باب: ابوالقاسم کنیت رکھنے کی ممانعت اور اچھے ناموں کا بیان
)
Muslim:
The Book of Manners and Etiquette
(Chapter: The Prohibition Of Taking The Kunyah Abul-Qasim, And The Names Which Are Recommended)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2131.
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ بقیع میں ایک شخص نے دوسرے شخص کو یا ابالقاسم کہہ کر آواز دی، رسول اللہ ﷺ (اس آواز پر) اس (آدمی) کی طرف متوجہ ہو ئے تو اس شخص نے کہا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! میرا مقصود آپ کو پکارنا نہ تھا ،میں نے تو فلاں کو آواز دی ہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میرے نام پر نام رکھو اور میری کنیت پر (اپنی) کنیت نہ رکھو۔‘‘
ادب سے مراد زندگی گزارنے کے طریقوں میں سے بہترین طریقہ سیکھنا اور اختیار کرنا ہے۔ ایسا طریقہ جس سے انفرادی اور اجتماعی زندگی آسان ،مشکلات سے محفوظ،خوشگوار اور عزت مند ہو جائے رسول اللہ ﷺ کے فرمان(أدَّبَبَنِي رَبِّي فأحْسَنَ تَأ دِيبِي)"" میرے رب نے مجھے ادب سکھایا اور بہترین انداز میں سکھایا ‘‘ میں اسی مفہوم کی طرف اشارہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے وہی بہترین ادب اپنی امت کو بھی سکھایا ہے آپ نے ایسے عمومی آداب بھی سکھائے جو ہر انسان کے لیے ہیں ، اور اسے معزز اور لوگوں کا محبوب بنا دیتے ہیں آپ ﷺ نے خاص ذمہ داریوں اور پیشوں کے حوالے سے بھی بہترین آداب سکھائے ہیں،مدرس کے آداب ،طالب علم کے آداب ،قاضی اور حاکم وغیرہ کے آداب۔
ادب کا لفظ کسی زبان کی ان تحریروں پر بھی بولا جاتا ہے جو انسان کی دلی واردات کی ترجمانی کرتی ہیں یا ان کے ذریعے سے مختلف شخصیات کے حوالے سے کسی انسان کے جو جذبات ہیں، ان کا اظہار ہوتا ہے اس کے لیے نظم و نثر کے نوع در نوع کئی پیرائے اختیار کیے جاتے ہیں ان پر بھی لفظ ادب کے اطلاق کا ایک سبب یہی ہے کہ اس سے بھی کئی معاشرتی حوالوں سے انسانوں کی تربیت ہوتی ہے اردو اصطلاح میں فنون ادب کے لیے ’’ادبیات‘‘ کی اصطلاح مروج ہے۔
امام مسلم نے انفرادی اور اجتماعی زندگی کے آداب کے حوالے سے رسول اللہ ﷺ کے خوبصورت طریقے اور آپ کی تعلیمات اس کتا ب میں اور اس کے بعد کی متعدد ذیلی کتب میں جمع کی ہیں وہ سب بھی حقیقت میں کتاب الآداب ہی کا حصہ ہیں ۔انھیں اپنی اہمیت کی وجہ سے الگ الگ کتا ب کا عنوان دیا گیا ہے لیکن سب کا تعلق آداب ہی سے ہے بعض شارحین نے کتاب الرؤیا تک اگلے تمام ابواب کو کتاب الآداب ہی میں ضم کر دیا ہے اس سلسلے کی پہلی کتاب میں جس کا نام بھی کتاب الآداب ہے،ان میں سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ کی کنیت اور آپ کے نامِ نامی کے حوالے سے ادب بیان کیا گیا ہے اس کے بعد نام رکھنے کے آداب ، نا مناسب ناموں سے بچنے اور اگر رکھے ہوئے ہوں تو ان کو بدلنے کی اہمیت ،احترام،محبت اور شفقت کے اظہار کے لیے کسی اچھے رشتے کے نام پر کسی کو پکارنے کا جواز وغیرہ جیسے عنوانات کے تحت احادیث بیان کی گئی ہیں اس کے بعد کسی کے گھر داخل ہونے کے لیے اجازت مانگنے،اجازت نہ ملے تو واپس چلے جانے کے آداب بیان ہوئے ہیں۔ آخر میں گھروں کی خلوت کے احترام کی تاکید کے متعلق احادیث ذکر کی گئی ہیں۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ بقیع میں ایک شخص نے دوسرے شخص کو یا ابالقاسم کہہ کر آواز دی، رسول اللہ ﷺ (اس آواز پر) اس (آدمی) کی طرف متوجہ ہو ئے تو اس شخص نے کہا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! میرا مقصود آپ کو پکارنا نہ تھا ،میں نے تو فلاں کو آواز دی ہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میرے نام پر نام رکھو اور میری کنیت پر (اپنی) کنیت نہ رکھو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، ایک آدمی نے بقیع میں دوسرے آدمی کو آواز دی، اے ابو القاسم! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف متوجہ ہوئے تو اس نے عرض کی، اے اللہ کے رسول! میرا مقصود آپ نہیں ہیں، (میں نے آپ کو آواز نہیں دی) میں نے تو فلاں کو پکارا ہے، (بلایا ہے) اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرا نام رکھ لو اور میری کنیت مت رکھو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اپنی کنیت رکھنے سے اس لیے روکا کہ اس سے التباس پیدا ہوتا تھا، کیونکہ جب ایک آدمی نے دوسرے آدمی کو ابو القاسم کہہ کر پکارا تو آپ نے خیال کیا مجھے پکارا ہے، اس لیے آپ متوجہ ہوئے، اس نے جب یہ کہا کہ میں نے آپ کو نہیں بلایا، تب آپ نے یہ ارشاد فرمایا، میرا نام رکھ لو، لیکن میری کنیت نہ رکھو، جس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عرب عام طور پر دوسرے کو کنیت سے یاد کرتے تھے، خاص کر معزز و محترم فرد کو نام لے کر نہیں پکارتے تھے، اس لیے نام رکھنے کی صورت میں اشتباہ کا احتمال کم تھا اور اس کی ایک وجہ اور ہے، جو آگے آ رہی ہے، اس لیے ابو القاسم کنیت رکھنے کے بارے میں علماء کی مختلف نظریات ہیں (1) امام مالک، جمہور سلف اور جمہور فقہاء اور علماء کا یہ موقف ہے کہ اس ممانعت کا تعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے ہے، جب کہ اس کنیت رکھنے سے التباس کا خطرہ تھا اور اب التباس کا خدشہ باقی نہیں رہا ہے، اس لیے اب جو چاہے یہ کنیت رکھ سکتا ہے، خواہ اس کا نام محمد یا احمد ہو یا نہ ہو۔ (2) امام شافعی اور اہل ظاہر کا نظریہ یہ ہے، یہ ابو القاسم کنیت رکھنا کسی کے لیے بھی جائز نہیں ہے، خواہ اس کا نام محمد یا احمد ہو یا نہ ہو۔ (3) امام ابن جریر کے نزدیک یہ نص تنزیہہ یا ادب و احترام کے لیے ہے۔ (4) یہ کنیت رکھنا اس شخص کے لیے ممنوع ہے، جس کا نام محمد یا احمد ہو اور جس کا یہ نام نہ ہو اس کے لیے ابو القاسم کنیت رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، بعض متقدمین کا یہی موقف ہے۔ (5) ابو القاسم کنیت رکھنا، ہر ایک کے لیے ممنوع ہے، اس طرح قاسم نام رکھنا جائز نہیں ہے، تاکہ اس کے باپ کو ابو القاسم نہ کہا جا سکے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Anas reported that person at Baqi' called another person as "Abu'l- Qasim," and Allah's Messenger (ﷺ) turned towards him. He (the person who had uttered these words) said: Messenger of Allah, I did not mean you, but I called such and such (person), whereupon Allah's Messenger (ﷺ) said: You may call yourself by my name, but not by my kunya.