باب: مردوں کے لیے سونے کی انگوٹھی پہننے کی ممانعت اسلام کے ابتدائی دور میں جو اس کا جواز تھا وہ منسوخ ہو گیا
)
Muslim:
The Book of Clothes and Adornment
(Chapter: The Prohibition Of Gold Rings For Men, And Abrogation Of Their Allowance After The Beginning Of Islam)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2090.
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آزاد غلام کریب نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کے ہاتھ (کی انگلی ) میں سونے کی انگوٹھی دیکھی، آپ نے اس کو اتار کر پھینک دیا اور فرمایا: ’’تم میں سے کوئی شخص آگ کا انگارہ اٹھاتا ہے اور اسے اپنے ہاتھ میں ڈال لیتا ہے۔‘‘ رسول اللہ ﷺ کے تشریف لے جانے کے بعد اس شخص سے کہا گیا: اپنی انگوٹھی لے لو اور اس سے کوئی فائدہ اٹھا لو۔ اس نے کہا: اللہ کی قسم! میں اسے کبھی نہیں اٹھاؤں گا۔ جبکہ رسول اللہ ﷺ نے اسے پھینک دیا ہے۔
لباس شرم وحیا،صحت اورموسم کےحوالےسےانسان کی بنیادی ضرورت ہےاوراس کےلیے زینت کاسبب بھی۔ اللہ تعالیٰ نےعورت اورمردکوالگ الگ اندازسےخوبصورت بنایاہے۔ دونوں کےلیے زینت کےاندازبھی مختلف ہیں۔ مرداگرعورت کی طرح زینت اختیارکرےتوبرالگتاہےاورعورت اگرمردکیطرح زینت اختیارکرےتوبری لگتی ہے۔
اسی طرح زینت اوراستکباربھی دوالگ الگ چیزیں ہیں۔ ان کےدرمیان جولکیرحائل ہےوہ مٹ جائےتوعام انسانوں کےلیے بہت سی مشکلات پیداہوتی ہیں۔ انسان کارہناسہنابھلےآرام دہ ہولیکن امارت کی نمودونمائش کاایساذریعہ نہ ہوجس سےعام لوگ مرعوب ہوں اوران کی دلوں میں اپنی محرومی اوردوسروں کی بےحدوحساب اورغیرمنصفانہ امارت کااذیت ناک احساس پیداہو۔
امام مسلمنےکتاب اللباس والزینۃ میں انسانی رہن سہن ،لباس اورسواری وغیرہ کےحوالےسےرسول اللہﷺ کےفرامین مقدسہ کوبیان کیاہے۔ سب سےپہلےامارت کی بےجانمائش اورانتہائی مسرفانہ زندگی کےحوالےسےسونےچاندی کےبرتن وغیرہ کےاستعمال کی حرمت بیان کی ہے۔ اس کےبعدصرف عورتوں کےلیے سونےکی زیورات کےجوازکابیان ہے۔ مردوں کےلیے انہیں قطعی طورپرحرام قراردیاگیاہے۔ اسی طرح ریشم کالباس بھی صرف عورتوں کےلیےجائزقراردیاگیاہے، مردوں کےلیے حرام ہے۔اگرغورکیاجائے تواس سےزینت کےحوالےسےعورتوں کووسیع ترمیدان ملتاہے۔ اس میں عورتوں کوایک طرح سےبرتری حاصل ہے۔ یہ چیزیں اگرمرداستعمال کریں تویہ ان کی وجاہت اوروقار کےخلاف ہے۔چونکہ یہ چیزیں عورتوں کےلیے حلال ہیں اس لیے مردان کی خریدوفروخت کرسکتےہیں۔ مردوں کواس حوالےسےاتنی سہولت دی گئی ہےکہ ان کےلباس میں بہت معمولی مقدارمیں ریشم موجودہوتووہ اسےاستعمال کرسکتےہیں، تاہم جلدی بیماری وغیرہ کی صورت میں طبی ضرورت کےتحت ریشم کالباس پہننےکی اجازت ہے۔
مردوں کواس طرح کےشوخےرنگ پہننےکی بھی اجازت نہیں جوصرف عورتوں ہی کواچھےلگتےاورنسوانی جمال کونمایاں کرتےہیں ،البتہ اسراف سےپرہیزکرتےہوئےمردوں کےلیے بھی دھاریوں والےیادوسرےجائز نقش ونگارسےمزین لباس کی اجازت ہے۔لباس کےذریعےسےکبرونخوت کااظہاراورمتکبرانہ لباس پہنناممنوع ہے۔ زمانہ قدیم سےکپڑوں کولٹکانا،مردوں کےلیے اظہارتکبرکی ایک علامت ہے۔ مسلمانوں کواس سےمنع کیاگیاہے۔رسول اللہﷺنےجب اردگردکےبادشاہو اورحاکموں کواسلام کی دعوت دینےکےلیے خط لکھنےکاارادہ فرمایاتوبطورمہراستعمال کرنےکےلیے چاندی کی انگوٹھی تیارکروائی ،ضرورتادیگرمسلمانوں کوبھی اس کی اجازت دی گئی اوریہ بھی بتایاگیاکہ کس انگلی میں پہنناموزوں ہے۔ جوتےپہننےکےحوالےسےآپﷺکن باتوں کوملحوظ رکھتے،اس کی وضاحت ہے۔ کس طرح کالباس استعمال کرتےہوئےکیاکیااحتیاط ملحوظ رکھنی چاہیےتاکہ ستراورحیاکےتقاضےپامال نہ ہوں، اس کی بھی وضاحت ہے۔ بالوں کےرنگنےکےحوالےسےاسلامی آداب بھی اسی کتاب میں بیان ہوئےہیں ۔گھرمیں اورخاص طورپرکپڑوں پرجانداروں کی تصویروں کی ممانعت اسلام کاشعارہے۔ اس کےساتھ ہی امام مسلمنےتصویریں بنانےکےحوالےسےاسلامی تعلیمات کوبیان کیاہے۔
اس کےبعدسواریوں اوردیگرجانوروں کےبارےمیں اورراستےکےحقوق کےحوالےسےرسول اللہﷺ کےفرامین بیان کیےگئےہیں۔ آخرمیں بالوں کی قبیح صورتوں اورتزیین وجمال کی غرض سےدجل وفریب پرمبنی اقدامات کی تددیدہے۔ اس کامقصدیہ ہےکہ انسان ایک دوسرےکومحض ظاہری حسن کےحوالےسےپسندنا پسندکرنےکےبجائےپوری شخصیت کےخالص اورحقیقی جمال کوترجیح دیں تاکہ کوئی بھی انسان،خصوصاعورت نہ محض آرائش کی چیزبن کراپنی شخصیت کوپست کرے،نہ ہی کوئی عورت ظاہری جمال میں کمی کی بناپرکم قدرقراردی جائے۔ سادگی حقیقت پسندی اورظاہری خوبیوں کےساتھ باطنی خوبیوں کوسراہنامعاشرےکی مضبوطی کاباعث بنتاہے۔ ظاہری خوبیوں کےدلدادہ لوگوں کےنزدیک چندبچوں کی پیدائش کےبعدعورت قابل نفرت بن جاتی ہے،جبکہ خاندان کےلیے اس وقت اس کی خدمات اورزیادہ ناگزیراورقابل قدرہوتی ہیں، محض ظاہری جمال ہی کوسراہاجانےلگےتوگھراجڑنےاورنمودونمائش کی دکانیں آبادہونےلگتی ہیں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آزاد غلام کریب نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کے ہاتھ (کی انگلی ) میں سونے کی انگوٹھی دیکھی، آپ نے اس کو اتار کر پھینک دیا اور فرمایا: ’’تم میں سے کوئی شخص آگ کا انگارہ اٹھاتا ہے اور اسے اپنے ہاتھ میں ڈال لیتا ہے۔‘‘ رسول اللہ ﷺ کے تشریف لے جانے کے بعد اس شخص سے کہا گیا: اپنی انگوٹھی لے لو اور اس سے کوئی فائدہ اٹھا لو۔ اس نے کہا: اللہ کی قسم! میں اسے کبھی نہیں اٹھاؤں گا۔ جبکہ رسول اللہ ﷺ نے اسے پھینک دیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھی تو اسے اتار کر پھینک دیا اور فرمایا: ’’تم میں سے کوئی ایک آگ کے انگارہ کا رخ کرتا ہے، پھر اسے اپنی انگلی میں ڈال لیتا ہے۔‘‘ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلے گئے تو اس آدمی سے کہا گیا، اپنی انگوٹھی اٹھا لو اور اس کو بیچ کر فائدہ اٹھا لو، اس نے کہا، نہیں، اللہ کی قسم، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو پھینک چکے ہیں، میں اس کو کبھی نہیں لوں گا۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
اس حدیث سے صحابہ کرام کا جذبہ امتثال فرماں برداری ثابت ہوتا ہے اور اگرچہ آپ کا مقصد مبالغہ کے ساتھ اس کو پہننے سے روکنا تھا، اس سے فائدہ اٹھانے سے روکنا نہیں تھا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھینکی ہوئی چیز سے، اس نے فائدہ اٹھانا بھی گوارا نہ کیا اور یہی چیز ان کی کامیابی اور کامرانی کا راز ہے، جس سے آج ہم محروم ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abdullah bin 'Abbas reported that Allah's Messenger (ﷺ) saw a person wearing a gold signet ring in his hand. He (the Holy Prophet) pulled it off and threw it away, saying: One of you is wishing live coal from Hell. and putting it on his hand. It was said to the person after Allah's Messenger (ﷺ) had left: Take your signet ring (of gold) and derive benefit out of it. Whereupon he said: No, by Allah, I would never take it when Allah's Messenger (ﷺ) has thrown it away.