باب: جانوروں کے منہ پر مارنے اور داغ کر منہ پر نشانی لگا نے کی ممانعت
)
Muslim:
The Book of Clothes and Adornment
(Chapter: The Prohibition Of Striking Or Branding Animals On The Face)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2116.
علی بن مسہر نے ابن جریج سے، انھوں نے ابو زبیر سے، انھوں نے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہا: رسول اللہ ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا کہ (جانور کو) منہ پر مارا جائے یا منہ پر نشانی ثبت کی جائے۔
لباس شرم وحیا،صحت اورموسم کےحوالےسےانسان کی بنیادی ضرورت ہےاوراس کےلیے زینت کاسبب بھی۔ اللہ تعالیٰ نےعورت اورمردکوالگ الگ اندازسےخوبصورت بنایاہے۔ دونوں کےلیے زینت کےاندازبھی مختلف ہیں۔ مرداگرعورت کی طرح زینت اختیارکرےتوبرالگتاہےاورعورت اگرمردکیطرح زینت اختیارکرےتوبری لگتی ہے۔
اسی طرح زینت اوراستکباربھی دوالگ الگ چیزیں ہیں۔ ان کےدرمیان جولکیرحائل ہےوہ مٹ جائےتوعام انسانوں کےلیے بہت سی مشکلات پیداہوتی ہیں۔ انسان کارہناسہنابھلےآرام دہ ہولیکن امارت کی نمودونمائش کاایساذریعہ نہ ہوجس سےعام لوگ مرعوب ہوں اوران کی دلوں میں اپنی محرومی اوردوسروں کی بےحدوحساب اورغیرمنصفانہ امارت کااذیت ناک احساس پیداہو۔
امام مسلمنےکتاب اللباس والزینۃ میں انسانی رہن سہن ،لباس اورسواری وغیرہ کےحوالےسےرسول اللہﷺ کےفرامین مقدسہ کوبیان کیاہے۔ سب سےپہلےامارت کی بےجانمائش اورانتہائی مسرفانہ زندگی کےحوالےسےسونےچاندی کےبرتن وغیرہ کےاستعمال کی حرمت بیان کی ہے۔ اس کےبعدصرف عورتوں کےلیے سونےکی زیورات کےجوازکابیان ہے۔ مردوں کےلیے انہیں قطعی طورپرحرام قراردیاگیاہے۔ اسی طرح ریشم کالباس بھی صرف عورتوں کےلیےجائزقراردیاگیاہے، مردوں کےلیے حرام ہے۔اگرغورکیاجائے تواس سےزینت کےحوالےسےعورتوں کووسیع ترمیدان ملتاہے۔ اس میں عورتوں کوایک طرح سےبرتری حاصل ہے۔ یہ چیزیں اگرمرداستعمال کریں تویہ ان کی وجاہت اوروقار کےخلاف ہے۔چونکہ یہ چیزیں عورتوں کےلیے حلال ہیں اس لیے مردان کی خریدوفروخت کرسکتےہیں۔ مردوں کواس حوالےسےاتنی سہولت دی گئی ہےکہ ان کےلباس میں بہت معمولی مقدارمیں ریشم موجودہوتووہ اسےاستعمال کرسکتےہیں، تاہم جلدی بیماری وغیرہ کی صورت میں طبی ضرورت کےتحت ریشم کالباس پہننےکی اجازت ہے۔
مردوں کواس طرح کےشوخےرنگ پہننےکی بھی اجازت نہیں جوصرف عورتوں ہی کواچھےلگتےاورنسوانی جمال کونمایاں کرتےہیں ،البتہ اسراف سےپرہیزکرتےہوئےمردوں کےلیے بھی دھاریوں والےیادوسرےجائز نقش ونگارسےمزین لباس کی اجازت ہے۔لباس کےذریعےسےکبرونخوت کااظہاراورمتکبرانہ لباس پہنناممنوع ہے۔ زمانہ قدیم سےکپڑوں کولٹکانا،مردوں کےلیے اظہارتکبرکی ایک علامت ہے۔ مسلمانوں کواس سےمنع کیاگیاہے۔رسول اللہﷺنےجب اردگردکےبادشاہو اورحاکموں کواسلام کی دعوت دینےکےلیے خط لکھنےکاارادہ فرمایاتوبطورمہراستعمال کرنےکےلیے چاندی کی انگوٹھی تیارکروائی ،ضرورتادیگرمسلمانوں کوبھی اس کی اجازت دی گئی اوریہ بھی بتایاگیاکہ کس انگلی میں پہنناموزوں ہے۔ جوتےپہننےکےحوالےسےآپﷺکن باتوں کوملحوظ رکھتے،اس کی وضاحت ہے۔ کس طرح کالباس استعمال کرتےہوئےکیاکیااحتیاط ملحوظ رکھنی چاہیےتاکہ ستراورحیاکےتقاضےپامال نہ ہوں، اس کی بھی وضاحت ہے۔ بالوں کےرنگنےکےحوالےسےاسلامی آداب بھی اسی کتاب میں بیان ہوئےہیں ۔گھرمیں اورخاص طورپرکپڑوں پرجانداروں کی تصویروں کی ممانعت اسلام کاشعارہے۔ اس کےساتھ ہی امام مسلمنےتصویریں بنانےکےحوالےسےاسلامی تعلیمات کوبیان کیاہے۔
اس کےبعدسواریوں اوردیگرجانوروں کےبارےمیں اورراستےکےحقوق کےحوالےسےرسول اللہﷺ کےفرامین بیان کیےگئےہیں۔ آخرمیں بالوں کی قبیح صورتوں اورتزیین وجمال کی غرض سےدجل وفریب پرمبنی اقدامات کی تددیدہے۔ اس کامقصدیہ ہےکہ انسان ایک دوسرےکومحض ظاہری حسن کےحوالےسےپسندنا پسندکرنےکےبجائےپوری شخصیت کےخالص اورحقیقی جمال کوترجیح دیں تاکہ کوئی بھی انسان،خصوصاعورت نہ محض آرائش کی چیزبن کراپنی شخصیت کوپست کرے،نہ ہی کوئی عورت ظاہری جمال میں کمی کی بناپرکم قدرقراردی جائے۔ سادگی حقیقت پسندی اورظاہری خوبیوں کےساتھ باطنی خوبیوں کوسراہنامعاشرےکی مضبوطی کاباعث بنتاہے۔ ظاہری خوبیوں کےدلدادہ لوگوں کےنزدیک چندبچوں کی پیدائش کےبعدعورت قابل نفرت بن جاتی ہے،جبکہ خاندان کےلیے اس وقت اس کی خدمات اورزیادہ ناگزیراورقابل قدرہوتی ہیں، محض ظاہری جمال ہی کوسراہاجانےلگےتوگھراجڑنےاورنمودونمائش کی دکانیں آبادہونےلگتی ہیں۔
علی بن مسہر نے ابن جریج سے، انھوں نے ابو زبیر سے، انھوں نے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہا: رسول اللہ ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا کہ (جانور کو) منہ پر مارا جائے یا منہ پر نشانی ثبت کی جائے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چہرے پر مارنے اور چہرے کو داغنے سے منع فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
الوسم: داغ،علامت، نشان۔
فوائد ومسائل
امام نووی فرماتے ہیں، ہر قابل احترام جاندار کے چہرے پر مارنا ممنوع ہے، انسان، گدھا، گھوڑا، اونٹ، خچر اور بھیڑ بکری وغیرہ سب اس میں داخل ہیں، لیکن آدمی کے چہرے پر مارنا انتہائی ممنوع ہے، کیونکہ چہرہ تمام محاسن کا مرکز ہے اور لطیف (نرم و نازک) عضو ہے، جس پر مار کا اثر و نشان پڑ جاتا ہے اور بسا اوقات اس کی بدصورتی کا باعث بنتا ہے اور بعض دفعہ اس سے جو اس کو تکلیف پہنچ جاتی ہے، اور چہرے پر داغ دینا بھی جائز نہیں ہے، انسان کے سوا باقی حیوانات کو چہرے کے سوا داغنا ضرورت کے وقت جائز ہے، اس طرح چہرے کے سوا ضرورت کے تحت مارنا بھی جائز ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Jabir reported that Allah's Messenger (ﷺ) forbade (the animals to be beaten) on the face or cauterisation on the face.