باب: مردوں کے لیے سونے کی انگوٹھی پہننے کی ممانعت اسلام کے ابتدائی دور میں جو اس کا جواز تھا وہ منسوخ ہو گیا
)
Muslim:
The Book of Clothes and Adornment
(Chapter: The Prohibition Of Gold Rings For Men, And Abrogation Of Their Allowance After The Beginning Of Islam)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2091.
یحییٰ بن یحییٰ تمیمی محمد بن رمح اور قتیبہ نے کہا: ہمیں لیث نے نافع سے خبر دی، انھوں نے حضرت عبداللہ (بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما) سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے سونے کی ایک انگوٹھی بنوائی آپ اسے پہنتے تو اس کا نگینہ ہتھیلی کے اندر کی طرف کر لیا کرتے تھے تو لوگوں نے بھی سونے کی انگوٹھیاں بنوالیں، پھر آپ ﷺ منبر پر تشریف فرما ہوئے ۔اس انگوٹھی کو اتار دیا اور فرمایا: ’’میں اس انگوٹھی کو پہنتا تھا تو نگینے کو اندر کی طرف کر لیتا تھا‘‘ پھر آپ نے اسے پھینک دیا اور فرمایا: ’’اللہ کی قسم! میں اس کو کبھی نہیں پہنوں گا۔‘‘ پھر لو گوں نے بھی اپنی اپنی انگوٹھیا ں پھینک دیں۔ حدیث کے الفاظ یحییٰ کے بیا ن کردہ) ہیں۔
لباس شرم وحیا،صحت اورموسم کےحوالےسےانسان کی بنیادی ضرورت ہےاوراس کےلیے زینت کاسبب بھی۔ اللہ تعالیٰ نےعورت اورمردکوالگ الگ اندازسےخوبصورت بنایاہے۔ دونوں کےلیے زینت کےاندازبھی مختلف ہیں۔ مرداگرعورت کی طرح زینت اختیارکرےتوبرالگتاہےاورعورت اگرمردکیطرح زینت اختیارکرےتوبری لگتی ہے۔
اسی طرح زینت اوراستکباربھی دوالگ الگ چیزیں ہیں۔ ان کےدرمیان جولکیرحائل ہےوہ مٹ جائےتوعام انسانوں کےلیے بہت سی مشکلات پیداہوتی ہیں۔ انسان کارہناسہنابھلےآرام دہ ہولیکن امارت کی نمودونمائش کاایساذریعہ نہ ہوجس سےعام لوگ مرعوب ہوں اوران کی دلوں میں اپنی محرومی اوردوسروں کی بےحدوحساب اورغیرمنصفانہ امارت کااذیت ناک احساس پیداہو۔
امام مسلمنےکتاب اللباس والزینۃ میں انسانی رہن سہن ،لباس اورسواری وغیرہ کےحوالےسےرسول اللہﷺ کےفرامین مقدسہ کوبیان کیاہے۔ سب سےپہلےامارت کی بےجانمائش اورانتہائی مسرفانہ زندگی کےحوالےسےسونےچاندی کےبرتن وغیرہ کےاستعمال کی حرمت بیان کی ہے۔ اس کےبعدصرف عورتوں کےلیے سونےکی زیورات کےجوازکابیان ہے۔ مردوں کےلیے انہیں قطعی طورپرحرام قراردیاگیاہے۔ اسی طرح ریشم کالباس بھی صرف عورتوں کےلیےجائزقراردیاگیاہے، مردوں کےلیے حرام ہے۔اگرغورکیاجائے تواس سےزینت کےحوالےسےعورتوں کووسیع ترمیدان ملتاہے۔ اس میں عورتوں کوایک طرح سےبرتری حاصل ہے۔ یہ چیزیں اگرمرداستعمال کریں تویہ ان کی وجاہت اوروقار کےخلاف ہے۔چونکہ یہ چیزیں عورتوں کےلیے حلال ہیں اس لیے مردان کی خریدوفروخت کرسکتےہیں۔ مردوں کواس حوالےسےاتنی سہولت دی گئی ہےکہ ان کےلباس میں بہت معمولی مقدارمیں ریشم موجودہوتووہ اسےاستعمال کرسکتےہیں، تاہم جلدی بیماری وغیرہ کی صورت میں طبی ضرورت کےتحت ریشم کالباس پہننےکی اجازت ہے۔
مردوں کواس طرح کےشوخےرنگ پہننےکی بھی اجازت نہیں جوصرف عورتوں ہی کواچھےلگتےاورنسوانی جمال کونمایاں کرتےہیں ،البتہ اسراف سےپرہیزکرتےہوئےمردوں کےلیے بھی دھاریوں والےیادوسرےجائز نقش ونگارسےمزین لباس کی اجازت ہے۔لباس کےذریعےسےکبرونخوت کااظہاراورمتکبرانہ لباس پہنناممنوع ہے۔ زمانہ قدیم سےکپڑوں کولٹکانا،مردوں کےلیے اظہارتکبرکی ایک علامت ہے۔ مسلمانوں کواس سےمنع کیاگیاہے۔رسول اللہﷺنےجب اردگردکےبادشاہو اورحاکموں کواسلام کی دعوت دینےکےلیے خط لکھنےکاارادہ فرمایاتوبطورمہراستعمال کرنےکےلیے چاندی کی انگوٹھی تیارکروائی ،ضرورتادیگرمسلمانوں کوبھی اس کی اجازت دی گئی اوریہ بھی بتایاگیاکہ کس انگلی میں پہنناموزوں ہے۔ جوتےپہننےکےحوالےسےآپﷺکن باتوں کوملحوظ رکھتے،اس کی وضاحت ہے۔ کس طرح کالباس استعمال کرتےہوئےکیاکیااحتیاط ملحوظ رکھنی چاہیےتاکہ ستراورحیاکےتقاضےپامال نہ ہوں، اس کی بھی وضاحت ہے۔ بالوں کےرنگنےکےحوالےسےاسلامی آداب بھی اسی کتاب میں بیان ہوئےہیں ۔گھرمیں اورخاص طورپرکپڑوں پرجانداروں کی تصویروں کی ممانعت اسلام کاشعارہے۔ اس کےساتھ ہی امام مسلمنےتصویریں بنانےکےحوالےسےاسلامی تعلیمات کوبیان کیاہے۔
اس کےبعدسواریوں اوردیگرجانوروں کےبارےمیں اورراستےکےحقوق کےحوالےسےرسول اللہﷺ کےفرامین بیان کیےگئےہیں۔ آخرمیں بالوں کی قبیح صورتوں اورتزیین وجمال کی غرض سےدجل وفریب پرمبنی اقدامات کی تددیدہے۔ اس کامقصدیہ ہےکہ انسان ایک دوسرےکومحض ظاہری حسن کےحوالےسےپسندنا پسندکرنےکےبجائےپوری شخصیت کےخالص اورحقیقی جمال کوترجیح دیں تاکہ کوئی بھی انسان،خصوصاعورت نہ محض آرائش کی چیزبن کراپنی شخصیت کوپست کرے،نہ ہی کوئی عورت ظاہری جمال میں کمی کی بناپرکم قدرقراردی جائے۔ سادگی حقیقت پسندی اورظاہری خوبیوں کےساتھ باطنی خوبیوں کوسراہنامعاشرےکی مضبوطی کاباعث بنتاہے۔ ظاہری خوبیوں کےدلدادہ لوگوں کےنزدیک چندبچوں کی پیدائش کےبعدعورت قابل نفرت بن جاتی ہے،جبکہ خاندان کےلیے اس وقت اس کی خدمات اورزیادہ ناگزیراورقابل قدرہوتی ہیں، محض ظاہری جمال ہی کوسراہاجانےلگےتوگھراجڑنےاورنمودونمائش کی دکانیں آبادہونےلگتی ہیں۔
یحییٰ بن یحییٰ تمیمی محمد بن رمح اور قتیبہ نے کہا: ہمیں لیث نے نافع سے خبر دی، انھوں نے حضرت عبداللہ (بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما) سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے سونے کی ایک انگوٹھی بنوائی آپ اسے پہنتے تو اس کا نگینہ ہتھیلی کے اندر کی طرف کر لیا کرتے تھے تو لوگوں نے بھی سونے کی انگوٹھیاں بنوالیں، پھر آپ ﷺ منبر پر تشریف فرما ہوئے ۔اس انگوٹھی کو اتار دیا اور فرمایا: ’’میں اس انگوٹھی کو پہنتا تھا تو نگینے کو اندر کی طرف کر لیتا تھا‘‘ پھر آپ نے اسے پھینک دیا اور فرمایا: ’’اللہ کی قسم! میں اس کو کبھی نہیں پہنوں گا۔‘‘ پھر لو گوں نے بھی اپنی اپنی انگوٹھیا ں پھینک دیں۔ حدیث کے الفاظ یحییٰ کے بیا ن کردہ) ہیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کی انگوٹھی بنوائی، جب اس کو پہنتے تو اس کا نگینہ ہتھیلی کے اندر کی طرف کر لیتے، سو لوگوں نے بھی ایسی انگوٹھیاں بنوا لیں، پھر آپ منبر پر تشریف فرما ہوئے اور اسے اتار دیا اور فرمایا: ’’میں اس انگوٹھی کو پہنتا تھا اور اس کا نگینہ اندر کی طرف کر لیتا تھا۔‘‘ پھر آپ نے اسے پھینک دیا، پھر فرمایا: ’’اللہ کی قسم، میں اس کو کبھی نہیں پہنوں گا۔‘‘ تو لوگوں نے بھی اپنی انگوٹھیاں پھینک دیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Abdullah reported that Allah's Messenger (may peace be upol him) got fashioned a signet ring of gold but he kept its stone on the inner side of his palm as he wore it, so the people (following his example) got fashioned (such rings). Then one day as he sat on the pulpit he pulled it away saying: I wore this ring and kept its stone towards the inner side. He then threw it away, and said: By Allah, I will never wear it; so the people threw their rings away.