باب: ابوالقاسم کنیت رکھنے کی ممانعت اور اچھے ناموں کا بیان
)
Muslim:
The Book of Manners and Etiquette
(Chapter: The Prohibition Of Taking The Kunyah Abul-Qasim, And The Names Which Are Recommended)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2135.
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ جب میں نجران میں آیا، تو وہاں کے (انصاری) لوگوں نے مجھ پر اعتراض کیا کہ تم پڑھتے ہو کہ ﴿يٰأُخْتً هٰارُون﴾ (”اے ہارون کی بہن“ (مریم: 28) (یعنی مریم ؑ کو ہارون کی بہن کہا ہے) حالانکہ (سیدنا ہارون موسیٰ علیہ السلام کے بھائی تھے اور) موسیٰ علیہ السلام، عیسیٰ علیہ السلام سے اتنی مدت پہلے تھے (پھر مریم ہارون علیہ السلام کی بہن کیونکر ہو سکتی ہیں؟)، جب میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا تو میں نے آپ ﷺ سے پوچھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’(یہ وہ ہارون تھوڑے ہیں جو موسیٰ کے بھائی تھے) بنی اسرائیل کی عادت تھی (جیسے اب سب کی عادت ہے) کہ وہ پیغمبروں اور اگلے نیکوں کے نام پر نام رکھتے تھے۔‘‘
ادب سے مراد زندگی گزارنے کے طریقوں میں سے بہترین طریقہ سیکھنا اور اختیار کرنا ہے۔ ایسا طریقہ جس سے انفرادی اور اجتماعی زندگی آسان ،مشکلات سے محفوظ،خوشگوار اور عزت مند ہو جائے رسول اللہ ﷺ کے فرمان(أدَّبَبَنِي رَبِّي فأحْسَنَ تَأ دِيبِي)"" میرے رب نے مجھے ادب سکھایا اور بہترین انداز میں سکھایا ‘‘ میں اسی مفہوم کی طرف اشارہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے وہی بہترین ادب اپنی امت کو بھی سکھایا ہے آپ نے ایسے عمومی آداب بھی سکھائے جو ہر انسان کے لیے ہیں ، اور اسے معزز اور لوگوں کا محبوب بنا دیتے ہیں آپ ﷺ نے خاص ذمہ داریوں اور پیشوں کے حوالے سے بھی بہترین آداب سکھائے ہیں،مدرس کے آداب ،طالب علم کے آداب ،قاضی اور حاکم وغیرہ کے آداب۔
ادب کا لفظ کسی زبان کی ان تحریروں پر بھی بولا جاتا ہے جو انسان کی دلی واردات کی ترجمانی کرتی ہیں یا ان کے ذریعے سے مختلف شخصیات کے حوالے سے کسی انسان کے جو جذبات ہیں، ان کا اظہار ہوتا ہے اس کے لیے نظم و نثر کے نوع در نوع کئی پیرائے اختیار کیے جاتے ہیں ان پر بھی لفظ ادب کے اطلاق کا ایک سبب یہی ہے کہ اس سے بھی کئی معاشرتی حوالوں سے انسانوں کی تربیت ہوتی ہے اردو اصطلاح میں فنون ادب کے لیے ’’ادبیات‘‘ کی اصطلاح مروج ہے۔
امام مسلم نے انفرادی اور اجتماعی زندگی کے آداب کے حوالے سے رسول اللہ ﷺ کے خوبصورت طریقے اور آپ کی تعلیمات اس کتا ب میں اور اس کے بعد کی متعدد ذیلی کتب میں جمع کی ہیں وہ سب بھی حقیقت میں کتاب الآداب ہی کا حصہ ہیں ۔انھیں اپنی اہمیت کی وجہ سے الگ الگ کتا ب کا عنوان دیا گیا ہے لیکن سب کا تعلق آداب ہی سے ہے بعض شارحین نے کتاب الرؤیا تک اگلے تمام ابواب کو کتاب الآداب ہی میں ضم کر دیا ہے اس سلسلے کی پہلی کتاب میں جس کا نام بھی کتاب الآداب ہے،ان میں سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ کی کنیت اور آپ کے نامِ نامی کے حوالے سے ادب بیان کیا گیا ہے اس کے بعد نام رکھنے کے آداب ، نا مناسب ناموں سے بچنے اور اگر رکھے ہوئے ہوں تو ان کو بدلنے کی اہمیت ،احترام،محبت اور شفقت کے اظہار کے لیے کسی اچھے رشتے کے نام پر کسی کو پکارنے کا جواز وغیرہ جیسے عنوانات کے تحت احادیث بیان کی گئی ہیں اس کے بعد کسی کے گھر داخل ہونے کے لیے اجازت مانگنے،اجازت نہ ملے تو واپس چلے جانے کے آداب بیان ہوئے ہیں۔ آخر میں گھروں کی خلوت کے احترام کی تاکید کے متعلق احادیث ذکر کی گئی ہیں۔
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ جب میں نجران میں آیا، تو وہاں کے (انصاری) لوگوں نے مجھ پر اعتراض کیا کہ تم پڑھتے ہو کہ ﴿يٰأُخْتً هٰارُون﴾(”اے ہارون کی بہن“ (مریم: 28) (یعنی مریم ؑ کو ہارون کی بہن کہا ہے) حالانکہ (سیدنا ہارون موسیٰ علیہ السلام کے بھائی تھے اور) موسیٰ علیہ السلام، عیسیٰ علیہ السلام سے اتنی مدت پہلے تھے (پھر مریم ہارون علیہ السلام کی بہن کیونکر ہو سکتی ہیں؟)، جب میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا تو میں نے آپ ﷺ سے پوچھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’(یہ وہ ہارون تھوڑے ہیں جو موسیٰ کے بھائی تھے) بنی اسرائیل کی عادت تھی (جیسے اب سب کی عادت ہے) کہ وہ پیغمبروں اور اگلے نیکوں کے نام پر نام رکھتے تھے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت مغیرہ بن شعبہ علیہ السلام بیان کرتے ہیں، جب میں علاقہ نجران آیا، لوگوں نے مجھ سے سوال کیا اور کہا، تم پڑھتے ہو، ہارون کی بہن ﴿يَا اُختَ هٰارُونَ﴾ حالانکہ موسیٰ علیہ السلام، عیسیٰ علیہ السلام سے اتنا اتنا عرصہ پہلے گزر چکے ہیں تو جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس آیا، میں نے آپ سے اس کے بارے میں دریافت کیا تو آپﷺ نے فرمایا: ’’وہ اپنے انبیاء اور پہلے نیک لوگوں کے نام پر نام رکھتے تھے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
حضرت مریم علیہا السلام کو ﴿يَا أُخْتَ هَارُونَ﴾ کہہ کر پکارا گیا ہے، حالانکہ ہارون علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بھائی ہیں، جو حضرت مریم اور عیسیٰ علیہم السلام سے کافی عرصہ پہلے گزر چکے ہیں، آپﷺ نے فرمایا کہ ہارون سے مراد یہاں موسیٰ علیہ السلام کا بھائی نہیں ہے، بلکہ اور ہارون ہے اور بنو اسرائیل، اپنی اولاد کے نام گزشتہ انبیاء اور نیک لوگوں کے نام پر رکھ لیتے تھے اور حضرت مریم کو ﴿يَا أُخْتَ هَارُونَ﴾ اس انسان کی نیکی اور پارسائی کے ساتھ تشبیہ دیتے ہوئے کہا گیا، وگرنہ وہ ان کا حقیقی بھائی نہ تھا اور اب علماء کے نزدیک بالاتفاق، انبیاء کے نام پر نام رکھنا جائز ہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو محمد نام رکھنے سے منع فرمایا ہے تو اس کی وجہ یہ تھی کہ اس نام کا شخص اگر کوئی غلط حرکت کرے تو لوگ اس کی غلط کاری پر لعن طعن کرتے ہیں تو گویا اس کے سبب آپ کے نام کو برا بھلا کہا گیا تو یہ آپ کے نام کی عظمت و احترام کے منافی ہے، اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا، یہ نام نہ رکھو، لیکن جب ان کو بتایا گیا کہ یہ نام آپ نے خود بعض لوگوں کا رکھا ہے تو وہ خاموش ہو گئے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Mughira bin Shu'bah reported: When I came to Najran, they (the Christians of Najran) asked me: You read "O sister of Harun" (i. e. Hadrat Maryam) in the Qur'an, whereas Moses (ؑ) was born much before Jesus. When I came back to Allah's Messenger (ﷺ) I asked him about that, whereupon he said: The (people of the old age) used to give names (to their persons) after the names of Apostles and pious persons who had gone before them.