Muslim:
The Book of Purification
(Chapter: The obligation of purifying oneself for the salat)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
224.
ابو عوانہ نے سماک بن حرب سے، انہوں نے مصعب بن سعد سے روایت کی، کہ عبد اللہ بن عمر ؓابن عامر کے پاس ان کی عیادت کے لیے گے، وہ بیمار تھے، ابن عامر نے کہا: اے ابن عمر! کیا آپ میرے لیے اللہ سے دعا کریں گے؟ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’نماز پاکیزگی کے بغیر قبول نہیں ہوتی، اور صدقہ ناجائز طریقے سے حاصل کیے ہوئے مال سے قبول نہیں ہوتا۔‘‘ اور آپ بصرہ کے حاکم رہ چکے ہیں۔ (مبادا آپ کے پاس کوئی ایسا مال آ گیا ہوگا)
اسلام میں طہارت اور پاکیزگی کی اہمیت وفضیلت
طہارت کا مطلب ہے صفائی اور پاکیز گی۔ یہ نجاست کی ضد ہے۔ رسول اللہﷺ کو بعثت کے بعد آغاز کار میں جو احکام ملے اور جن کا مقصود اگلے مشن کے لیے تیاری کرنا اور اس کے لیے مضبوط بنیادیں فراہم کرنا تھا، وہ ان آیات میں ہیں: يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ (1) قُمْ فَأَنْذِرْ (2) وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ (3) وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ (4) وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ (5) وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ (6) وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ (7) ”اے موٹا کپڑا لپیٹنے والے! اٹھیے اور ڈرایئے، اپنے رب کی بڑائی بیان کیجیے، اپنے کپڑے پاک رکھیے، پلیدی (بتوں) سے دور رہے، (اس لیے ) احسان نہ کیجیے کہ زیادہ حاصل کریں اور اپنے رب کی رضا کے لیے صبر کیجیے‘‘ (المدثر 71
اسلام کے ان بنیادی احکام میں کپڑوں کو پاک رکھنے اور ہر طرح کی جسمانی، اخلاقی اور روحانی ناپاکی سے دور رہنے کا حکم ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ اللہ سے تعلق، ہدایت اور روحانی ارتقا کا سفر طہارت اور پاکیزگی سے شروع ہوتا ہے جبکہ گندگی تعفن اورغلاظت شیطانی صفات ہیں اور ان سے گمراہی ، ضلالت اور روحانی تنزل کا سفر شروع ہوتا ہے۔
وُضُوْ، وَضَائَة سے ہے جس کے معنی نکھار اور حسن و نظافت کے ہیں ۔ اللہ تبارک و تعالی کے سامنے حاضری کی تیاری یہی ہے کہ انسان نجس نہ ہو، طہارت کی حالت میں ہو اور مسنون طریقہ وضو سے اپنی حالت کو درست کرے اور خود کو سنوارے۔ وضوسے جس طرح ظاہری اعضاء صاف اور خوبصورت ہوتے ہیں، اسی طرح روحانی طور پر بھی انسان صاف ستھرا ہو کر نکھر جاتا ہے۔ ہر عضو کو دھونے سے جس طرح ظاہری کثافت اور میل دور ہوتا ہے بالکل اسی طرح وہ تمام گناہ بھی دھل جاتے ہیں جوان اعضاء کے ذریعے سے سرزد ہوئے ہوں ۔
مومن زندگی بھر اپنے رب کے سامنے حاضری کے لیے وضو کے ذریعے سے جس وَضَائَةَ کا اہتمام کرتا ہے قیامت کے روز وہ مکمل صورت میں سامنے آئے گی اور مومن غَرُّ مُعُجَّلُونَ (چمکتے ہوئے روشن چہروں اور چمکتے ہوئے ہاتھ پاؤں والے) ہوں گے۔
نظافت اور جمال کی یہ صفت تمام امتوں میں مسلمانوں کو ممتاز کرے گی۔ ایک بات یہ بھی قابل توجہ ہے کہ ماہرین صحت جسمانی صفائی کے حوالے سے وضو کے طریقے پرتعجب آمیر تحسین کا اظہار کرتے ہیں ۔ اسلام کی طرح اس کی عبادات بھی بیک وقت دنیا و آخرت اور جسم و روح کی بہتری کی ضامن ہیں۔ الله تعالی کے سامنے حاضری اور مناجات کی تیاری کی یہ صورت ظاہری اور معنوی طور پر انتہائی خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ ہر ایک کے لیے آسان بھی ہے۔ جب وضو ممکن نہ ہو تو اس کا قائم مقام تیمم ہے، یعنی ایسی کوئی بھی صورت حال پیش نہیں آتی جس میں انسان اس حاضری کے لیے تیاری نہ کر سکے۔
ابو عوانہ نے سماک بن حرب سے، انہوں نے مصعب بن سعد سے روایت کی، کہ عبد اللہ بن عمر ؓابن عامر کے پاس ان کی عیادت کے لیے گے، وہ بیمار تھے، ابن عامر نے کہا: اے ابن عمر! کیا آپ میرے لیے اللہ سے دعا کریں گے؟ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’نماز پاکیزگی کے بغیر قبول نہیں ہوتی، اور صدقہ ناجائز طریقے سے حاصل کیے ہوئے مال سے قبول نہیں ہوتا۔‘‘ اور آپ بصرہ کے حاکم رہ چکے ہیں۔ (مبادا آپ کے پاس کوئی ایسا مال آ گیا ہوگا)
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ ابنِ عامر کے پاس ان کی بیماری کی عیادت کے لیے گئے۔ ابن عامر نے کہا: اے ابنِ عمر! کیا آپ میرے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا نہیں کریں گے؟ عبداللہ ؓ نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ فر رہے تھے: ’’کوئی نماز پاکیزگی کے بغیر قبول نہیں ہوتی اور نہ کوئی صدقہ خیانت کی صورت میں۔‘‘ اور آپ بصرہ کے حاکم رہ چکے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
غُلُولٌ: اصل میں غنیمت میں خیانت کو کہتے ہیں، پھر اس کا اطلاق ہر قسم کی خیانت پر ہونے لگا۔
فوائد ومسائل:
حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے زجر وتوبیخ کے لیے ابن عامر سے کہا: آپ حاکم بصرہ رہ چکے ہیں اور حاکم سے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں کوتاہی ہوجاتی ہے، اور بیت المال کے سلسلہ میں بھی کوتاہی ہو سکتی ہے، اس لیے ایسے فرد کے بارے میں دعا کی قبولیت مشکل ہوتی ہے، اس لیے آپ توبہ واستغفار کریں اور حق تلفی کے ازالہ کی کوشش کریں، تاکہ تیرے حق میں دعا قبول ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Mus'ab bin Sa'd reported: 'Abdullah son of Umar came to Ibn'Amir in order to inquire after his health as he was ailing. He said Ibn 'Umar, why don't you pray to Allah for me? He said: I heard of Allah's Messenger (ﷺ) say: Neither the prayer is accepted without purification nor is charity accepted out of the ill-gotten (wealth), and thou wert the (governor) of Basrah.