہ یہ انسان کےجسم کوصحت اورتوانائی بخشتی ہیں اوراس کےساتھ مزےسےبھرپورہیں۔ یہ انسان کےکام ودہن کولذت بخشتی ہیں اورپھرکےحکم سےاس کےجسم کاحصہ بن جاتی ہیں۔ رسول اللہﷺ نےاپنی امت کواس بات کی تعلیم دی ہےکہ اگریہ اللہ کےحکم کےمطابق،انہیں اس کی نعمت سمجھتےہوئے،پاکیزگی کااہتمام کرتےہوئےاورا س کانام لےکراستعمال کریں تواللہ تعالیٰ ان میں برکت شامل کردیتاہے۔ اس عظیم روحانی پہلوپرصحیح مسلم کےکتاب الاشربۃ میں تفصیل سےروشنی ڈالی گئی ہے۔ بےبرکتی کےاسباب واضح کیےگئےہیں۔ پاکیزگی کےحوالےسےدایاں ہاتھ استعمال کرنے،برتن میں سانس نہ لینے،برتنوں کوگندانہ کرنے،اطمینان اورآرام سےبیٹھ کرکھانےپینےاورپانی وغیرہ پیتےہوئےبارباربرتن سےمنہ ہٹاکرسانس لینےاورکانام لےکرکھانےپینےکی تعلیم دی گئی ہے۔ ا س بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہےکہ کھانےکی ادنیٰ ترین مقداربھی ضائع نہیں کرنی چاہیے،کھانےکابرتن اچھی طرح صاف کرناچاہیےاورانگلیاں چاٹ لینی چاہئیں ،اس میں برکت ہے۔ مغرب زدہ متکبرین انگلیاں چاٹنےکوبراسمجھتےرہے۔ اب جدیدسائنس نےہی،جسےیہ لوگ علم کی انتہاسمجھتےہیں،ان کی سوچ کی غلطی واضح کرتےہوئےیہ شہادت پیش کردی ہےکہ انگلیوں سےکھاناکھاتےہوئےان کی سطح پرایسامادہ پیداہوجاتاہےجوکھانےکےاندرمضرصحت جراثیم کوختم کردیتاہے۔ انگلیاں چاٹ لیناانتہائی صحت بخش طریقہ ہے۔ اس بات کی بھی تعلیم دی گئی کہ صاف دھلےہوئےدائیں ہاتھ سےکھاناچاہیے۔ اوراپنےآگےسےکھاناچاہیے۔ انگوٹھےکےساتھ دوانگلیاں استعمال کرنی چاہئیں ۔کھجوروغیرہ کھاکراس کی گٹھلیاں دوبارہ اسی برتن میں نہیں ڈالنی چاہئیں کسی کھانےمیں عیب جوئی نہیں کرنی چاہیےاورحلال چیزوں میں بھی نفیس ترین اوربوسےپاک اشیاءکوترجیح دینی چاہیے۔
اس سےآگےبڑھ کریہ واضح کیاگیاہےکہ مذکورہ بالاتمام ہدایات کی پابندی کےساتھ اگراللہ کی رضاکےلیے کھانےمیں مواسات،زیادہ سےزیادہ لوگوں کوشریک کرنے،خودپردوسروں کوترجیح دینےکاارادہ اوراس پرعمل کیاجائےتوکھانےمیں ایسی برکت پیداہوجاتی ہےکہ انسانی عقل حیران رہ جاتی ہے۔ رسول اللہﷺتومواسات سےبڑھ کرامت کےتمام افرادکےلیے مجسم محبت خیرخواہی اورلطف وکرم کاسرچشمہ تھے۔ آپ کی برکت سےدوچارلوگوں کاکھانایاپیناتوسیکڑوں بلکہ ہزاروں افرادکوسیرکردیتاتھا،پھربھی بچارہتاتھا،عام مسلمان بھی جب دوسرےبھائیوں کواپنےساتھ شریک کریں توایک آدمی کاکھاناکم ازکم دوکواوردوآدمیوں کاکھاناچارکوبہ آسانی کفایت کرےگا۔ مواسات کاجذبہ اوراخلاص جس قدربڑھتاجائےگا، برکت میں اسی قدراضافہ ہوجائےگا۔
حضرت ابوبکرصدیقاس بات پرسخت پریشان ہوئےاورانہیں غصہ آیاکہ ان کی ناگریزغیرحاضری کےدوران میں ان کےمہمان بہت دیرتک بھوکےرہے۔ اس میں اگرچہ مہمانوں کےاپنےاصرارہی کادخل تھالیکن حضرت ابوبکرکی پریشانی اورغصہ اللہ کی رضاکےلیےتھا۔ اپنےمہمانوں کی شدیدخیرخواہی کاجذبہ بھی اللہ کی رضاکےلیے تھا۔ یہ صرف اورصرف اللہ کےلیے خیرخواہی اوراللہ کےلیے غصےکامظاہرہ تھا۔ اس بناپراللہ نےان کےتھوڑےسےکھانےمیں اتنی برکت ڈال دی کہ مہمانوں اورگھروالوں کےعلاوہ وہ اللہ کی راہ میں جہادکےلیے جانےوالوں کےبھی کام آیا۔
امام مالک بن انس نے ابوحازم سے، انھوں نے حضرت سہل بن ساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس پینے کی کوئی چیز آئی تو آپ ﷺ نے اس سے پیا۔ آپ ﷺ کے دائیں طرف ایک لڑکا تھا اور بائیں طرف بڑے لوگ تھے، آپ ﷺ نے لڑکے سے فرمایا: ’’تو مجھ کو بڑے لوگوں کو پہلے دینے کی اجازت دیتا ہے؟‘‘ وہ بولا کہ نہیں، اللہ کی قسم! میں اپنا حصہ کسی دوسرے کو نہیں دینا چاہتا۔ یہ سن کر آپ ﷺ نے اس لڑکے کے ہاتھ میں دے دیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشروب پیش کیا گیا، آپ نے اس میں سے پی لیا، آپ کے دائیں جانب ایک نوعمر لڑکا تھا اور بائیں طرف بڑی عمر کے افراد تھے، آپﷺ نے نوعمر لڑکے سے پوچھا: ’’کیا تم مجھے اجازت دیتے ہو کہ میں ان کو دے دوں؟‘‘ لڑکے نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! آپﷺ سے ملنے والے اپنے حصہ پر میں کسی کو ترجیح نہیں دوں گا تو آپﷺ نے اسے سختی سے اس کے ہاتھ میں دے دیا۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
اس واقعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دائیں طرف بیٹھنے والے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما تھے، جو آپ کے عزیز تھے اور بائیں طرف، بیٹھنے والے بھی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے عزیز تھے، اس لیے آپ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ان کو دینے کی اجازت طلب کی کہ وہ اپنا حق اپنے بڑوں کو دے دیں اور بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے، آپ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے خالہ زاد حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دینا چاہا، لیکن انہوں نے حضور کا جھوٹا ہونے کی برکت کی بنا پر اس کو گوارا نہیں کیا تو آپ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو ہی دے دیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Sahl bin Sa'd Sa'idi reported that Allah's Messenger (ﷺ) was given a drink, and he drank from that, and there was on his right side a boy, and on his left some old men. He said to the boy: Do you permit me to give it to them (the old men), but that boy said: by God. I will not give preference at your hand over me in my share. He (the narrator) said that Allah's Messenger (ﷺ) then gave it in his hand.