باب: سوار پیدل کو اور کم لوگ زیادہ لوگوں کو سلام کریں
)
Muslim:
The Book of Greetings
(Chapter: The One Who Is Riding Should Greet The One Who Is Walking, And The Smaller Group Should Greet The Larger Group)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2160.
عبدالرحمٰن بن زید کے آزاد کردہ غلام ثابت نے بتایا کہ انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا، کہہ رہے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’سوار پید ل کو سلام کرے، چلنے والا بیٹھے ہوئے کو سلام کرے اور کم لو گ زیادہ لوگوں کو سلام کریں۔‘‘
اسلامی سلامتی کادین ہے۔ صرف انسان کےلیے نہیں بلکہ تمام مخلوقات کی سلامتی سکھاتاہے۔ ہرمسلمان کوسکھایاگیاہےکہ دنیاکاہروہ انسان جواللہ کاباغی نہیں اوردوسرےانسان کی سلامتی کاقائل ہےوہ صرف اسےسلامتی کایقین ہی نہ دلائےبلکہ سلامتی کی دعابھی دے۔ پہلافقرہ جوکوئی مسلمان کوکہتاہےوہ السلام علیکم ہے۔ وہ صرف اپنےمخاطب کوسلامتی کاپیغام اورسلامتی کی دعانہیں دیتابلکہ اس کےتمام ساتھیوں کوبھی اس میں شامل کرتاہے۔ قرآن مجیدنےمسلمانوں کےدرمیان سلامتی کی خواہش کےاظہاراوردعاکولازمی قراردیاہے۔ اسلام کونہ ماننےوالوں کوبھی سلام کہاجاتاتھالیکن جب انہوں نےثابت کردیاکہ وہ مسلمان بلکہ خوداللہ کےرسول اللہﷺکےلیے بھی سلامتی کےبجائےچالاکی سےہلاکت کی بددعادیتےہیں تویہ طریقہ اپنانےکاحکم دیاگیاکہ غیرمسلم اگرسلام کہیں توجواب میں سلام کہاجائےاوروہ اگروہ سام علیکم (آپ پرموت ہو،یااس جیسےاورجملے)کہیں توبھی ترکی بہ ترکی جواب دینےکےبجائےصرف علیکم کہنےپراکتفاکیاجائے۔ غیرمسلموں کےساتھ پرامن بقائےباہمی مسلمانوں کاوتیرہ ہے۔ جوسلامتی کےباہمی عہدکوتوڑدےاوردرپےآزادہوجائے تواس کی چیرہ دستیوں سےدفاع ضروری ہے۔
زمین پربسنےوالی اللہ کی دوسری مخلوقات کی سلامتی کوبھی یقینی بنانےکاحکم دیاگیاہے،البتہ جوموذی جانورانسانی آبادیوں میں گھس کرانسانوں اورانسان کےزیرحفاظت دوسرےچوپایوں کےلیے ضررسانی یاہلاکت کاباعث بنیں ان سےنجات حاصل کرنےکی اجازت دی گئی۔ ایسےموذی جانوروں میں بڑےاورچھوٹےسب طرح کےجانورشامل ہیں۔ اگرکوئی جانورموذی سمجھاجاتاہےلیکن وہ بھی عرصہ درازسےانسانی آبادی میں بس رہاہےتواپنےعمل سےاسےبھی سلامتی کےساتھ وہاں سےجانےکاپیغام دیناچاہیے،اگرپھربھی نہ جائےتواس سےچھٹکاراپانےکی اجازت ہے،ورنہ انسانی آبادی میں اپنی موجودگی سےغلط فائدہ اٹھاکروہ کل کلاں ہلاکت کاموجب بنےگا۔
سلامتی کےحوالےسےمسلمانوں کونہایت عمدہ آداب سکھائےگئےہیں۔ اجازت کےبغیرکسی کےگھرمیں داخل نہ ہونا،عورتیں ضروری کاموں سےباہرجائیں توان کےلیے راستوں کومحفوظ بنانااوربوقت ضرورت ان کی مددکرنا،معاشرےخاندانوں،خصوصاخواتین کی سلامتی کےتحفظ کےلیے کسی اجنبی خاتون کےساتھ خلوت میں نہ رہنااوراگرمحرم خاتون ساتھ ہےتوضرورت محسوس ہونےپراس کےساتھ اپنےرشتےکی وضاحت کردینا ضروری ہے۔ سلامتی کےلیے گھروں اورمجلسوں کی سلامتی ضروری ہے۔ مجلسوں میں مساوات،ایک دوسرےکےحقوق کےتحفظ اوراہل مجلس میں سےہرایک کےآرام کاخیال رکھنےسےمجلسوں کی سلامتی کویقینی بنایاجاسکتاہے،گھروں میں وہ لوگ داخل نہ ہوں جوفتنہ انگیزی کرسکتےہیں۔ دوآمیوں کی سرگوشی تک سےپرہیز اورضرورت کےوقت دوسروں کی مدداوران کےمسائل حل کرنےسےسب لوگوں کےدل میں سلامتی کااحساس مضبوط ہوتاہے۔
سلامتی کےمتعلق ان تمام امورکےبارےمیں رسول اللہﷺکےفرامین بیان کرنےکےبعدامام مسلم نےصحت سےمتعلق امورکوبیان کیاہے۔ سب سےپہلےان بیماریوں کےحوالےسےاحادیث لائی گئی ہیں جن کےاسباب کاکھوج لگاناعام طبیب کےلیےناممکن یاکم ازکم مشکل ہوتاہے۔ ان میں جادو،نظربداورزہرخورانی وغیرہ شامل ہیں۔ ان کےعلاج کےلیے مختلف تدابیربتائی گئی ہیں جن میں دم کرنااوردعاکرناشامل ہیں، پھرمختلف بیماریوں کےعلاج کےلیے ان مناسب طریقوں کاذکرہےجورسول اللہﷺکےزمانےمیں رائج تھے۔ ان میں سےکچھ طریقوں کورسول اللہﷺنےپسندفرمایا،کچھ کوناپسندکیا۔ یہ بھی بتایاگیاکہ آپ پسندفرماتےہیں کہ بیمارکودی جانےوالی دوائیں اورطریقہ علاج تکلیف دہ نہ ہواورغذاپسندیدہ اورعمدہ ہونی چاہیے۔ اس کےبعدمختلف وباؤں کےحوالےسےرسول اللہﷺکی ہدایات بیان کی گئی ہیں جن کےذریعےسےزیادہ سےزیادہ جانوں کاتحفظ کیاجاسکتاہے،بیمارہونےوالوں کی تیمارداری کویقینی بنانےکی ہدایات ہیں، اس کےبعدسلامتی کےحوالے سےمختلف اوہام کاذکرہےاورآخرمیں موذی جانوروں کےبارےمیں ہدایات ہیں اورعمومی طورپرہرجاندارکے ساتھ رحم دلی کاسلوک کرنےکی تلقین ہے۔
عبدالرحمٰن بن زید کے آزاد کردہ غلام ثابت نے بتایا کہ انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا، کہہ رہے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’سوار پید ل کو سلام کرے، چلنے والا بیٹھے ہوئے کو سلام کرے اور کم لو گ زیادہ لوگوں کو سلام کریں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سوار، پیدل کو اور چلنے والا بیٹھے کو اور کم زیادہ کو سلام کریں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
سلام کہنا سنت اور اس کا جواب دینا فرض ہے اور اگر سلام کہنے والے، ایک سے زائد ہوں تو ان کے لیے سلام کہنا فرض کفایہ ہے، یعنی ان میں سے ایک بھی سلام کہہ دے تو حق ادا ہو جائے گا، وگرنہ سب گناہگار ہوں گے اور اگر سب سلام کہیں تو یہ افضل ہے، اس طرح جواب دینے والے ایک سے زائد ہوں تو سلام کا جواب دینا فرض کفایہ ہے، ایک بھی سلام کا جواب دے دے تو فرض ادا ہو جائے گا، وگرنہ سب گناہ گار ہوں گے اور سب کا جواب دینا افضل ہے اور کم از کم سلام، السلام علیکم اور بہتر اور افضل السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ہے، اس طرح کم از کم جواب وعلیکم السلام ہے اور بہتر و افضل وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ہے اور سوار پیدل کو سلام کہے گا، تاکہ سوار ہونے کی بنا پر اس میں بڑائی اور تکبر کا احساس پیدا نہ ہو، بلکہ تواضع اور فروتنی اختیار کرے اور گزرنے والا جیسا کہ بخاری شریف کی روایت میں ہے، ماشی کی جگہ مار کا لفظ ہے، پیدل ہو یا سوار چونکہ مجلس میں آنے والے کے حکم میں ہے، نیز بیٹھنے والا چونکہ اس سے خطرہ اور ڈر محسوس کر سکتا ہے، خاص کر جبکہ گزرنے والا سوار ہو، اس لیے اس کے ڈر اور خوف کو ادا کرنے کے لیے انس و پیار کا اظہار کرنے کے لیے گزرنے والا سلام کہے گا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بیٹھنے والا اپنے کام میں مشغول ہے اور آنے جانے والوں کو سلام کہنا، اس کے لیے مشقت کا باعث ہو گا، اس لیے آنے جانے والے سلام کہیں اور کم تعداد والوں کا سلام کہنا، زیادہ تعداد کے مقابلہ میں آسان اور سہل ہے، نیز کثیر کو قلیل پر ایک قسم کا امتیاز حاصل ہے، اس لیے قلیل، کثیر کو سلام کہیں گے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hurairah (RA) reported Allah's Messenger (ﷺ) as saying: The rider should first greet the pedestrian, and the pedestrian the one who is seated and a small group should greet a larger group (with as-Salam-u-'Alaikum).