مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2190.
خالد بن حارث نے کہا: ہمیں شعبہ نے ہشام بن زید سے حدیث بیان کی، انھوں نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ ایک یہودی عورت رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک زہر آلود (پکی ہوئی) بکری لے کر آئی، نبی کریم ﷺ نے اس میں سے کچھ (گوشت کھایا) (آپ کو اس کے زہر آلود ہونے کا پتہ چل گیا) تو اس عورت کو رسول اللہ ﷺ کے پاس لایا گیا، آپ نے اس عورت سے اس (زہر) کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا: (نعوذ باللہ!) میں آپ کو قتل کرنا چاہتی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کرے گا کہ تمھیں اس بات پر تسلط (اختیار) دے دے۔‘‘ انھوں (انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نےکہا: یا آپ ﷺ نے فرمایا: ’’(تمھیں ) مجھ پر (تسلط دے دے۔)‘‘ انھوں (انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے کہا: صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عرض کی: کیا ہم اسے قتل نہ کردیں؟ آپ ﷺ نےفرمایا: ’’نہیں۔‘‘ انھوں (انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے کہا: تو میں اب بھی رسول اللہ ﷺ کےدہن مبارک کے اندرونی حصے میں اسکے اثرات کو پہچانتا ہوں۔
تشریح:
فوائدومسائل:
(1) نبی کریمﷺ کے دہن مبارک کے کسی حصے کے رنگ میں فرق آ گیا یا کوئی اور ایسی علامت سامنے آ گئی جس سے حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کو پتہ چلتا تھا کہ زہر خوانی کے اس واقعے سے پہلے ایسا نہیں تھا۔ (2) رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی کے خلاف تمام شیطانی حربے آزمائے گئے، مکی زندگی میں کئی طرح سے اذیتیں پہنچائی گئیں، بار بار فوج کشی کر کے آپﷺ کو (نعوذ باللہ) ختم کردینے کی کوششیں کی گئیں۔ آپﷺ کو زخم پہنچائے گئے۔ جھوٹے الزامات لگائے اور پھیلائے گئے، جب ان تمام مراحل میں اللہ نے آپﷺ ہی کو بالادست رکھا، پھر یہودیوں نے سازشی طریقے اپنائے۔ آپﷺ پر شدید جادو کیا گیا۔ اس کا بھی آپﷺ پر اثر نہ ہوا، بس معمولی سی تبدیلی آئی جس سے آپﷺ کو پتہ چل گیا کہ اس طرح کی کوشش کی گئی ہے۔ آپﷺ نے دعا فرمائی اور اللہ کی مدد سے نہ صرف شخصی طور پر بلکہ اجتماعی طور پر بھی اس سے جس طرح کا فتنہ پھیلایا جا سکتا تھا آپ نے اس کا قلع قمع کر دیا۔ پھر کھانے میں زہر ملا کر دیا گیا، اللہ نے اس موقع پر بھی آپﷺ کو محفوظ رکھا بلکہ اس موقع پر بھی آپﷺ نے اپنے معمول کے مطابق برائی کی ناکام سازش کا جواب بھلائی اور عفو کی صورت میں دیا۔ گویا اس حوالے سے بھی آپﷺ کا فضل وکرم اور عفو مکمل طور پر محفوظ رہا، بلکہ اور زیادہ نکھر کر سامنے آیا-
اسلامی سلامتی کادین ہے۔ صرف انسان کےلیے نہیں بلکہ تمام مخلوقات کی سلامتی سکھاتاہے۔ ہرمسلمان کوسکھایاگیاہےکہ دنیاکاہروہ انسان جواللہ کاباغی نہیں اوردوسرےانسان کی سلامتی کاقائل ہےوہ صرف اسےسلامتی کایقین ہی نہ دلائےبلکہ سلامتی کی دعابھی دے۔ پہلافقرہ جوکوئی مسلمان کوکہتاہےوہ السلام علیکم ہے۔ وہ صرف اپنےمخاطب کوسلامتی کاپیغام اورسلامتی کی دعانہیں دیتابلکہ اس کےتمام ساتھیوں کوبھی اس میں شامل کرتاہے۔ قرآن مجیدنےمسلمانوں کےدرمیان سلامتی کی خواہش کےاظہاراوردعاکولازمی قراردیاہے۔ اسلام کونہ ماننےوالوں کوبھی سلام کہاجاتاتھالیکن جب انہوں نےثابت کردیاکہ وہ مسلمان بلکہ خوداللہ کےرسول اللہﷺکےلیے بھی سلامتی کےبجائےچالاکی سےہلاکت کی بددعادیتےہیں تویہ طریقہ اپنانےکاحکم دیاگیاکہ غیرمسلم اگرسلام کہیں توجواب میں سلام کہاجائےاوروہ اگروہ سام علیکم (آپ پرموت ہو،یااس جیسےاورجملے)کہیں توبھی ترکی بہ ترکی جواب دینےکےبجائےصرف علیکم کہنےپراکتفاکیاجائے۔ غیرمسلموں کےساتھ پرامن بقائےباہمی مسلمانوں کاوتیرہ ہے۔ جوسلامتی کےباہمی عہدکوتوڑدےاوردرپےآزادہوجائے تواس کی چیرہ دستیوں سےدفاع ضروری ہے۔
زمین پربسنےوالی اللہ کی دوسری مخلوقات کی سلامتی کوبھی یقینی بنانےکاحکم دیاگیاہے،البتہ جوموذی جانورانسانی آبادیوں میں گھس کرانسانوں اورانسان کےزیرحفاظت دوسرےچوپایوں کےلیے ضررسانی یاہلاکت کاباعث بنیں ان سےنجات حاصل کرنےکی اجازت دی گئی۔ ایسےموذی جانوروں میں بڑےاورچھوٹےسب طرح کےجانورشامل ہیں۔ اگرکوئی جانورموذی سمجھاجاتاہےلیکن وہ بھی عرصہ درازسےانسانی آبادی میں بس رہاہےتواپنےعمل سےاسےبھی سلامتی کےساتھ وہاں سےجانےکاپیغام دیناچاہیے،اگرپھربھی نہ جائےتواس سےچھٹکاراپانےکی اجازت ہے،ورنہ انسانی آبادی میں اپنی موجودگی سےغلط فائدہ اٹھاکروہ کل کلاں ہلاکت کاموجب بنےگا۔
سلامتی کےحوالےسےمسلمانوں کونہایت عمدہ آداب سکھائےگئےہیں۔ اجازت کےبغیرکسی کےگھرمیں داخل نہ ہونا،عورتیں ضروری کاموں سےباہرجائیں توان کےلیے راستوں کومحفوظ بنانااوربوقت ضرورت ان کی مددکرنا،معاشرےخاندانوں،خصوصاخواتین کی سلامتی کےتحفظ کےلیے کسی اجنبی خاتون کےساتھ خلوت میں نہ رہنااوراگرمحرم خاتون ساتھ ہےتوضرورت محسوس ہونےپراس کےساتھ اپنےرشتےکی وضاحت کردینا ضروری ہے۔ سلامتی کےلیے گھروں اورمجلسوں کی سلامتی ضروری ہے۔ مجلسوں میں مساوات،ایک دوسرےکےحقوق کےتحفظ اوراہل مجلس میں سےہرایک کےآرام کاخیال رکھنےسےمجلسوں کی سلامتی کویقینی بنایاجاسکتاہے،گھروں میں وہ لوگ داخل نہ ہوں جوفتنہ انگیزی کرسکتےہیں۔ دوآمیوں کی سرگوشی تک سےپرہیز اورضرورت کےوقت دوسروں کی مدداوران کےمسائل حل کرنےسےسب لوگوں کےدل میں سلامتی کااحساس مضبوط ہوتاہے۔
سلامتی کےمتعلق ان تمام امورکےبارےمیں رسول اللہﷺکےفرامین بیان کرنےکےبعدامام مسلم نےصحت سےمتعلق امورکوبیان کیاہے۔ سب سےپہلےان بیماریوں کےحوالےسےاحادیث لائی گئی ہیں جن کےاسباب کاکھوج لگاناعام طبیب کےلیےناممکن یاکم ازکم مشکل ہوتاہے۔ ان میں جادو،نظربداورزہرخورانی وغیرہ شامل ہیں۔ ان کےعلاج کےلیے مختلف تدابیربتائی گئی ہیں جن میں دم کرنااوردعاکرناشامل ہیں، پھرمختلف بیماریوں کےعلاج کےلیے ان مناسب طریقوں کاذکرہےجورسول اللہﷺکےزمانےمیں رائج تھے۔ ان میں سےکچھ طریقوں کورسول اللہﷺنےپسندفرمایا،کچھ کوناپسندکیا۔ یہ بھی بتایاگیاکہ آپ پسندفرماتےہیں کہ بیمارکودی جانےوالی دوائیں اورطریقہ علاج تکلیف دہ نہ ہواورغذاپسندیدہ اورعمدہ ہونی چاہیے۔ اس کےبعدمختلف وباؤں کےحوالےسےرسول اللہﷺکی ہدایات بیان کی گئی ہیں جن کےذریعےسےزیادہ سےزیادہ جانوں کاتحفظ کیاجاسکتاہے،بیمارہونےوالوں کی تیمارداری کویقینی بنانےکی ہدایات ہیں، اس کےبعدسلامتی کےحوالے سےمختلف اوہام کاذکرہےاورآخرمیں موذی جانوروں کےبارےمیں ہدایات ہیں اورعمومی طورپرہرجاندارکے ساتھ رحم دلی کاسلوک کرنےکی تلقین ہے۔
خالد بن حارث نے کہا: ہمیں شعبہ نے ہشام بن زید سے حدیث بیان کی، انھوں نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ ایک یہودی عورت رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک زہر آلود (پکی ہوئی) بکری لے کر آئی، نبی کریم ﷺ نے اس میں سے کچھ (گوشت کھایا) (آپ کو اس کے زہر آلود ہونے کا پتہ چل گیا) تو اس عورت کو رسول اللہ ﷺ کے پاس لایا گیا، آپ نے اس عورت سے اس (زہر) کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا: (نعوذ باللہ!) میں آپ کو قتل کرنا چاہتی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کرے گا کہ تمھیں اس بات پر تسلط (اختیار) دے دے۔‘‘ انھوں (انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نےکہا: یا آپ ﷺ نے فرمایا: ’’(تمھیں ) مجھ پر (تسلط دے دے۔)‘‘ انھوں (انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے کہا: صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عرض کی: کیا ہم اسے قتل نہ کردیں؟ آپ ﷺ نےفرمایا: ’’نہیں۔‘‘ انھوں (انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے کہا: تو میں اب بھی رسول اللہ ﷺ کےدہن مبارک کے اندرونی حصے میں اسکے اثرات کو پہچانتا ہوں۔
حدیث حاشیہ:
فوائدومسائل:
(1) نبی کریمﷺ کے دہن مبارک کے کسی حصے کے رنگ میں فرق آ گیا یا کوئی اور ایسی علامت سامنے آ گئی جس سے حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کو پتہ چلتا تھا کہ زہر خوانی کے اس واقعے سے پہلے ایسا نہیں تھا۔ (2) رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی کے خلاف تمام شیطانی حربے آزمائے گئے، مکی زندگی میں کئی طرح سے اذیتیں پہنچائی گئیں، بار بار فوج کشی کر کے آپﷺ کو (نعوذ باللہ) ختم کردینے کی کوششیں کی گئیں۔ آپﷺ کو زخم پہنچائے گئے۔ جھوٹے الزامات لگائے اور پھیلائے گئے، جب ان تمام مراحل میں اللہ نے آپﷺ ہی کو بالادست رکھا، پھر یہودیوں نے سازشی طریقے اپنائے۔ آپﷺ پر شدید جادو کیا گیا۔ اس کا بھی آپﷺ پر اثر نہ ہوا، بس معمولی سی تبدیلی آئی جس سے آپﷺ کو پتہ چل گیا کہ اس طرح کی کوشش کی گئی ہے۔ آپﷺ نے دعا فرمائی اور اللہ کی مدد سے نہ صرف شخصی طور پر بلکہ اجتماعی طور پر بھی اس سے جس طرح کا فتنہ پھیلایا جا سکتا تھا آپ نے اس کا قلع قمع کر دیا۔ پھر کھانے میں زہر ملا کر دیا گیا، اللہ نے اس موقع پر بھی آپﷺ کو محفوظ رکھا بلکہ اس موقع پر بھی آپﷺ نے اپنے معمول کے مطابق برائی کی ناکام سازش کا جواب بھلائی اور عفو کی صورت میں دیا۔ گویا اس حوالے سے بھی آپﷺ کا فضل وکرم اور عفو مکمل طور پر محفوظ رہا، بلکہ اور زیادہ نکھر کر سامنے آیا-
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودن، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک زہر آلودہ بکری لائی تو آپﷺ نے اس میں سے کھا لیا تو اس عورت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیا اور آپ نے اس سے اس کا سبب پوچھا؟ اس نے کہا، میں آپ کو قتل کرنا چاہتی تھی، آپﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ ایسے نہیں ہے کہ تجھے اس کی قدرت دیتا یا مجھ پر قدرت دیتا۔‘‘ صحابہ کرام نے عرض کیا، کیا ہم اسے قتل نہ کر دیں؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’نہ۔‘‘ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں، میں ہمیشہ اس کے اثرات آپ کے کوے میں پاتا رہا۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
یہودی سردار سلام بن مشکم کی بیوی اور مرحب پہلوان کی بہن زینب بنت حارث نے قومی غیرت کی بنا پر آپ کو زہر آلود بکری پیش کی اور اس کے بازو میں جس کو آپ پسند فرماتے تھے، خوب زہر ڈالا، تاکہ آپ کو ختم کر سکے، لیکن اللہ کی مشیت اور اجازت کے بغیر کوئی چیز اثر نہیں کرتی، اس لیے اس کا مقصد پورا نہ ہو سکا اور آپ نے اس واقعہ کے بعد تین سال زندہ رہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے چونکہ آپ کو شہادت کے ثواب سے نوازنا تھا، اس لیے آخر دنوں اس کا اثر نمایاں ہوا اور آپ وفات پا گئے، آپ نے جب بازو کا گوشت کھانا شروع کیا تو اس کو چبا نہ سکے اور آپ نے اس کو پھینک دیا اور ہڈی نے بتا دیا کہ مجھ میں زہر ڈالا گیا ہے، آپ نے دوسرے ساتھیوں کو کھانے سے روک دیا، لیکن حضرت بشر بن براء بن معرور ایک لقمہ نگل گئے اور فوت ہو گئے، آپﷺ نے اپنے طور پر اس عورت کو چھوڑ دیا اور زہر کا اثر نکالنے کے لیے کندھوں کے درمیان سینگی لگوائی، لیکن بعد میں جب حضرت بشر رضی اللہ عنہ فوت ہو گئے تو بعض ضعیف روایات کے مطابق اسے قصاص کے طور پر قتل کر دیا گیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Anas reported that a Jewess came to Allah's Messenger (ﷺ) with poisoned mutton and he took of that what had been brought to him (Allah's Messenger). When the effect of this poison were felt by him he called for her and asked her about that, whereupon she said: I had determined to kill you. Thereupon he said: Allah will never give you the power to do it. He (the narrator) said that they (the Companion's of the Holy Prophet) said: Should we not kill her? He said: No. He (Anas) said: I felt (the affects of this poison) on the uvula of Allah's Messenger.