باب: کسی اور کے بیٹے کو بیٹا کہنا جائز ہے اور (اگر) شفقت کے اظہار کے لئے ہوتو مستحب ہے
)
Muslim:
The Book of Manners and Etiquette
(Chapter: It Is Permissible To Say: "O My Son" To Someone Other Than One's Son, And It Is Recommended To Speak Kindly)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2152.
یزید بن ہارون نے اسماعیل بن ابی خالد سے، انھوں نے قیس بن ابی حازم سے، انھوں نے حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ ﷺ سے دجال کے متعلق جتنے سوالات میں نے کیے اتنے کسی اور نے نہیں کیے، آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ’’میرے بیٹے! تمھیں اس (دجال) سے کیا بات پریشان کررہی ہے؟ تمھیں اس سے ہر گز کوئی نقصان نہ پہنچے گا۔‘‘ کہا: میں نے عرض کی: لوگ سمجھتے ہیں کہ اس کے ساتھ پانی کی نہریں اور روٹی کے پہاڑ ہوں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کی نسبت زیادہ ذلیل ہے۔‘‘
ادب سے مراد زندگی گزارنے کے طریقوں میں سے بہترین طریقہ سیکھنا اور اختیار کرنا ہے۔ ایسا طریقہ جس سے انفرادی اور اجتماعی زندگی آسان ،مشکلات سے محفوظ،خوشگوار اور عزت مند ہو جائے رسول اللہ ﷺ کے فرمان(أدَّبَبَنِي رَبِّي فأحْسَنَ تَأ دِيبِي)"" میرے رب نے مجھے ادب سکھایا اور بہترین انداز میں سکھایا ‘‘ میں اسی مفہوم کی طرف اشارہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے وہی بہترین ادب اپنی امت کو بھی سکھایا ہے آپ نے ایسے عمومی آداب بھی سکھائے جو ہر انسان کے لیے ہیں ، اور اسے معزز اور لوگوں کا محبوب بنا دیتے ہیں آپ ﷺ نے خاص ذمہ داریوں اور پیشوں کے حوالے سے بھی بہترین آداب سکھائے ہیں،مدرس کے آداب ،طالب علم کے آداب ،قاضی اور حاکم وغیرہ کے آداب۔
ادب کا لفظ کسی زبان کی ان تحریروں پر بھی بولا جاتا ہے جو انسان کی دلی واردات کی ترجمانی کرتی ہیں یا ان کے ذریعے سے مختلف شخصیات کے حوالے سے کسی انسان کے جو جذبات ہیں، ان کا اظہار ہوتا ہے اس کے لیے نظم و نثر کے نوع در نوع کئی پیرائے اختیار کیے جاتے ہیں ان پر بھی لفظ ادب کے اطلاق کا ایک سبب یہی ہے کہ اس سے بھی کئی معاشرتی حوالوں سے انسانوں کی تربیت ہوتی ہے اردو اصطلاح میں فنون ادب کے لیے ’’ادبیات‘‘ کی اصطلاح مروج ہے۔
امام مسلم نے انفرادی اور اجتماعی زندگی کے آداب کے حوالے سے رسول اللہ ﷺ کے خوبصورت طریقے اور آپ کی تعلیمات اس کتا ب میں اور اس کے بعد کی متعدد ذیلی کتب میں جمع کی ہیں وہ سب بھی حقیقت میں کتاب الآداب ہی کا حصہ ہیں ۔انھیں اپنی اہمیت کی وجہ سے الگ الگ کتا ب کا عنوان دیا گیا ہے لیکن سب کا تعلق آداب ہی سے ہے بعض شارحین نے کتاب الرؤیا تک اگلے تمام ابواب کو کتاب الآداب ہی میں ضم کر دیا ہے اس سلسلے کی پہلی کتاب میں جس کا نام بھی کتاب الآداب ہے،ان میں سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ کی کنیت اور آپ کے نامِ نامی کے حوالے سے ادب بیان کیا گیا ہے اس کے بعد نام رکھنے کے آداب ، نا مناسب ناموں سے بچنے اور اگر رکھے ہوئے ہوں تو ان کو بدلنے کی اہمیت ،احترام،محبت اور شفقت کے اظہار کے لیے کسی اچھے رشتے کے نام پر کسی کو پکارنے کا جواز وغیرہ جیسے عنوانات کے تحت احادیث بیان کی گئی ہیں اس کے بعد کسی کے گھر داخل ہونے کے لیے اجازت مانگنے،اجازت نہ ملے تو واپس چلے جانے کے آداب بیان ہوئے ہیں۔ آخر میں گھروں کی خلوت کے احترام کی تاکید کے متعلق احادیث ذکر کی گئی ہیں۔
یزید بن ہارون نے اسماعیل بن ابی خالد سے، انھوں نے قیس بن ابی حازم سے، انھوں نے حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ ﷺ سے دجال کے متعلق جتنے سوالات میں نے کیے اتنے کسی اور نے نہیں کیے، آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ’’میرے بیٹے! تمھیں اس (دجال) سے کیا بات پریشان کررہی ہے؟ تمھیں اس سے ہر گز کوئی نقصان نہ پہنچے گا۔‘‘ کہا: میں نے عرض کی: لوگ سمجھتے ہیں کہ اس کے ساتھ پانی کی نہریں اور روٹی کے پہاڑ ہوں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کی نسبت زیادہ ذلیل ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مجھ سے زیادہ کسی نے دجال کے بارے میں دریافت نہیں کیا تو آپﷺ نے فرمایا: ’’اے بیٹے! تیرے لیے اس سے کون سی چیز دشواری یا مشقت کا باعث ہے؟ وہ تمہیں ہرگز نقصان نہیں پہنچائے گا۔‘‘ میں نے کہا، لوگوں کا خیال ہے، اس کے ساتھ پانی کی نہریں اور روٹیوں کے پہاڑ ہوں گے، آپﷺ نے فرمایا: ’’وہ اللہ کے نزدیک اسی بناء پر ذلیل ہو گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
دجال کے بارے میں تفصیلی روایات کتاب الفتن میں آئیں گی، اس لیے اس کے بارے میں بحث وہیں ہو گی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Mughira bin Shu'bah reported that none else had asked more questions from Allah's Messenger (ﷺ) about the Dajjal than I, but he simply said in a slight mood): O, my son, why are you worried because of him? He will not harm you. I said: The people think that he would have with him rivers of water and mountains of bread, whereupon he said: He would be more insignificant in the sight of Allah than all these things (belonging to him).