باب: مردوں کے لیے ریشم وغیرہ (کی مختلف اقسام )پہننا حرا م ہے
)
Muslim:
The Book of Clothes and Adornment
(Chapter: The Prohibition Of Wearling Silk Etc. For Men)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2070.
ابو زبیر نے کہا کہ انھوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا، کہہ رہے تھے: نبی کریم ﷺ نے ایک دن دیباج کی قبا پہنی جو آپ کو ہدیہ کی گئی تھی، پھر فوراً ہی آپ نے اس کو اتار دیا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بھیج دی۔ آپ سے کہا گیا: یارسول اللہ ﷺ! آپ نے اس کو فوراً اتار دیا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’مجھے جبریل علیہ السلام نے اس سے منع کردیا۔‘‘ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روتے ہوئے آئے اور عرض کی: اللہ کے رسول ﷺ! آپ نے ایک چیز ناپسند کی اور وہ مجھے دے دی! اب میرے لئے کیا (راستہ) ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’میں نے یہ تمھیں پہننے کےلیے نہیں دی، میں نے تمھیں اس لئے دی کہ اس کو بیچ لو۔‘‘ تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو دو ہزار درہم میں فروخت کردیا۔
تشریح:
فوائد و مسائل:
1۔ اس روایت میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے واقعے کی مزید تفصیلات بیان ہوئی ہیں ان کے ذریعے سے وہ واقعہ زیادہ واضح طور پر سامنے آ جاتا ہے۔ عطارد والی قبا مکمل ریشم کی تھی۔ آپﷺ نے اسے پہننا گوارا نہ فرمایا۔ یہ جو ریشمی کپڑے بھیجے گئے تھے ان کی بنتی میں ریشم ملا ہوا تھا۔ ان میں سے آپﷺ نے جو قبا پہنی اس میں ریشم کی مقدار بہت کم تھی لیکن رسول اللہ ﷺ نے اسے پہنا تو جبریل علیہ السلام نے فوراً آ کر خبر دی کہ اس میں ریشم کی مقدار زیادہ ہے اور آپﷺ کو اسے پہننے سے روک دیا، آپﷺ نے فوراً اتار کر یہ قبا حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اور دوسرے کپڑے مختلف صحابہ، مثلاً حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اورحضرت اسمہ رضی اللہ تعالی عنہ کو بھجوا دیے، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سخت فکر مندی اور غم کے عالم میں آئےکہ رسول اللہ ﷺ نے خود تو فرمایا تھا کہ (مردوں کےلیے) ریشم پہننا حرام ہے، پھر پﷺ نے خود جو چیز کراہت سے اتاری وہ مجھے کیوں بھجوا دی۔ انھوں نے آ کر یہی باتیں رسول اللہ ﷺ سے عرض کیں تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’میں نے یہ تمہاری پہننے کے لیے نہیں بھیجا بلکہ اس لیے بھیجا تھا کہ (بیچ کر یا خواتین کو پہنا کر) اس سے فائدہ اٹھاؤ۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اسے بیچ دیا اور اس کی قیمت عثمان بن حکیم کو مکہ بھجوا دی جن کےساتھ وہ احسان کرنا چاہتے تھے۔ چونکہ یہ کپڑے اصل میں عثمان بن حکیم کے کام آئے، اس لیے بعض بیان کرنے والوں نے ’’کساه أخاله‘‘ کے الفاظ استعمال کیے۔ ’’کسا‘‘ فائدہ اٹھانے کےلیے کپڑے یا اس کی قیمت دینے کے معنی ہیں ہے۔ 2۔ بعض شارحین نے حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث کو پیش نظر رکھے بغیر کسا کے معنی پہنانے کے لیے ہیں اور اس مشکل میں پڑ گئے ہیں کہ جو چیز کسی مسلمان کے اپنے لیے حلال نہ ہو کسی کافر کو استعمال کرا سکتا ہے۔ یہ ایسے ہو گا کہ کوئی مسلمان حرام چیز خود نہ کھائے، کافر کو کھلاتا رہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے چونکہ بعینہ عثمان بن حکیم کو نہیں بھیجا، اس لیے ان کے حوالے سے یہ سوال ہی اٹھانا غلط ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے اس کی فروخت ممنوع نہ تھی کیونکہ ریشم عورتوں کے لیے حلال ہے اور ان کے استعمال کےلیے اسے بیچا اور خریدا جا سکتا ہے۔
لباس شرم وحیا،صحت اورموسم کےحوالےسےانسان کی بنیادی ضرورت ہےاوراس کےلیے زینت کاسبب بھی۔ اللہ تعالیٰ نےعورت اورمردکوالگ الگ اندازسےخوبصورت بنایاہے۔ دونوں کےلیے زینت کےاندازبھی مختلف ہیں۔ مرداگرعورت کی طرح زینت اختیارکرےتوبرالگتاہےاورعورت اگرمردکیطرح زینت اختیارکرےتوبری لگتی ہے۔
اسی طرح زینت اوراستکباربھی دوالگ الگ چیزیں ہیں۔ ان کےدرمیان جولکیرحائل ہےوہ مٹ جائےتوعام انسانوں کےلیے بہت سی مشکلات پیداہوتی ہیں۔ انسان کارہناسہنابھلےآرام دہ ہولیکن امارت کی نمودونمائش کاایساذریعہ نہ ہوجس سےعام لوگ مرعوب ہوں اوران کی دلوں میں اپنی محرومی اوردوسروں کی بےحدوحساب اورغیرمنصفانہ امارت کااذیت ناک احساس پیداہو۔
امام مسلمنےکتاب اللباس والزینۃ میں انسانی رہن سہن ،لباس اورسواری وغیرہ کےحوالےسےرسول اللہﷺ کےفرامین مقدسہ کوبیان کیاہے۔ سب سےپہلےامارت کی بےجانمائش اورانتہائی مسرفانہ زندگی کےحوالےسےسونےچاندی کےبرتن وغیرہ کےاستعمال کی حرمت بیان کی ہے۔ اس کےبعدصرف عورتوں کےلیے سونےکی زیورات کےجوازکابیان ہے۔ مردوں کےلیے انہیں قطعی طورپرحرام قراردیاگیاہے۔ اسی طرح ریشم کالباس بھی صرف عورتوں کےلیےجائزقراردیاگیاہے، مردوں کےلیے حرام ہے۔اگرغورکیاجائے تواس سےزینت کےحوالےسےعورتوں کووسیع ترمیدان ملتاہے۔ اس میں عورتوں کوایک طرح سےبرتری حاصل ہے۔ یہ چیزیں اگرمرداستعمال کریں تویہ ان کی وجاہت اوروقار کےخلاف ہے۔چونکہ یہ چیزیں عورتوں کےلیے حلال ہیں اس لیے مردان کی خریدوفروخت کرسکتےہیں۔ مردوں کواس حوالےسےاتنی سہولت دی گئی ہےکہ ان کےلباس میں بہت معمولی مقدارمیں ریشم موجودہوتووہ اسےاستعمال کرسکتےہیں، تاہم جلدی بیماری وغیرہ کی صورت میں طبی ضرورت کےتحت ریشم کالباس پہننےکی اجازت ہے۔
مردوں کواس طرح کےشوخےرنگ پہننےکی بھی اجازت نہیں جوصرف عورتوں ہی کواچھےلگتےاورنسوانی جمال کونمایاں کرتےہیں ،البتہ اسراف سےپرہیزکرتےہوئےمردوں کےلیے بھی دھاریوں والےیادوسرےجائز نقش ونگارسےمزین لباس کی اجازت ہے۔لباس کےذریعےسےکبرونخوت کااظہاراورمتکبرانہ لباس پہنناممنوع ہے۔ زمانہ قدیم سےکپڑوں کولٹکانا،مردوں کےلیے اظہارتکبرکی ایک علامت ہے۔ مسلمانوں کواس سےمنع کیاگیاہے۔رسول اللہﷺنےجب اردگردکےبادشاہو اورحاکموں کواسلام کی دعوت دینےکےلیے خط لکھنےکاارادہ فرمایاتوبطورمہراستعمال کرنےکےلیے چاندی کی انگوٹھی تیارکروائی ،ضرورتادیگرمسلمانوں کوبھی اس کی اجازت دی گئی اوریہ بھی بتایاگیاکہ کس انگلی میں پہنناموزوں ہے۔ جوتےپہننےکےحوالےسےآپﷺکن باتوں کوملحوظ رکھتے،اس کی وضاحت ہے۔ کس طرح کالباس استعمال کرتےہوئےکیاکیااحتیاط ملحوظ رکھنی چاہیےتاکہ ستراورحیاکےتقاضےپامال نہ ہوں، اس کی بھی وضاحت ہے۔ بالوں کےرنگنےکےحوالےسےاسلامی آداب بھی اسی کتاب میں بیان ہوئےہیں ۔گھرمیں اورخاص طورپرکپڑوں پرجانداروں کی تصویروں کی ممانعت اسلام کاشعارہے۔ اس کےساتھ ہی امام مسلمنےتصویریں بنانےکےحوالےسےاسلامی تعلیمات کوبیان کیاہے۔
اس کےبعدسواریوں اوردیگرجانوروں کےبارےمیں اورراستےکےحقوق کےحوالےسےرسول اللہﷺ کےفرامین بیان کیےگئےہیں۔ آخرمیں بالوں کی قبیح صورتوں اورتزیین وجمال کی غرض سےدجل وفریب پرمبنی اقدامات کی تددیدہے۔ اس کامقصدیہ ہےکہ انسان ایک دوسرےکومحض ظاہری حسن کےحوالےسےپسندنا پسندکرنےکےبجائےپوری شخصیت کےخالص اورحقیقی جمال کوترجیح دیں تاکہ کوئی بھی انسان،خصوصاعورت نہ محض آرائش کی چیزبن کراپنی شخصیت کوپست کرے،نہ ہی کوئی عورت ظاہری جمال میں کمی کی بناپرکم قدرقراردی جائے۔ سادگی حقیقت پسندی اورظاہری خوبیوں کےساتھ باطنی خوبیوں کوسراہنامعاشرےکی مضبوطی کاباعث بنتاہے۔ ظاہری خوبیوں کےدلدادہ لوگوں کےنزدیک چندبچوں کی پیدائش کےبعدعورت قابل نفرت بن جاتی ہے،جبکہ خاندان کےلیے اس وقت اس کی خدمات اورزیادہ ناگزیراورقابل قدرہوتی ہیں، محض ظاہری جمال ہی کوسراہاجانےلگےتوگھراجڑنےاورنمودونمائش کی دکانیں آبادہونےلگتی ہیں۔
ابو زبیر نے کہا کہ انھوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا، کہہ رہے تھے: نبی کریم ﷺ نے ایک دن دیباج کی قبا پہنی جو آپ کو ہدیہ کی گئی تھی، پھر فوراً ہی آپ نے اس کو اتار دیا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بھیج دی۔ آپ سے کہا گیا: یارسول اللہ ﷺ! آپ نے اس کو فوراً اتار دیا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’مجھے جبریل علیہ السلام نے اس سے منع کردیا۔‘‘ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روتے ہوئے آئے اور عرض کی: اللہ کے رسول ﷺ! آپ نے ایک چیز ناپسند کی اور وہ مجھے دے دی! اب میرے لئے کیا (راستہ) ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’میں نے یہ تمھیں پہننے کےلیے نہیں دی، میں نے تمھیں اس لئے دی کہ اس کو بیچ لو۔‘‘ تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو دو ہزار درہم میں فروخت کردیا۔
حدیث حاشیہ:
فوائد و مسائل:
1۔ اس روایت میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے واقعے کی مزید تفصیلات بیان ہوئی ہیں ان کے ذریعے سے وہ واقعہ زیادہ واضح طور پر سامنے آ جاتا ہے۔ عطارد والی قبا مکمل ریشم کی تھی۔ آپﷺ نے اسے پہننا گوارا نہ فرمایا۔ یہ جو ریشمی کپڑے بھیجے گئے تھے ان کی بنتی میں ریشم ملا ہوا تھا۔ ان میں سے آپﷺ نے جو قبا پہنی اس میں ریشم کی مقدار بہت کم تھی لیکن رسول اللہ ﷺ نے اسے پہنا تو جبریل علیہ السلام نے فوراً آ کر خبر دی کہ اس میں ریشم کی مقدار زیادہ ہے اور آپﷺ کو اسے پہننے سے روک دیا، آپﷺ نے فوراً اتار کر یہ قبا حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اور دوسرے کپڑے مختلف صحابہ، مثلاً حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اورحضرت اسمہ رضی اللہ تعالی عنہ کو بھجوا دیے، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سخت فکر مندی اور غم کے عالم میں آئےکہ رسول اللہ ﷺ نے خود تو فرمایا تھا کہ (مردوں کےلیے) ریشم پہننا حرام ہے، پھر پﷺ نے خود جو چیز کراہت سے اتاری وہ مجھے کیوں بھجوا دی۔ انھوں نے آ کر یہی باتیں رسول اللہ ﷺ سے عرض کیں تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’میں نے یہ تمہاری پہننے کے لیے نہیں بھیجا بلکہ اس لیے بھیجا تھا کہ (بیچ کر یا خواتین کو پہنا کر) اس سے فائدہ اٹھاؤ۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اسے بیچ دیا اور اس کی قیمت عثمان بن حکیم کو مکہ بھجوا دی جن کےساتھ وہ احسان کرنا چاہتے تھے۔ چونکہ یہ کپڑے اصل میں عثمان بن حکیم کے کام آئے، اس لیے بعض بیان کرنے والوں نے ’’کساه أخاله‘‘ کے الفاظ استعمال کیے۔ ’’کسا‘‘ فائدہ اٹھانے کےلیے کپڑے یا اس کی قیمت دینے کے معنی ہیں ہے۔ 2۔ بعض شارحین نے حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث کو پیش نظر رکھے بغیر کسا کے معنی پہنانے کے لیے ہیں اور اس مشکل میں پڑ گئے ہیں کہ جو چیز کسی مسلمان کے اپنے لیے حلال نہ ہو کسی کافر کو استعمال کرا سکتا ہے۔ یہ ایسے ہو گا کہ کوئی مسلمان حرام چیز خود نہ کھائے، کافر کو کھلاتا رہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے چونکہ بعینہ عثمان بن حکیم کو نہیں بھیجا، اس لیے ان کے حوالے سے یہ سوال ہی اٹھانا غلط ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے اس کی فروخت ممنوع نہ تھی کیونکہ ریشم عورتوں کے لیے حلال ہے اور ان کے استعمال کےلیے اسے بیچا اور خریدا جا سکتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
امام صاحب اپنے چار اساتذہ سے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت بیان کرتے ہیں، ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیباج کی قبا پہنی، جو آپﷺ کو تحفتا دی گئی تھی، پھر آپ نے اسے جلدی کھینچ ڈالا اور اسے حضرت عمر بن خطاب کی طرف بھیج دیا، آپﷺ سے عرض کیا گیا، اے اللہ کے رسولﷺ! آپ نے اسے فورا ہی اتار ڈالا ہے، تو آپ نے فرمایا: ’’مجھے جبریل علیہ السلام نے اس سے منع کر دیا ہے‘‘ تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ روتے ہوئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا، اے اللہ کے رسولﷺ! ایک چیز آپﷺ نے ناپسند فرمائی ہے اور وہ مجھے عطا کر دی ہے تو میرے لیے کیا حکم ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’میں نے وہ تمہیں پہننے کے لیے نہیں دی، صرف اس لیے دی ہے کہ تم اسے بیچ لو۔‘‘ تو انہوں نے وہ دو ہزار درہم میں فروخت کردی۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اس وقت کا واقعہ ہے، ابھی آپ کو ریشم پہننے سے منع نہیں کیا گیا تھا، جب آپ نے ریشمی قبا پہن لی تو فوراً جبرائیل نے آ کر اس سے منع کر دیا اور آپ نے تعمیل حکم کرتے ہوئے، اس وقت اسے اتار ڈالا، جس سے معلوم ہوا، جبرائیل قرآن کے علاوہ بھی احکام و ہدایات لے کر آپ کے پاس آتے تھے، چونکہ ریشم کا استعمال صرف مردوں کے لیے منع ہے، اس لیے آپ نے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس کے بیچنے کا حکم دیا اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا، اگر کسی کے فعل کے بارے میں کوئی خلجان ہو تو وہ متعلقہ آدمی کے سامنے پیش کر کے اسے حل کروا لینا چاہیے، خواہ مخواہ دل میں اس کے بارے میں بدظنی پیدا نہیں کرنی چاہیے۔ اور یہ اور واقعہ ہے ’’مشرک‘‘ کو دینے کا واقعہ اس سے الگ ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Jabir bin'Abdullah (RA) reported that one day Allah's Apostle (ﷺ) put on a cloak made of brocade, which had been presented to him. He then quickly put it off and sent it to 'Umar bin Khattab, and it was said to him: Messenger of Allah. why is it that you put it of immediately. whereupon he said: Gabriel (ؑ) forbade me from it (i. e. wearing of Ods garment), and 'Umar came to him weeping and said: Messenger of Allah (ﷺ) you disapproved a thing but you gave it to me. What about me, then? Thereupon be (the Holy Prophet) Wd: I did not give it to you to wear it, but I gave you that you might sell it; and so he (Hadrat Umar) sold it for two thousand dirhams.