باب: بچھونوں (گدوں ) کے غلاف استعمال کرنا جا ئز ہے
)
Muslim:
The Book of Clothes and Adornment
(Chapter: The Permissibility Of Using Blankets)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2083.
قتیبہ بن سعید، عمروناقد اور اسحٰق بن ابراہیم نے کہا: ہمیں سفیان نے ابن منکدرسے حدیث بیان کی، انھوں نے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، کہا: جب میں نے شادی کی تو رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے پو چھا: ’’کہا تم نے بچھونوں کے غلاف بنائے ہیں؟‘‘میں نے عرض کی، ہمارے پاس غلا ف کہاں سے آئے ؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’اب عنقریب ہو ں گے۔‘‘
لباس شرم وحیا،صحت اورموسم کےحوالےسےانسان کی بنیادی ضرورت ہےاوراس کےلیے زینت کاسبب بھی۔ اللہ تعالیٰ نےعورت اورمردکوالگ الگ اندازسےخوبصورت بنایاہے۔ دونوں کےلیے زینت کےاندازبھی مختلف ہیں۔ مرداگرعورت کی طرح زینت اختیارکرےتوبرالگتاہےاورعورت اگرمردکیطرح زینت اختیارکرےتوبری لگتی ہے۔
اسی طرح زینت اوراستکباربھی دوالگ الگ چیزیں ہیں۔ ان کےدرمیان جولکیرحائل ہےوہ مٹ جائےتوعام انسانوں کےلیے بہت سی مشکلات پیداہوتی ہیں۔ انسان کارہناسہنابھلےآرام دہ ہولیکن امارت کی نمودونمائش کاایساذریعہ نہ ہوجس سےعام لوگ مرعوب ہوں اوران کی دلوں میں اپنی محرومی اوردوسروں کی بےحدوحساب اورغیرمنصفانہ امارت کااذیت ناک احساس پیداہو۔
امام مسلمنےکتاب اللباس والزینۃ میں انسانی رہن سہن ،لباس اورسواری وغیرہ کےحوالےسےرسول اللہﷺ کےفرامین مقدسہ کوبیان کیاہے۔ سب سےپہلےامارت کی بےجانمائش اورانتہائی مسرفانہ زندگی کےحوالےسےسونےچاندی کےبرتن وغیرہ کےاستعمال کی حرمت بیان کی ہے۔ اس کےبعدصرف عورتوں کےلیے سونےکی زیورات کےجوازکابیان ہے۔ مردوں کےلیے انہیں قطعی طورپرحرام قراردیاگیاہے۔ اسی طرح ریشم کالباس بھی صرف عورتوں کےلیےجائزقراردیاگیاہے، مردوں کےلیے حرام ہے۔اگرغورکیاجائے تواس سےزینت کےحوالےسےعورتوں کووسیع ترمیدان ملتاہے۔ اس میں عورتوں کوایک طرح سےبرتری حاصل ہے۔ یہ چیزیں اگرمرداستعمال کریں تویہ ان کی وجاہت اوروقار کےخلاف ہے۔چونکہ یہ چیزیں عورتوں کےلیے حلال ہیں اس لیے مردان کی خریدوفروخت کرسکتےہیں۔ مردوں کواس حوالےسےاتنی سہولت دی گئی ہےکہ ان کےلباس میں بہت معمولی مقدارمیں ریشم موجودہوتووہ اسےاستعمال کرسکتےہیں، تاہم جلدی بیماری وغیرہ کی صورت میں طبی ضرورت کےتحت ریشم کالباس پہننےکی اجازت ہے۔
مردوں کواس طرح کےشوخےرنگ پہننےکی بھی اجازت نہیں جوصرف عورتوں ہی کواچھےلگتےاورنسوانی جمال کونمایاں کرتےہیں ،البتہ اسراف سےپرہیزکرتےہوئےمردوں کےلیے بھی دھاریوں والےیادوسرےجائز نقش ونگارسےمزین لباس کی اجازت ہے۔لباس کےذریعےسےکبرونخوت کااظہاراورمتکبرانہ لباس پہنناممنوع ہے۔ زمانہ قدیم سےکپڑوں کولٹکانا،مردوں کےلیے اظہارتکبرکی ایک علامت ہے۔ مسلمانوں کواس سےمنع کیاگیاہے۔رسول اللہﷺنےجب اردگردکےبادشاہو اورحاکموں کواسلام کی دعوت دینےکےلیے خط لکھنےکاارادہ فرمایاتوبطورمہراستعمال کرنےکےلیے چاندی کی انگوٹھی تیارکروائی ،ضرورتادیگرمسلمانوں کوبھی اس کی اجازت دی گئی اوریہ بھی بتایاگیاکہ کس انگلی میں پہنناموزوں ہے۔ جوتےپہننےکےحوالےسےآپﷺکن باتوں کوملحوظ رکھتے،اس کی وضاحت ہے۔ کس طرح کالباس استعمال کرتےہوئےکیاکیااحتیاط ملحوظ رکھنی چاہیےتاکہ ستراورحیاکےتقاضےپامال نہ ہوں، اس کی بھی وضاحت ہے۔ بالوں کےرنگنےکےحوالےسےاسلامی آداب بھی اسی کتاب میں بیان ہوئےہیں ۔گھرمیں اورخاص طورپرکپڑوں پرجانداروں کی تصویروں کی ممانعت اسلام کاشعارہے۔ اس کےساتھ ہی امام مسلمنےتصویریں بنانےکےحوالےسےاسلامی تعلیمات کوبیان کیاہے۔
اس کےبعدسواریوں اوردیگرجانوروں کےبارےمیں اورراستےکےحقوق کےحوالےسےرسول اللہﷺ کےفرامین بیان کیےگئےہیں۔ آخرمیں بالوں کی قبیح صورتوں اورتزیین وجمال کی غرض سےدجل وفریب پرمبنی اقدامات کی تددیدہے۔ اس کامقصدیہ ہےکہ انسان ایک دوسرےکومحض ظاہری حسن کےحوالےسےپسندنا پسندکرنےکےبجائےپوری شخصیت کےخالص اورحقیقی جمال کوترجیح دیں تاکہ کوئی بھی انسان،خصوصاعورت نہ محض آرائش کی چیزبن کراپنی شخصیت کوپست کرے،نہ ہی کوئی عورت ظاہری جمال میں کمی کی بناپرکم قدرقراردی جائے۔ سادگی حقیقت پسندی اورظاہری خوبیوں کےساتھ باطنی خوبیوں کوسراہنامعاشرےکی مضبوطی کاباعث بنتاہے۔ ظاہری خوبیوں کےدلدادہ لوگوں کےنزدیک چندبچوں کی پیدائش کےبعدعورت قابل نفرت بن جاتی ہے،جبکہ خاندان کےلیے اس وقت اس کی خدمات اورزیادہ ناگزیراورقابل قدرہوتی ہیں، محض ظاہری جمال ہی کوسراہاجانےلگےتوگھراجڑنےاورنمودونمائش کی دکانیں آبادہونےلگتی ہیں۔
قتیبہ بن سعید، عمروناقد اور اسحٰق بن ابراہیم نے کہا: ہمیں سفیان نے ابن منکدرسے حدیث بیان کی، انھوں نے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، کہا: جب میں نے شادی کی تو رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے پو چھا: ’’کہا تم نے بچھونوں کے غلاف بنائے ہیں؟‘‘میں نے عرض کی، ہمارے پاس غلا ف کہاں سے آئے ؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’اب عنقریب ہو ں گے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، جب میں نے شادی کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے دریافت فرمایا: ’’کیا تم نے قالین رکھے ہیں؟‘‘ میں نے عرض کیا، ہمارے ہاں قالین کہاں؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’ہاں، اب جلد ہی ہوں گے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
انماط: نمط کی جمع ہے،بستر کے ابرہ یعنی دہرے کپڑے کی اوپر کی تہہ کو یا بستر پوش کو کہتے ہیں،قالین اور غالیچہ پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔
فوائد ومسائل
اس حدیث میں آپ نے فتوحات کے سبب مال و دولت کے حصول اور آسائشوں کی فراہمی کی پیشن گوئی فرمائی، جو حرف بحرف پوری ہوئی، خلفائے راشدین کے دور میں فتوحات کے نتیجہ میں مسلمانوں کو ہر قسم کی سہولتیں اور آسانیاں میسر آئیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Jabir reported: When I was married, Allah's Messenger (ﷺ) asked me if I had got the carpet. I said: How can we have carpets? (i. e. I am so poor that I cannot even think of carpets). whereupon he said: You shall soon possess them.