Muslim:
The Book of Greetings
(Chapter: It Is Disliked To Administer Medicine In The Side Of The Mouth Forcibly)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2213.
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی کریم ﷺ کےمرض میں ہم نے آپ کی مرضی کے بغیر منہ کے کونے سے آپ کے دہن مبارک میں دوائی ڈالی، آپ نے اشارے سے روکا بھی کہ مجھے زبردستی دوائی نہ پلاؤ، ہم نے (آپس میں) کہا: یہ مریض کی طبعی طور پر دوائی کی ناپسندیدگی (کی وجہ سے) ہے۔ جب آپﷺ کو افاقہ ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی نہ بچے، سب کو زبردستی (ہی) دوائی پلائی جائے، سوائے عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کیونکہ وہ تمھارے ساتھ موجود نہیں تھے۔‘‘
تشریح:
فائدہ:
اس سے یہ تنبیہ مقصود تھی کہ بیماری مریض کے ساتھ اپنی مرضی کر نے کا اجازت نہیں، نیز یہ ایک طرح کی سزا تھی تاکہ، انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جو کیا تھا، وہ لوگ آخرت میں اس کے وبال سے بچ جائیں، یہ انتقام ہرگز نہ تھا۔
اسلامی سلامتی کادین ہے۔ صرف انسان کےلیے نہیں بلکہ تمام مخلوقات کی سلامتی سکھاتاہے۔ ہرمسلمان کوسکھایاگیاہےکہ دنیاکاہروہ انسان جواللہ کاباغی نہیں اوردوسرےانسان کی سلامتی کاقائل ہےوہ صرف اسےسلامتی کایقین ہی نہ دلائےبلکہ سلامتی کی دعابھی دے۔ پہلافقرہ جوکوئی مسلمان کوکہتاہےوہ السلام علیکم ہے۔ وہ صرف اپنےمخاطب کوسلامتی کاپیغام اورسلامتی کی دعانہیں دیتابلکہ اس کےتمام ساتھیوں کوبھی اس میں شامل کرتاہے۔ قرآن مجیدنےمسلمانوں کےدرمیان سلامتی کی خواہش کےاظہاراوردعاکولازمی قراردیاہے۔ اسلام کونہ ماننےوالوں کوبھی سلام کہاجاتاتھالیکن جب انہوں نےثابت کردیاکہ وہ مسلمان بلکہ خوداللہ کےرسول اللہﷺکےلیے بھی سلامتی کےبجائےچالاکی سےہلاکت کی بددعادیتےہیں تویہ طریقہ اپنانےکاحکم دیاگیاکہ غیرمسلم اگرسلام کہیں توجواب میں سلام کہاجائےاوروہ اگروہ سام علیکم (آپ پرموت ہو،یااس جیسےاورجملے)کہیں توبھی ترکی بہ ترکی جواب دینےکےبجائےصرف علیکم کہنےپراکتفاکیاجائے۔ غیرمسلموں کےساتھ پرامن بقائےباہمی مسلمانوں کاوتیرہ ہے۔ جوسلامتی کےباہمی عہدکوتوڑدےاوردرپےآزادہوجائے تواس کی چیرہ دستیوں سےدفاع ضروری ہے۔
زمین پربسنےوالی اللہ کی دوسری مخلوقات کی سلامتی کوبھی یقینی بنانےکاحکم دیاگیاہے،البتہ جوموذی جانورانسانی آبادیوں میں گھس کرانسانوں اورانسان کےزیرحفاظت دوسرےچوپایوں کےلیے ضررسانی یاہلاکت کاباعث بنیں ان سےنجات حاصل کرنےکی اجازت دی گئی۔ ایسےموذی جانوروں میں بڑےاورچھوٹےسب طرح کےجانورشامل ہیں۔ اگرکوئی جانورموذی سمجھاجاتاہےلیکن وہ بھی عرصہ درازسےانسانی آبادی میں بس رہاہےتواپنےعمل سےاسےبھی سلامتی کےساتھ وہاں سےجانےکاپیغام دیناچاہیے،اگرپھربھی نہ جائےتواس سےچھٹکاراپانےکی اجازت ہے،ورنہ انسانی آبادی میں اپنی موجودگی سےغلط فائدہ اٹھاکروہ کل کلاں ہلاکت کاموجب بنےگا۔
سلامتی کےحوالےسےمسلمانوں کونہایت عمدہ آداب سکھائےگئےہیں۔ اجازت کےبغیرکسی کےگھرمیں داخل نہ ہونا،عورتیں ضروری کاموں سےباہرجائیں توان کےلیے راستوں کومحفوظ بنانااوربوقت ضرورت ان کی مددکرنا،معاشرےخاندانوں،خصوصاخواتین کی سلامتی کےتحفظ کےلیے کسی اجنبی خاتون کےساتھ خلوت میں نہ رہنااوراگرمحرم خاتون ساتھ ہےتوضرورت محسوس ہونےپراس کےساتھ اپنےرشتےکی وضاحت کردینا ضروری ہے۔ سلامتی کےلیے گھروں اورمجلسوں کی سلامتی ضروری ہے۔ مجلسوں میں مساوات،ایک دوسرےکےحقوق کےتحفظ اوراہل مجلس میں سےہرایک کےآرام کاخیال رکھنےسےمجلسوں کی سلامتی کویقینی بنایاجاسکتاہے،گھروں میں وہ لوگ داخل نہ ہوں جوفتنہ انگیزی کرسکتےہیں۔ دوآمیوں کی سرگوشی تک سےپرہیز اورضرورت کےوقت دوسروں کی مدداوران کےمسائل حل کرنےسےسب لوگوں کےدل میں سلامتی کااحساس مضبوط ہوتاہے۔
سلامتی کےمتعلق ان تمام امورکےبارےمیں رسول اللہﷺکےفرامین بیان کرنےکےبعدامام مسلم نےصحت سےمتعلق امورکوبیان کیاہے۔ سب سےپہلےان بیماریوں کےحوالےسےاحادیث لائی گئی ہیں جن کےاسباب کاکھوج لگاناعام طبیب کےلیےناممکن یاکم ازکم مشکل ہوتاہے۔ ان میں جادو،نظربداورزہرخورانی وغیرہ شامل ہیں۔ ان کےعلاج کےلیے مختلف تدابیربتائی گئی ہیں جن میں دم کرنااوردعاکرناشامل ہیں، پھرمختلف بیماریوں کےعلاج کےلیے ان مناسب طریقوں کاذکرہےجورسول اللہﷺکےزمانےمیں رائج تھے۔ ان میں سےکچھ طریقوں کورسول اللہﷺنےپسندفرمایا،کچھ کوناپسندکیا۔ یہ بھی بتایاگیاکہ آپ پسندفرماتےہیں کہ بیمارکودی جانےوالی دوائیں اورطریقہ علاج تکلیف دہ نہ ہواورغذاپسندیدہ اورعمدہ ہونی چاہیے۔ اس کےبعدمختلف وباؤں کےحوالےسےرسول اللہﷺکی ہدایات بیان کی گئی ہیں جن کےذریعےسےزیادہ سےزیادہ جانوں کاتحفظ کیاجاسکتاہے،بیمارہونےوالوں کی تیمارداری کویقینی بنانےکی ہدایات ہیں، اس کےبعدسلامتی کےحوالے سےمختلف اوہام کاذکرہےاورآخرمیں موذی جانوروں کےبارےمیں ہدایات ہیں اورعمومی طورپرہرجاندارکے ساتھ رحم دلی کاسلوک کرنےکی تلقین ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی کریم ﷺ کےمرض میں ہم نے آپ کی مرضی کے بغیر منہ کے کونے سے آپ کے دہن مبارک میں دوائی ڈالی، آپ نے اشارے سے روکا بھی کہ مجھے زبردستی دوائی نہ پلاؤ، ہم نے (آپس میں) کہا: یہ مریض کی طبعی طور پر دوائی کی ناپسندیدگی (کی وجہ سے) ہے۔ جب آپﷺ کو افاقہ ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی نہ بچے، سب کو زبردستی (ہی) دوائی پلائی جائے، سوائے عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کیونکہ وہ تمھارے ساتھ موجود نہیں تھے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فائدہ:
اس سے یہ تنبیہ مقصود تھی کہ بیماری مریض کے ساتھ اپنی مرضی کر نے کا اجازت نہیں، نیز یہ ایک طرح کی سزا تھی تاکہ، انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جو کیا تھا، وہ لوگ آخرت میں اس کے وبال سے بچ جائیں، یہ انتقام ہرگز نہ تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہہ ہم نے رسول اللہ ﷺ بیماری میں آپﷺ کو منہ کے ایک طرف سے دوائی پلانی چاہی تو رسول اللہ ﷺ نے اشارہ سے فرمایا: ’’مجھے منہ کے ایک طرف سے دوائی نہ پلاؤ تو ہم نے کہا بیمار دوا لینا پسند نہیں کرتاہے تو جب آپﷺ کو افاقہ ہوا، آپﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے ہر فرد کو سوائے عباس کے لدود کیا جائے کیونکہ وہ تمھارے ساتھ موجود نہیں تھے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
لددنا: ہم نے( آپ کی مرضی کےخلاف) آپ کے منہ ایک طرف سے دوائی پلائی، کیونکہ لدود، اس دوا کو کہتے ہیں،جو منہ کے ایک جانب سے دی جائے۔
فوائد ومسائل
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے، سمجھ میں آنے والا، اشارہ تصریح کے قائم مقام ہے، چونکہ لُدُود، آپ کی بیماری کے مناسب نہ تھا، اس لیے آپ نے اس سے منع فرمایا، لیکن ازواج مطہرات نے خیال کیا، آپﷺ بیمار ہونے کے باعث دوا لینا پسند نہیں کر رہے، اس لیے انہوں نے آپ کے حکم پر عمل نہ کیا تو آپ نے آئندہ حرکت سے باز رہنے کے لیے تادب و سرزنش کے طور پر سب حاضرین کو لدود کروایا، یہ قصاص یا انتقام کے جذبہ کے تحت نہ تھا، کیونکہ آپ کا معمول تو عفو و درگزر تھا، انتقام لینا نہ تھا، اس سے معلوم ہوتا ہے، لدود کو ناپسند کرنا مخصوص حالات و ظروف کی بنا پر تھا، اس لیے اس سے لدود کی ناپسندیدگی پر استدلال زیادہ وزنی نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'A'isha reported: we (intended to pour) medicine in the mouth of Allah's Messenger (ﷺ) in his illness, but he pointed out (with the gesture of his hand) that it should not be poured into the mouth against his will. We said: (It was perhaps due to the natural) aversion of the patient against medicine. When he recovered, he said: Medicine should be poured into the mouth of every one of you except Ibn 'Abbas, for he was not present amongst you.