تشریح:
فوائد و مسائل:
1۔ اس روایت میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے واقعے کی مزید تفصیلات بیان ہوئی ہیں ان کے ذریعے سے وہ واقعہ زیادہ واضح طور پر سامنے آ جاتا ہے۔ عطارد والی قبا مکمل ریشم کی تھی۔ آپﷺ نے اسے پہننا گوارا نہ فرمایا۔ یہ جو ریشمی کپڑے بھیجے گئے تھے ان کی بنتی میں ریشم ملا ہوا تھا۔ ان میں سے آپﷺ نے جو قبا پہنی اس میں ریشم کی مقدار بہت کم تھی لیکن رسول اللہ ﷺ نے اسے پہنا تو جبریل علیہ السلام نے فوراً آ کر خبر دی کہ اس میں ریشم کی مقدار زیادہ ہے اور آپﷺ کو اسے پہننے سے روک دیا، آپﷺ نے فوراً اتار کر یہ قبا حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اور دوسرے کپڑے مختلف صحابہ، مثلاً حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اورحضرت اسمہ رضی اللہ تعالی عنہ کو بھجوا دیے، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سخت فکر مندی اور غم کے عالم میں آئےکہ رسول اللہ ﷺ نے خود تو فرمایا تھا کہ (مردوں کےلیے) ریشم پہننا حرام ہے، پھر پﷺ نے خود جو چیز کراہت سے اتاری وہ مجھے کیوں بھجوا دی۔ انھوں نے آ کر یہی باتیں رسول اللہ ﷺ سے عرض کیں تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’میں نے یہ تمہاری پہننے کے لیے نہیں بھیجا بلکہ اس لیے بھیجا تھا کہ (بیچ کر یا خواتین کو پہنا کر) اس سے فائدہ اٹھاؤ۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اسے بیچ دیا اور اس کی قیمت عثمان بن حکیم کو مکہ بھجوا دی جن کےساتھ وہ احسان کرنا چاہتے تھے۔ چونکہ یہ کپڑے اصل میں عثمان بن حکیم کے کام آئے، اس لیے بعض بیان کرنے والوں نے ’’کساه أخاله‘‘ کے الفاظ استعمال کیے۔ ’’کسا‘‘ فائدہ اٹھانے کےلیے کپڑے یا اس کی قیمت دینے کے معنی ہیں ہے۔
2۔ بعض شارحین نے حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث کو پیش نظر رکھے بغیر کسا کے معنی پہنانے کے لیے ہیں اور اس مشکل میں پڑ گئے ہیں کہ جو چیز کسی مسلمان کے اپنے لیے حلال نہ ہو کسی کافر کو استعمال کرا سکتا ہے۔ یہ ایسے ہو گا کہ کوئی مسلمان حرام چیز خود نہ کھائے، کافر کو کھلاتا رہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے چونکہ بعینہ عثمان بن حکیم کو نہیں بھیجا، اس لیے ان کے حوالے سے یہ سوال ہی اٹھانا غلط ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے اس کی فروخت ممنوع نہ تھی کیونکہ ریشم عورتوں کے لیے حلال ہے اور ان کے استعمال کےلیے اسے بیچا اور خریدا جا سکتا ہے۔