Muslim:
The Book of Greetings
(Chapter: The Plague, Ill Omens, Soothsaying And The Like)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2218.
امام مالک نے محمد بن منکدر اور عمربن عبید اللہ کے آزاد کردہ غلام ابو نضر سے، انھوں نے عامر بن (سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے روایت کی کہ انھوں نے سنا کہ وہ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پو چھ رہے تھے۔ آپ نے طاعون کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے کیا سنا،؟ اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’طاعون (اللہ کی بھیجی ہوئی) آفت یا عذاب ہے جو بنی اسرائیل پر بھیجا گیا یا (فرمایا) تم سے پہلے لوگوں پر بھیجا گیا جب تم سنو کہ وہ کسی سر زمین میں ہے تو اس سر زمین پر نہ جاؤ اور اگر وہ ایسی سر زمین میں واقع ہو جا ئے جس میں تم لوگ (موجود) ہو تو تم اس سے بھاگ کر وہاں سے نہ نکلو۔‘‘ ابو نضر نے (یہ جملہ) کہا : ’’تمھیں اس (طاعون) سے فرار کے علاوہ کوئی اور بات (اس سر زمین سے) نہ نکال رہی ہو۔‘‘
اسلامی سلامتی کادین ہے۔ صرف انسان کےلیے نہیں بلکہ تمام مخلوقات کی سلامتی سکھاتاہے۔ ہرمسلمان کوسکھایاگیاہےکہ دنیاکاہروہ انسان جواللہ کاباغی نہیں اوردوسرےانسان کی سلامتی کاقائل ہےوہ صرف اسےسلامتی کایقین ہی نہ دلائےبلکہ سلامتی کی دعابھی دے۔ پہلافقرہ جوکوئی مسلمان کوکہتاہےوہ السلام علیکم ہے۔ وہ صرف اپنےمخاطب کوسلامتی کاپیغام اورسلامتی کی دعانہیں دیتابلکہ اس کےتمام ساتھیوں کوبھی اس میں شامل کرتاہے۔ قرآن مجیدنےمسلمانوں کےدرمیان سلامتی کی خواہش کےاظہاراوردعاکولازمی قراردیاہے۔ اسلام کونہ ماننےوالوں کوبھی سلام کہاجاتاتھالیکن جب انہوں نےثابت کردیاکہ وہ مسلمان بلکہ خوداللہ کےرسول اللہﷺکےلیے بھی سلامتی کےبجائےچالاکی سےہلاکت کی بددعادیتےہیں تویہ طریقہ اپنانےکاحکم دیاگیاکہ غیرمسلم اگرسلام کہیں توجواب میں سلام کہاجائےاوروہ اگروہ سام علیکم (آپ پرموت ہو،یااس جیسےاورجملے)کہیں توبھی ترکی بہ ترکی جواب دینےکےبجائےصرف علیکم کہنےپراکتفاکیاجائے۔ غیرمسلموں کےساتھ پرامن بقائےباہمی مسلمانوں کاوتیرہ ہے۔ جوسلامتی کےباہمی عہدکوتوڑدےاوردرپےآزادہوجائے تواس کی چیرہ دستیوں سےدفاع ضروری ہے۔
زمین پربسنےوالی اللہ کی دوسری مخلوقات کی سلامتی کوبھی یقینی بنانےکاحکم دیاگیاہے،البتہ جوموذی جانورانسانی آبادیوں میں گھس کرانسانوں اورانسان کےزیرحفاظت دوسرےچوپایوں کےلیے ضررسانی یاہلاکت کاباعث بنیں ان سےنجات حاصل کرنےکی اجازت دی گئی۔ ایسےموذی جانوروں میں بڑےاورچھوٹےسب طرح کےجانورشامل ہیں۔ اگرکوئی جانورموذی سمجھاجاتاہےلیکن وہ بھی عرصہ درازسےانسانی آبادی میں بس رہاہےتواپنےعمل سےاسےبھی سلامتی کےساتھ وہاں سےجانےکاپیغام دیناچاہیے،اگرپھربھی نہ جائےتواس سےچھٹکاراپانےکی اجازت ہے،ورنہ انسانی آبادی میں اپنی موجودگی سےغلط فائدہ اٹھاکروہ کل کلاں ہلاکت کاموجب بنےگا۔
سلامتی کےحوالےسےمسلمانوں کونہایت عمدہ آداب سکھائےگئےہیں۔ اجازت کےبغیرکسی کےگھرمیں داخل نہ ہونا،عورتیں ضروری کاموں سےباہرجائیں توان کےلیے راستوں کومحفوظ بنانااوربوقت ضرورت ان کی مددکرنا،معاشرےخاندانوں،خصوصاخواتین کی سلامتی کےتحفظ کےلیے کسی اجنبی خاتون کےساتھ خلوت میں نہ رہنااوراگرمحرم خاتون ساتھ ہےتوضرورت محسوس ہونےپراس کےساتھ اپنےرشتےکی وضاحت کردینا ضروری ہے۔ سلامتی کےلیے گھروں اورمجلسوں کی سلامتی ضروری ہے۔ مجلسوں میں مساوات،ایک دوسرےکےحقوق کےتحفظ اوراہل مجلس میں سےہرایک کےآرام کاخیال رکھنےسےمجلسوں کی سلامتی کویقینی بنایاجاسکتاہے،گھروں میں وہ لوگ داخل نہ ہوں جوفتنہ انگیزی کرسکتےہیں۔ دوآمیوں کی سرگوشی تک سےپرہیز اورضرورت کےوقت دوسروں کی مدداوران کےمسائل حل کرنےسےسب لوگوں کےدل میں سلامتی کااحساس مضبوط ہوتاہے۔
سلامتی کےمتعلق ان تمام امورکےبارےمیں رسول اللہﷺکےفرامین بیان کرنےکےبعدامام مسلم نےصحت سےمتعلق امورکوبیان کیاہے۔ سب سےپہلےان بیماریوں کےحوالےسےاحادیث لائی گئی ہیں جن کےاسباب کاکھوج لگاناعام طبیب کےلیےناممکن یاکم ازکم مشکل ہوتاہے۔ ان میں جادو،نظربداورزہرخورانی وغیرہ شامل ہیں۔ ان کےعلاج کےلیے مختلف تدابیربتائی گئی ہیں جن میں دم کرنااوردعاکرناشامل ہیں، پھرمختلف بیماریوں کےعلاج کےلیے ان مناسب طریقوں کاذکرہےجورسول اللہﷺکےزمانےمیں رائج تھے۔ ان میں سےکچھ طریقوں کورسول اللہﷺنےپسندفرمایا،کچھ کوناپسندکیا۔ یہ بھی بتایاگیاکہ آپ پسندفرماتےہیں کہ بیمارکودی جانےوالی دوائیں اورطریقہ علاج تکلیف دہ نہ ہواورغذاپسندیدہ اورعمدہ ہونی چاہیے۔ اس کےبعدمختلف وباؤں کےحوالےسےرسول اللہﷺکی ہدایات بیان کی گئی ہیں جن کےذریعےسےزیادہ سےزیادہ جانوں کاتحفظ کیاجاسکتاہے،بیمارہونےوالوں کی تیمارداری کویقینی بنانےکی ہدایات ہیں، اس کےبعدسلامتی کےحوالے سےمختلف اوہام کاذکرہےاورآخرمیں موذی جانوروں کےبارےمیں ہدایات ہیں اورعمومی طورپرہرجاندارکے ساتھ رحم دلی کاسلوک کرنےکی تلقین ہے۔
امام مالک نے محمد بن منکدر اور عمربن عبید اللہ کے آزاد کردہ غلام ابو نضر سے، انھوں نے عامر بن (سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے روایت کی کہ انھوں نے سنا کہ وہ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پو چھ رہے تھے۔ آپ نے طاعون کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے کیا سنا،؟ اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’طاعون (اللہ کی بھیجی ہوئی) آفت یا عذاب ہے جو بنی اسرائیل پر بھیجا گیا یا (فرمایا) تم سے پہلے لوگوں پر بھیجا گیا جب تم سنو کہ وہ کسی سر زمین میں ہے تو اس سر زمین پر نہ جاؤ اور اگر وہ ایسی سر زمین میں واقع ہو جا ئے جس میں تم لوگ (موجود) ہو تو تم اس سے بھاگ کر وہاں سے نہ نکلو۔‘‘ ابو نضر نے (یہ جملہ) کہا : ’’تمھیں اس (طاعون) سے فرار کے علاوہ کوئی اور بات (اس سر زمین سے) نہ نکال رہی ہو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہ سے دریافت کیا، آپ نے طاعون کے بارے میں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا سنا ہے؟ تو حضرت اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’طاعون ایک قسم کا رجز یا عذاب ہے، جو بنی اسرائیل یا تم سے پہلے لوگوں پر بھیجا گیا، اس لیے جب تم کسی زمین میں اس کے موجود ہونے کے بارے میں سن لو تو وہاں نہ جاؤ، اور جب ایسی زمین میں پایا جائے، جہاں تم ہو تو اس سے ڈر کر نہ نکلوئ‘ ابو نضر کہتے ہیں، ’’تمہیں اس سے فرار ہی نہ نکالے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
(1) رجز: عذاب، رجس، اس حدیث میں ہم معنی الفاظ ہیں ۔ (2) طاعون: بروزن فاعول: ایک عام وباء ہے اور یہ ایک تباہ کن زہریلا مواد ہے، جو انسانی جسم کے نرم حصوں، خاص کر بغل، کہنی، انگلیوں کے جوڑوں، کان کے پیچھے، گھٹنوں کے اندرونی حصہ میں، پھوڑے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے، اس سے ورم اور شدید درد اٹھتا ہے، سوزش پیدا ہو جاتی ہے، اس کا اردگرد سیاہ ہو جاتا ہے، جو انتہائی خطرناک ہے، اس سے کم خطرناک اردگرد کا زرد ہونا ہے اور سب سے کم خطرناک سرخ ہونا ہے، اس سے دل دھڑکتا ہے، قے اور غشی طاری ہوجاتی ہے۔
فوائد ومسائل
طاعون کی وباء پہلی امتوں پر عذاب کی صورت میں مسلط کی گئی، بنو اسرائیل اپنے گناہوں کی پاداش میں اس سے کئی دفعہ دوچار ہوئے، جیسا کہ یہود و نصاریٰ کی کتاب ’’کتاب مقدس‘‘ کے عہد قدیم کے صحائف سے ثابت ہوتا ہے اور فرعونی بھی اس سے دوچار ہوئے، آپ نے وبائی زمین میں جانے سے منع فرمایا ہے، کیونکہ اس طرح ظاہری اسباب و وسائل کا ترک کرنا لازم آتا ہے، حالانکہ توکل کا معنی اسباب و وسائل کا ترک نہیں ہے، بلکہ جائز اسباب و وسائل اپنا کر نتائج اللہ کے سپرد کرنا توکل ہے اور وہاں سے بھاگنا، اسباب و وسائل ہی کو سب کچھ سمجھنا ہے اور یہ توکل کے منافی ہے، اسباب و وسائل اس وقت نتیجہ خیز ہو سکتے ہیں، جب اللہ کی اجازت اور مشیت ہو، اس لیے اسلام نے اعتدال و توازن کو اختیار کیا ہے، وبائی زمین سے بھاگ کر یہ سمجھنا میں اس طرح وباء سے بچ جاؤں گا، تقدیر کا انکار ہے اور وہاں جانا، اسباب و وسائل کا انکار ہے، ابو نضر کے الفاظ، لا يخرجكم الا فرار منه کا مفہوم یہی کہنا ہو گا کہ طاعون سے فرار ہی نکلنے کا سبب نہ ہو، وگرنہ ظاہری معنی کہ تم قرار اختیار کرتے ہی نکلے، حدیث کے سیاق و سباق کے منافی ہے، اس کا معنی تو یہ ہوا، فرار کے سوا کوئی صورت جائز نہیں ہے، جبکہ ابو نضر کا مقصد، فلا تخر فرارا فرارا منه کی توضیح و تشریح ہے، مقصد یہ ہے راہ فرار اختیار کرنے کے سوا کسی اور غرض اور مقصد کے لیے نکلنا جائز ہے، مثلا تحصیل علم کے لیے، تجارت کے لیے، علاج و معالجہ کے لیے، اگر محض فرار کے لیے نکلیں گے تو اس طرح دیکھا دیکھی اہل ثروت تو نکل جائیں گے، پیچھے محتاج و ضرورت مند رہ جائیں گے، ان کو کون سنبھالے گا، ان کے کفن دفن کا انتظام کون کرے گا اور ان کے جانے کے بعد اگر اللہ کی مرضی اور مشیت سے دوسری جگہ وباء پھیل گئی تو یہی سمجھا جائے گا کہ ان کے آنے کی وجہ سے یہاں بھی وباء پھیل گئی ہے، اس طرح بیماری کے متعدی ہونے کا عقیدہ پختہ ہو گا، جو اسلام کی منشا کے منافی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Amir bin Sa'd bin Abu Waqqas reported on the authority of his father that he asked Usama bin Zaid: What have you heard from Allah's Messenger (ﷺ) about plague? Thereupon Usama said: Allah's Messenger (ﷺ) said: Plague is a calamity which was sent to Bani Isra'il or upon those who were before you. So when you hear that it has broken out in a land, don't go to it, and when it has broken out in the land where you are, don't run out of it. In the narration transmitted on the authority of Abu Nadr there is a slight variation of wording.