باب: لباس وغیرہ میں مکر اور جو عطا نہیں کیا گیا خود کو اس سے سیر ہوجانے والا ظاہر کرنا ممنوع ہے
)
Muslim:
The Book of Clothes and Adornment
(Chapter: The Prohibition Of Wearing A Garment Of Falsehood Etc., And Pretending To Have That Which Has Not Been Given To One)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2129.
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ ایک عورت نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ!(اگر) میں یہ کہوں: مجھے(یہ سب) میرے خاوند نے دیا ہے جو اس نے نہیں دیا؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو(کھانا) نہیں ملا، خود کو اس سے سیر ظاہر کرنے والا، جھوٹ کے دو کپڑے پہننے والے کی طرح ہے۔‘‘
لباس شرم وحیا،صحت اورموسم کےحوالےسےانسان کی بنیادی ضرورت ہےاوراس کےلیے زینت کاسبب بھی۔ اللہ تعالیٰ نےعورت اورمردکوالگ الگ اندازسےخوبصورت بنایاہے۔ دونوں کےلیے زینت کےاندازبھی مختلف ہیں۔ مرداگرعورت کی طرح زینت اختیارکرےتوبرالگتاہےاورعورت اگرمردکیطرح زینت اختیارکرےتوبری لگتی ہے۔
اسی طرح زینت اوراستکباربھی دوالگ الگ چیزیں ہیں۔ ان کےدرمیان جولکیرحائل ہےوہ مٹ جائےتوعام انسانوں کےلیے بہت سی مشکلات پیداہوتی ہیں۔ انسان کارہناسہنابھلےآرام دہ ہولیکن امارت کی نمودونمائش کاایساذریعہ نہ ہوجس سےعام لوگ مرعوب ہوں اوران کی دلوں میں اپنی محرومی اوردوسروں کی بےحدوحساب اورغیرمنصفانہ امارت کااذیت ناک احساس پیداہو۔
امام مسلمنےکتاب اللباس والزینۃ میں انسانی رہن سہن ،لباس اورسواری وغیرہ کےحوالےسےرسول اللہﷺ کےفرامین مقدسہ کوبیان کیاہے۔ سب سےپہلےامارت کی بےجانمائش اورانتہائی مسرفانہ زندگی کےحوالےسےسونےچاندی کےبرتن وغیرہ کےاستعمال کی حرمت بیان کی ہے۔ اس کےبعدصرف عورتوں کےلیے سونےکی زیورات کےجوازکابیان ہے۔ مردوں کےلیے انہیں قطعی طورپرحرام قراردیاگیاہے۔ اسی طرح ریشم کالباس بھی صرف عورتوں کےلیےجائزقراردیاگیاہے، مردوں کےلیے حرام ہے۔اگرغورکیاجائے تواس سےزینت کےحوالےسےعورتوں کووسیع ترمیدان ملتاہے۔ اس میں عورتوں کوایک طرح سےبرتری حاصل ہے۔ یہ چیزیں اگرمرداستعمال کریں تویہ ان کی وجاہت اوروقار کےخلاف ہے۔چونکہ یہ چیزیں عورتوں کےلیے حلال ہیں اس لیے مردان کی خریدوفروخت کرسکتےہیں۔ مردوں کواس حوالےسےاتنی سہولت دی گئی ہےکہ ان کےلباس میں بہت معمولی مقدارمیں ریشم موجودہوتووہ اسےاستعمال کرسکتےہیں، تاہم جلدی بیماری وغیرہ کی صورت میں طبی ضرورت کےتحت ریشم کالباس پہننےکی اجازت ہے۔
مردوں کواس طرح کےشوخےرنگ پہننےکی بھی اجازت نہیں جوصرف عورتوں ہی کواچھےلگتےاورنسوانی جمال کونمایاں کرتےہیں ،البتہ اسراف سےپرہیزکرتےہوئےمردوں کےلیے بھی دھاریوں والےیادوسرےجائز نقش ونگارسےمزین لباس کی اجازت ہے۔لباس کےذریعےسےکبرونخوت کااظہاراورمتکبرانہ لباس پہنناممنوع ہے۔ زمانہ قدیم سےکپڑوں کولٹکانا،مردوں کےلیے اظہارتکبرکی ایک علامت ہے۔ مسلمانوں کواس سےمنع کیاگیاہے۔رسول اللہﷺنےجب اردگردکےبادشاہو اورحاکموں کواسلام کی دعوت دینےکےلیے خط لکھنےکاارادہ فرمایاتوبطورمہراستعمال کرنےکےلیے چاندی کی انگوٹھی تیارکروائی ،ضرورتادیگرمسلمانوں کوبھی اس کی اجازت دی گئی اوریہ بھی بتایاگیاکہ کس انگلی میں پہنناموزوں ہے۔ جوتےپہننےکےحوالےسےآپﷺکن باتوں کوملحوظ رکھتے،اس کی وضاحت ہے۔ کس طرح کالباس استعمال کرتےہوئےکیاکیااحتیاط ملحوظ رکھنی چاہیےتاکہ ستراورحیاکےتقاضےپامال نہ ہوں، اس کی بھی وضاحت ہے۔ بالوں کےرنگنےکےحوالےسےاسلامی آداب بھی اسی کتاب میں بیان ہوئےہیں ۔گھرمیں اورخاص طورپرکپڑوں پرجانداروں کی تصویروں کی ممانعت اسلام کاشعارہے۔ اس کےساتھ ہی امام مسلمنےتصویریں بنانےکےحوالےسےاسلامی تعلیمات کوبیان کیاہے۔
اس کےبعدسواریوں اوردیگرجانوروں کےبارےمیں اورراستےکےحقوق کےحوالےسےرسول اللہﷺ کےفرامین بیان کیےگئےہیں۔ آخرمیں بالوں کی قبیح صورتوں اورتزیین وجمال کی غرض سےدجل وفریب پرمبنی اقدامات کی تددیدہے۔ اس کامقصدیہ ہےکہ انسان ایک دوسرےکومحض ظاہری حسن کےحوالےسےپسندنا پسندکرنےکےبجائےپوری شخصیت کےخالص اورحقیقی جمال کوترجیح دیں تاکہ کوئی بھی انسان،خصوصاعورت نہ محض آرائش کی چیزبن کراپنی شخصیت کوپست کرے،نہ ہی کوئی عورت ظاہری جمال میں کمی کی بناپرکم قدرقراردی جائے۔ سادگی حقیقت پسندی اورظاہری خوبیوں کےساتھ باطنی خوبیوں کوسراہنامعاشرےکی مضبوطی کاباعث بنتاہے۔ ظاہری خوبیوں کےدلدادہ لوگوں کےنزدیک چندبچوں کی پیدائش کےبعدعورت قابل نفرت بن جاتی ہے،جبکہ خاندان کےلیے اس وقت اس کی خدمات اورزیادہ ناگزیراورقابل قدرہوتی ہیں، محض ظاہری جمال ہی کوسراہاجانےلگےتوگھراجڑنےاورنمودونمائش کی دکانیں آبادہونےلگتی ہیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ ایک عورت نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ!(اگر) میں یہ کہوں: مجھے(یہ سب) میرے خاوند نے دیا ہے جو اس نے نہیں دیا؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو(کھانا) نہیں ملا، خود کو اس سے سیر ظاہر کرنے والا، جھوٹ کے دو کپڑے پہننے والے کی طرح ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ ایک عورت نے کہا، اے اللہ کے رسولﷺ! کیا میں، جو چیز خاوند نے نہیں دی، وہ دینے کا اظہار کر سکتی ہوں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو چیز میسر نہیں، اس سے سیری کا اظہار کرنے والا، وہ جھوٹے کپڑے پہننے والے کی طرح ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
(1) الْمُتَشَبِّعُ بِمَا لَمْ يُعْطَ: بھوکا، سیر ہونے والے کی مشابہت اختیار کرے،جوخوبی موجود نہیں ہے،اس سے متصف ہونے کا اظہار کرے، جھوٹی زیبائش کے لیے،کنگلا بہت کچھ ہونے کا دعوی کرے، عورت اپنی سوکن کو جلانے کے لیے جو کچھ خاوند نے نہیں دیا ہے،اس کے دینے کا اظہار کرے۔ (2) كَلَابِسِ ثَوْبَيْ زُورٍ: (1) نیک اور پارسا لوگوں کا لباس پہن کر اپنے زہد اور ورع کا اظہار کرنا۔ (2) جھوٹ بولنے کو شعار بنانا جس طرح پسندیدہ اخلاق کو ظاھر الثوب کہہ دیا جاتا ہے۔ (3) جھوٹی گواہی دینے کے لیے بن ٹھن کرجانا، تاکہ اسے متاثر ہوکر اس کی گواہی قبول کرلی جائے۔ (4) دوہری آستین بنانا،اصل مقصد سرتاپا جھوٹا ہونا ہے کہ ایسا آدمی مجسم جھوٹ ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
A'isha reported that a woman said: Allah's Messenger, may I say to my (co-wife) that my husband has given me (such and such) a thing but which he has not in fact gives me? 'Thereupon Allah's Messenger (ﷺ) said: The one who makes a false statement of that which one has not been given is like one who wears a garment of falsehood.